شام اور لبنان میں بڑھتی قربتیں امریکہ کی مزید بڑی شکست کا پیش خیمہ ہے

شیعیت نیوز: 2011ء میں جب شام میں خانہ جنگی کا آغاز ہوا تو دیگر عرب ممالک کی طرح لبنانی حکام نے بھی شام آمدورفت ختم کر دی۔ ان کے بقول اس پالیسی کا مقصد لبنان کو علاقائی سطح پر جاری مسلح تنازعات سے دور رکھنا تھا۔ لیکن سیاسی ماہرین اور تجزیہ کار اس حکمت عملی کی اصل وجہ امریکہ کی جانب سے شام کو گوشہ نشین کرنے کی کوشش پر مبنی پالیسی کی پیروی تھی۔ شام اور لبنان میں بڑھتی قربتیں امریکہ کی مزید بڑی شکست کا پیش خیمہ ہے۔
دوسری طرف اسلامی مزاحمت کی تنظیم حزب اللہ لبنان نے شام میں قانونی حکومت کی بھرپور حمایت کا سلسلہ جاری رکھا ہوا تھا۔ دس سال بعد حال ہی میں لبنان کے ایک اعلی سطحی وفد نے شام کا دورہ کیا ہے۔ اس وفد میں لبنان کی اہم سیاسی و مذہبی شخصیات کے علاوہ سماجی اور اقتصادی شعبوں میں سرگرم افراد بھی شامل تھے۔
موصولہ رپورٹس کے مطابق لبنانی وفد نے شام کے صدر سے اپنے ملک کو درپیش انرجی کے بحران کے تناظر میں تعاون کی اپیل کی اور اس سلسلے میں ان سے درخواست کی کہ وہ مصر سے گیس درآمد کرنے اور اردن سے بجلی لینے کیلئے اپنی سرزمین استعمال کرنے کی اجازت دے دیں۔ شام کے صدر بشار اسد نے بھی انتہائی وسعت قلبی اور دوستی کا ثبوت دیتے ہوئے فوراً یہ درخواست قبول کر لی ہے۔
یاد رہے لبنان اس وقت انرجی کے شدید بحران سے روبرو ہے اور ایندھن کی شدید کمی کے باعث بجلی کی کمی سے روبرو ہے جس کے نتیجے میں بڑے پیمانے پر اسپتال اور دیگر بنیادی ضرورت فراہم کرنے والے مراکز بند ہو جانے کا خوف پایا جاتا ہے۔ ایسے حالات میں امریکہ اور یورپی ممالک نے لبنان کو اپنے حال پر چھوڑ رکھا ہے۔
یہ بھی پڑھیں : تحریک انصاف حکومت کی احسان فراموشی اور تکفیری سرپرستی کا ایک اور مظہر علامہ شہنشاہ نقوی کے اسلام آباد داخلے پر دو ماہ کی پابندی عائد
لبنان میں امریکی سفیر مختلف بہانوں سے انرجی مصنوعات کی درآمد میں رکاوٹ بنی ہوئی تھیں۔ لیکن جب حزب اللہ لبنان کے سیکرٹری جنرل سید حسن نصراللہ نے دوٹوک موقف اختیار کرتے ہوئے ایران سے ملکی ضرورت کا پیٹرول اور ڈیزل درآمد کرنے کا اعلان کیا تو انہوں نے اپنے موقف میں کچھ حد تک نرمی پیدا کی اور لبنان کو مصر سے گیس حاصل کرنے اور اردن سے بجلی لینے پر رضامندی کا اظہار کر دیا۔
