Uncategorized

غزہ پر مکمل قبضے اور جبری بے دخلی کا اسرائیلی منصوبہ، عالمی ماہرین کے سخت انتباہات

ماہرین کا خدشہ — قحط، آوارگی اور فوجی بحران میں شدت، خطے اور دنیا پر سنگین اثرات متوقع

شیعیت نیوز : غزہ جنگ کے دوران قابض اسرائیلی کابینہ نے ایک متنازع منصوبے کی منظوری دے دی ہے، جس کا مقصد غزہ پر مکمل قبضہ اور مقامی آبادی کی جبری بے دخلی ہے۔ یہ منصوبہ امریکی حمایت سے تیار کیا گیا ہے اور عالمی میڈیا نے اس کے سنگین انسانی، سیاسی اور فوجی نتائج پر خبردار کیا ہے۔

غیر ملکی خبر رساں اداروں کے مطابق، منصوبے کا آغاز غزہ شہر پر قبضے اور رہائشیوں کو جنوبی علاقوں، خصوصاً ساحلی پٹی المواصی کی طرف دھکیلنے سے ہو گا۔ اسرائیلی چینل 12 کا کہنا ہے کہ امریکہ اس منصوبے میں عارضی غیر فوجی ڈھانچے کے ذریعے لوجسٹک اور انسانی امداد فراہم کرے گا۔ ماہرین کا اندازہ ہے کہ غزہ شہر اور وسطی علاقوں پر مکمل کنٹرول حاصل کرنے میں تقریباً پانچ ماہ لگ سکتے ہیں۔

اطلاعات کے مطابق، غاصب اسرائیلی وزیراعظم بنیامین نیتن یاہو کا دعویٰ ہے کہ یہ منصوبہ "حماس کے خاتمے اور اسرائیلی سلامتی” کے لیے ہے، مگر بین الاقوامی مبصرین کا کہنا ہے کہ اس سے غزہ میں قحط کی صورتحال مزید بگڑ سکتی ہے، لاکھوں افراد بے گھر ہو سکتے ہیں اور قید اسرائیلی شہریوں کی جانیں بھی خطرے میں پڑ سکتی ہیں۔

یہ بھی پڑھیں : حزب اللہ کے ساتھ اختلافات بڑے نہیں، اسلحہ چھیننے سے اسرائیلی جارحیت بڑھے گی، نائب لبنانی وزیرِاعظم

دو ماہ میں شہریوں کی جبری منتقلی کا عندیہ
امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ نے ذرائع کے حوالے سے انکشاف کیا ہے کہ غاصب اسرائیلی کابینہ کے اجلاس میں غزہ پر مکمل قبضے کے منصوبے کے تحت شہریوں کی جبری منتقلی تقریباً دو ماہ میں مکمل کرنے کا لائحہ عمل بنایا گیا ہے۔

غزہ کے 35 سالہ احمد سالم، جو تین بچوں کے والد ہیں، نے واشنگٹن پوسٹ سے گفتگو میں کہا کہ ہمیں معلوم نہیں کہ وہ ہمیں کہاں جلا وطن کریں گے؟ غزہ پہلے ہی بہت چھوٹا ہے اور ان حالات میں زندگی انتہائی مشکل ہے۔

52 سالہ محمد سعید مرتجی، جو کینسر کے مریض ہیں اور چار بچوں کے والد ہیں، کا کہنا تھا کہ ہم اس منصوبے سے بدترین صورتحال کی توقع رکھتے ہیں، اور باضابطہ حکم آنے سے پہلے ہی نقل مکانی کی تیاریاں شروع ہو چکی تھیں۔

برطانیہ کی کنگز کالج لندن کے فوجی ماہر اہارون برگمن کے مطابق، غزہ کی تقریباً 90 فیصد آبادی پہلے ہی بے گھر ہو چکی ہے اور اس منصوبے سے مزید آوارگی بڑھے گی۔ انہوں نے کہا کہ مکمل قبضہ امداد کی فراہمی کو مزید پیچیدہ بنا دے گا اور پورا غزہ عملی طور پر ایک جنگی زون میں بدل جائے گا۔

