Uncategorized

امریکہ اور اسرائیل کی حزب اللہ کو غیر مسلح کرنے کی پالیسی ناکام، شیخ نعیم قاسم کا دوٹوک جواب

لبنان کے صدر و وزیراعظم کی امریکی دباؤ کے باوجود حزب اللہ کے ہتھیاروں پر پسپائی، اسرائیلی معاہدہ شکنی سے صورتحال مزید سنگین

شیعیت نیوز : امریکہ اور صہیونی حکومت لبنانی مقاومت کے ساتھ جنگ میں مسلسل شکستوں کے بعد اندرونی قوتوں کے ذریعے مقاومت سے اس کے ہتھیار چھیننے کی قدیمی پالیسی پر سنجیدگی کے ساتھ عمل پیرا ہیں، تاہم حسبِ سابق واشنگٹن اور تل ابیب کی کوششیں کسی حسبِ منشاء نتیجے تک پہنچنے سے پہلے ناکامی سے دوچار ہوگئی ہیں۔

لبنانی روزنامہ الاخبار نے بیروت میں جاری سفارتی سرگرمیوں کا جائزہ لیتے ہوئے بتایا کہ ایران کی اعلیٰ سکیورٹی کونسل کے سیکرٹری علی لاریجانی کے لبنان کے دورے کے بعد امریکہ کے نمائندے تھامس باراک اور مورگان اورٹاگوس نے لبنان کے اعلیٰ حکام سے ملاقاتیں کیں۔ سعودی عرب کے نمائندے یزید بن فرحان بھی جلد بیروت کا دورہ کریں گے۔

رپورٹ کے مطابق واشنگٹن لبنان کے محاذ پر دباؤ کی پالیسی کو جاری رکھنے پر مصر ہے اور امریکی نمائندوں نے لبنانی حکام سے مطالبہ کیا کہ وہ حزب اللہ کے ہتھیار لینے کے لیے ضروری اقدامات مکمل کریں۔ ظاہری طور پر یہ سفر لبنانی حکام کو قائل کرنے کے لیے تھا، تاہم امریکی وفد کی اصل توجہ لبنان کے موقف اور خصوصاً ایران کے اعلیٰ سکیورٹی اہلکار علی لاریجانی کے حالیہ دورے کے بعد پیدا ہونے والے سیاسی منظرنامے کی جانچ پر تھی۔

امریکی وفد کا دورہ زیادہ طویل نہ رہا اور ملاقاتوں کے فوراً بعد ہی وہ اسرائیل روانہ ہوگئے۔ لبنان کے نائب وزیرِ اعظم طارق مطری نے قطری چینل العربی سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اگر اسرائیل امریکی معاہدے کی پابندی نہ کرے تو لبنان کے لیے بھی اس معاہدے کی پابندی کرنا ضروری نہیں ہوگا۔

یہ بھی پڑھیں : اسرائیل جیسی ناجائز ریاست کو دوام بخش کر انسانیت کی تذلیل کی گئی، علامہ سید ساجد علی نقوی

اس دوران حزب اللہ کے سکریٹری شیخ نعیم قاسم نے واضح موقف اختیار کیا اور امریکہ کی دباؤ کی حکمتِ عملی کو ناکام بنا دیا۔ شیخ نعیم قاسم کے معقول موقف نے نہ صرف لبنان کے اندر حزب اللہ کی پوزیشن کو مضبوط کیا بلکہ خطے میں کھیل کا نقشہ بھی بدل کر رکھ دیا۔

باخبر ذرائع کے مطابق شیخ نعیم قاسم کی حالیہ تقریر ان کے سب سے اہم اور شدید اللحن خطابات میں سے ایک تھی۔ اس تقریر کے واضح اثرات لبنان میں دیکھے گئے اور اس نے لبنانی حکام کو اپنے فیصلوں پر غور کرنے پر مجبور کردیا۔ شیخ نعیم قاسم کے خیالات اور موقف کو امریکی نمائندے باراک کی لبنان میں تینوں اعلیٰ حکام کے ساتھ ملاقاتوں میں بھی زیرِ بحث لایا گیا، اور فوج کے کمانڈر رودولف ہیکل کے اجلاس میں بھی اس پر بات کی گئی۔