یاد رہے امریکہ نے شام کے خلاف بھی شدید پابندیاں عائد کر رکھی ہیں جو اس راستے میں بڑی رکاوٹ تھیں۔ لبنان میں مغرب نواز حلقہ جو امریکی سفیر کے احکامات کی پیروی کرتا ہے گذشتہ دس برس کے دوران شام سے ہر قسم کے تعاون کی شدید مخالفت کرتا آیا ہے۔ ان کی نظر میں لبنان کے کسی بھی حکومتی عہدیدار کا دورہ شام گناہ کبیرہ سے کم نہیں ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ اگر تکفیری دہشت گرد گروہ داعش کو شام میں نابود نہ کیا جاتا تو آج اس کی لبنان پر بھی حکومت برقرار ہونی تھی۔ داعش کی نابودی میں حزب اللہ لبنان کے مجاہدین کی جدوجہد اور قربانی بھی شامل ہے۔ لہذا ان حقائق کی روشنی میں لبنان کے مغرب نواز حلقوں کیلئے شرم سے ڈوب مرنے کا مقام ہے۔
دوسری طرف شام نے انتہائی وسعت قلبی سے لبنانی وفد کا استقبال کیا ہے۔ شام کے حکام نے گذشتہ دس برس کے دوران بعض لبنانی حکام اور سیاسی رہنماوں کی جانب سے مسلسل اپنی توہین سے چشم پوشی اختیار کی ہے۔ شام کا دورہ کرنے والے اس لبنانی وفد کی سربراہی نائب وزیراعظم محترمہ زینہ عکر کر رہی ہیں جبکہ ان کے ساتھ لبنان کے وزیر دفاع اور وزیر خارجہ بھی موجود ہیں۔
شام کے صدر نے لبنانی وفد کی جانب سے پیش کی جانے والی تمام درخواستیں قبول کی ہیں اور انہیں ہر ممکنہ تعاون کی یقین دہانی کروائی ہے۔ انہوں نے یہ کام اس حقیقت کو جاننے کے باوجود انجام دیا ہے کہ مذکورہ بالا لبنانی وفد امریکہ کی اجازت سے شام میں داخل ہوا ہے۔ شام کے حکام نے یہ فیصلہ انسانی ہمدردی اور عرب برادری کی خاطر انجام دیا ہے۔
انہوں نے اس اقدام کے ذریعے ثابت کر دیا ہے کہ وہ کسی قسم کی دشمنی سے عاری ہیں اور ہمسایہ ممالک کیلئے دوستانہ جذبات کے حامل ہیں۔ یوں یہ کہنا بجا ہو گا کہ شام نے اپنے اس عظیم اقدام کے ذریعے ہر قسم کے قومی اور لسانی تعصبات کو ختم کر کے لبنان میں خانہ جنگی کا دروازہ بند کر دیا ہے۔
لبنان کو درپیش انرجی کے حالیہ بحران میں حزب اللہ لبنان کے سیکرٹری جنرل سید حسن نصراللہ نے انتہائی ذہانت سے اور احساس ذمہ داری کا ثبوت دیتے ہوئے ایران سے پیٹرول اور ڈیزل لینے کا فیصلہ کیا جبکہ ایران نے بھی فوراً ان کی درخواست پر عملدرآمد کیا۔ اسی طرح شام کی حکومت اور قوم نے بھی لبنان کے حق میں بہت اچھے فیصلے کئے ہیں۔ ہمیں ان سب کا مشکور ہونا چاہئے۔
دوسری طرف ایسے عرب حکمران بھی ہیں جو تیل اور گیس کے سمندر میں غرق ہیں لیکن لبنانی مسلمان بھائیوں کی مدد کیلئے انہوں نے ایک بیرل تک نہیں بھیجا۔ افغانستان میں امریکہ ذلت آمیز شکست کھانے کے بعد اب اسلامی مزاحمتی بلاک سے بھی ایک چھوٹی شکست کھا چکا ہے جو عراق، شام اور فلسطین میں اس کی بڑی اور عظیم شکست کا پیش خیمہ ثابت ہو گی۔ انشاءاللہ
تحریر: عبدالباری عطوان (چیف ایڈیٹر اخبار رای الیوم)