قابض فوجیوں کی تھکن، قلت افرادی قوت اور قحط کا بڑھتا ہوا خطرہ
بین الاقوامی ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ غاصب اسرائیلی فوج اس وقت سازوسامان اور افرادی قوت کے لحاظ سے شدید دباؤ کا شکار ہے، اور غزہ کے باقی 25 فیصد علاقے پر قبضے کے لیے اسے ریزرو فورسز کی بڑے پیمانے پر بھرتی کی ضرورت ہے۔ موجودہ صورتحال میں تقریباً چار ڈویژن غزہ میں موجود ہیں جبکہ مکمل قبضے کے لیے کم از کم چھ ڈویژن درکار ہیں۔

رابرٹ کائسٹ پینفولڈ، کنگز کالج لندن میں بین الاقوامی سلامتی کے ماہر، کا کہنا ہے کہ چونکہ غزہ کی 80 فیصد آبادی صرف 20 فیصد رقبے میں محدود ہے، اس لیے قبضے کے پھیلاؤ سے قحط کی صورتحال خطرناک حد تک بڑھ جائے گی۔

برطانوی اخبار آئی پیپر کے مطابق، ماہرین نے یہ بھی خبردار کیا ہے کہ مکمل قبضے کی صورت میں غزہ میں موجود صیہونی قیدیوں کی جانیں بھی خطرے میں پڑ سکتی ہیں، کیونکہ فوجی آپریشن کے دوران اپنے ہی قیدیوں کے مارے جانے کا خدشہ ہے۔

اطلاعات کے مطابق، یہ منصوبہ خود قابض اسرائیلی فوج کے اندر بھی مخالفت کا سامنا کر رہا ہے۔ فوجی چیف ایال زامیر کا کہنا ہے کہ فوجی تھکن کا شکار ہیں، افرادی قوت اور سازوسامان ناکافی ہے، اور ریزرو فورسز کی بھرتی اس وقت مزید مشکل ہے کیونکہ عوام میں جنگ جاری رکھنے کے خلاف شدید مخالفت بڑھ رہی ہے۔

بین الاقوامی میڈیا کے مطابق، غاصب اسرائیلی کابینہ کے انتہا پسند وزرا، بالخصوص بیزلیل اسموتریچ اور ایتمار بن گویر، غزہ پر عارضی قبضے کو مستقل بنانے اور فلسطینیوں کو جبری طور پر بے گھر کرنے کی کوششوں میں مصروف ہیں تاکہ اس علاقے میں دوبارہ صیہونی آبادکاری کی راہ ہموار ہو سکے۔

یورجو ازجلیک، برطانیہ کے رائل یونائیٹڈ سروسز انسٹیٹیوٹ کے ماہر، کا کہنا ہے کہ غزہ پر مکمل قبضہ جنگ کے ایک تاریک مرحلے کا آغاز ہوگا، جس کے خطے اور عالمی سطح پر سنگین اثرات مرتب ہوں گے۔ ان کے مطابق اس اقدام سے تل ابیب مزید عالمی تنہائی کا شکار ہوگا اور ممکن ہے کہ وہ ممالک جو اب تک فلسطین کو تسلیم کرنے میں ہچکچاہٹ کا شکار تھے، اپنا فیصلہ بدل لیں۔

چتھم ہاؤس لندن کے پروفیسر یوسی میکلبرگ نے کہا کہ غزہ پر قبضے کا منصوبہ ممکنہ طور پر نیتن یاہو کی کابینہ کے انتہا پسند وزرا کے دباؤ میں تیار کیا گیا ہے، جو جنگ غزہ میں تل ابیب کے اہداف کو مزید سخت اور خطرناک سمت میں لے جا سکتا ہے۔

غزہ کے 34 سالہ مخلص المصری، جو شمالی غزہ میں اپنا گھر چھوڑنے پر مجبور ہوئے، نے نیویارک ٹائمز سے گفتگو میں کہا کہ صیہونی غزہ کے گنجان آباد علاقوں پر قبضے کی بات کر رہے ہیں، اور اگر ایسا ہوا تو یہ ایک بڑے پیمانے پر اجتماعی قتل کا سبب بنے گا، جس کے نتائج ہماری توقعات سے کہیں زیادہ خطرناک ہوں گے۔

متعلقہ مضامین

Back to top button