ذرائع نے انکشاف کیا کہ لبنان کے صدر جوزف عون نے اپنی ملاقات میں امریکی وفد باراک اور اورٹاگوس کے سامنے تین اہم نکات اٹھائے:

صدر جوزف عون نے کہا کہ لبنان نے پہلا ضروری قدم اٹھا لیا ہے اور ہتھیاروں کو محدود کرنے کا فیصلہ ایک مقررہ وقت کے اندر کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔ لبنان کی فوج اس فیصلے کو عملی طور پر نافذ کرنے کے لیے ذمہ دار ہے، لہٰذا امریکہ کو دمشق اور تل ابیب سے اس معاہدے کی منظوری حاصل کرنی چاہیے کیونکہ لبنان بغیر متقابل اقدامات کے اسے عملی شکل نہیں دے سکتا۔

صدر عون نے زور دیا کہ لبنان کی فوج کے پاس ضروری صلاحیتیں اور وسائل موجود نہیں، اور وہ اکیلے یہ مشن مکمل نہیں کرسکتی۔ لبنان کی فوج معاونت اور حمایت کی منتظر ہے۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ لبنان کے لیے مالی اور اقتصادی معاونت کے منصوبے کے آغاز کے لیے بنیادی ڈھانچہ تیار کیا جائے۔

اسی دوران، لبنان کے وزیراعظم نواف سلام نے امریکی نمائندے باراک سے ملاقات میں زور دیا کہ امریکہ اسرائیل پر دباؤ ڈالے تاکہ وہ جارحانہ کارروائیوں کو روک دے، مقبوضہ علاقوں سے پیچھے ہٹے اور قیدیوں کو آزاد کرے۔ انہوں نے اس کے ساتھ ہی لبنان کی فوج کی مالی اور سازوسامان کی بنیاد پر معاونت کی ضرورت پر بھی زور دیا تاکہ فوج اپنے مقررہ مشن کو کامیابی سے انجام دے سکے۔

ایک باخبر ذریعے کے مطابق صدر عون اور وزیراعظم سلام توقع کر رہے تھے کہ حزب اللہ ہتھیار ختم کرنے کے فیصلے پر خاموش رہے گی اور اسرائیلی دھمکیوں کی وجہ سے پیچھے ہٹ جائے گی، لیکن حزب اللہ کے سیکرٹری جنرل نے اس فیصلے کے خلاف مضبوط اور واضح موقف اختیار کیا۔ دوسری طرف، اسرائیل نے پچھلے ہفتوں میں لبنان کے ساتھ کسی بھی معاہدے کی پابندی سے انکار کیا اور عملی طور پر بھی لبنان پر اپنی جارحیت جاری رکھی۔

لبنانی روزنامہ الاخبار کے مطابق امریکی نمائندہ تھامس باراک کے حالیہ دورے میں کوئی نیا موقف سامنے نہیں آیا۔ اس سلسلے میں نبیہ بری نے زور دیا کہ اسرائیل کو پہلے مقبوضہ علاقوں سے پیچھے ہٹنا چاہیے اور جارحانہ کارروائیاں بند کرنی چاہئیں، اس کے بعد ہی حزب اللہ کے ہتھیار ختم کرنے کے معاملے پر کوئی بات ہوسکتی ہے۔

بری نے اپنا مؤقف دہرایا جو انہوں نے ایک روز قبل قطری چینل العربی کو دیے گئے انٹرویو میں بیان کیا تھا اور امریکی وفد کو سخت لہجے میں کہا تھا کہ آپ کے حالیہ دورے میں بیروت میں ایک معاہدہ ہوا تھا، تو پھر اس کی پابندی کیوں نہیں کی گئی کہ حالات اس حد تک پہنچ جائیں؟

اس کے علاوہ، نبیہ بری نے امریکی وفد سے سوال کیا کہ کیا اسرائیل نے جنگ بندی کے معاہدے کی پابندی کی اور لبنان کی سرحدوں سے پیچھے ہٹنے پر عمل کیا ہے یا نہیں۔ یہ اقدامات لبنان میں استحکام قائم کرنے کے لیے ضروری ہیں اور اس سے جنوبی علاقوں کے باشندوں کے اپنے گھروں میں واپس آنے، بحالی کے کاموں کے آغاز، اور لبنان کی فوج کی معاونت کے لیے بنیادی ڈھانچے کو یقینی بنانے میں مدد ملے گی۔

متعلقہ مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button