ایم ڈبلیوایم انتہائی قدم کیوں نہیں اٹھاتی؟؟ | ابن حسن
ہمارے خیال میں ایم ڈبلیو ایم کو اپنے سیاسی حجم کے ساتھ پی ٹی آئی کے نزدیک رہتے ہوئے پی ٹی آئی حکومت کے غیر ذمہ دارانہ رویے پر بھرپور احتجاج کرنا چاہیے لیکن ساتھ پاور کوریڈورز کو بھی نہیں چھوڑنا چاہیے اور اپنی سیاسی جد وجہد کو کوریڈورز کے اندر سے جاری رکھنا چاہیے۔

شیعیت نیوز: داخلی حلقوں میں ایک ڈیبیٹ چل رہی ہے کہ ایم ڈبلیوایم کو سانحہ مچھ (کوئٹہ) پر وزیراعظم کے غیر ذمہ دارانہ رویے کے بعد انتہائی قدم کا سوچنا چاہیے۔ یاد رہے انتخابات کے دوران ایم ڈبلیو ایم اور پی ٹی آئی کے درمیان پنجاب اور خصوصاً گلگت بلتستان میں انتخابی ایڈجسٹمنٹ ہوئی تھی۔ جس کی بدولت اپنے حجم کو دیکھتے ہوئے پنجاب میں ایم ڈبلیو ایم نے ایک غیر منتخب مخصوص سیٹ اور ایک ایڈوائزر ٹو سی ایم کا وعدہ لیکر صوبہ بھر میں عام انتخابات میں پی ٹی آئی کو سپورٹ کیا تھا اسی طرح گلگت بلتستان میں ایم ڈبلیو ایم نے دو انتخابی حلقوں، ایک وزارت، ایک مخصوص سیٹ اور ایڈوائزر ٹو سی ایم لیکر دو انتخابی حلقوں کے علاوہ تمام حلقوں میں پی ٹی آئی کو سپورٹ کیا تھا۔
حالیہ صورت حال میں میرا خیال ہے ایم ڈبلیو ایم سے انتہائی قدم کا مطالبہ موزوں مطالبہ نہیں ہے۔ سانحہ مچھ (کوئٹہ) میں پی ٹی آئی خصوصاً وزیراعظم کا رویہ انتہائی قابل مذمت ہے۔ لیکن سیاسی میدان میں فیصلے خصوصاً انتہائی قدم سامنے والے فریق کے کسی ایک فیصلے یا رویے کو دیکھ کر نہیں بلکہ مجموعی نفع نقصان کی جمع تفریق کے بعد کیے جاتے ہیں۔ ایک وقت شامی فوج نے لبنان میں ح ز ب ا ل ل ہ کے درجنوں کارکنوں کو براہ راست فائرنگ کرکے ش ہ ی د کر دیا تھا۔ ح ز ب ا ل ل ہ نے نہ صرف شامی فوج کے اس اقدام کو برداشت کیا اور جوابی کاروائی نہیں کی بلکہ خود پر عوامی دباؤ بھی برداشت کیا۔ اس وقت شامی فوجوں کے لبنان سے انخلاء کا سلسلہ جاری تھا۔ بعید نہیں تھا کہ اگر ح ز ب ا ل ل ہ شامی فوج کی اس کاروائی کا جواب دیتی تو شامی فوج کا لبنان سے انخلاء کھٹائی میں پڑ جاتا۔ جس کی خاطر ح ز ب ا ل ل ہ نے اندرونی و بیرونی پریشر برداشت کیا اور غیر ضروری طور پر دشمن نہیں بنائے۔ اس ایک فیصلے کے اثرات بہت دور رس نکلے۔
یہ بھی پڑھیں: شہید سردار حاج قاسم سلیمانی کے وجود ظاہری کے بناءانکےگھر مجالس شہادت حضرت فاطمہ ؑ کا دوسرا سال
جب داعش اور شدت پسند گروہوں نے دمشق حکومت کے خلاف بغاوت شروع کی تو سب سے پہلے جو طاقت دمشق کی اتحادی بن کر میدان میں اتری وہ ح ز ب ا ل ل ہ ہی تھی اور سات سالہ جنگ کے بعد اب یہ دونوں طاقتیں خطے کے مزاحمتی بلاک کی فرنٹ لائن بن چکی ہیں۔ ح ز ب ا ل ل ہ کسی ایک جذباتی فیصلے کے تحت شامی فوج کے خلاف کوئی انتہائی قدم اٹھاتی تو شاید نہ اُس وقت لبنان سے شامی فوج نکلتی اور نہ بعدازاں اتنا بڑا مزاحمتی بلاک وجود میں آتا۔
پاکستان میں جدوجہد کا اصل میدان اگرچہ لبنان کی طرح عسکری نہیں بلکہ سیاسی ہے لیکن مجموعی اصول ایک ہی ہے کہ فیصلے وقتی جذباتی پن یا ردعمل کی نفسیات کے تحت نہیں بلکہ اجتماعی مصلحت اور مفاد کے تحت کیے جاتے ہیں۔
ہمارے خیال میں ایم ڈبلیو ایم کو اپنے سیاسی حجم کے ساتھ پی ٹی آئی کے نزدیک رہتے ہوئے پی ٹی آئی حکومت کے غیر ذمہ دارانہ رویے پر بھرپور احتجاج کرنا چاہیے لیکن ساتھ پاور کوریڈورز کو بھی نہیں چھوڑنا چاہیے اور اپنی سیاسی جد وجہد کو کوریڈورز کے اندر سے جاری رکھنا چاہیے۔ سیاسی و انتخابی ایڈجسٹمنٹ ہر جماعت کا حق ہے ایم ڈبلیو ایم نے بھی پی ٹی آئی سے اپنی حیثیت منوا کر اس سے ایڈجسمنٹ کی ہے اسے جاری رہنا چاہیے۔ ایم ڈبلیو ایم پی ٹی آئی کے ساتھ ایڈجسٹمنٹ جاری رکھنے کے حوالے سے اگر کوئی انتہائی قدم اٹھاتی ہے تو ایم ڈبلیو ایم کے پاس اگلا آپشن کیا ہو گا؟ دیگر سیاسی جماعتوں میں سے اس وقت کون ایسا ہے جس کا بیانیہ ایم ڈبلیو ایم کے بیانیے کے نزدیک ہو یا جو ایم ڈبلیو ایم کے لیے شیعہ نمایندہ سیاسی مذہبی جماعت کے طور پر کسی حیثیت کا قائل ہے؟ حتی بعض سیاسی گروہ تو شیعوں کے لیے بطور مکتب فکر ہی کسی حیثیت کے قائل نہیں اور انہیں شیعوں کی ہر حرکت فرقہ واریت محسوس ہوتی ہے چہ برسد کہ وہ کسی شیعہ نمایندہ جماعت کے لیے کسی حیثیت کے قائل ہوں۔
یہ بھی پڑھیں: ملت شام ہرگز اپنے دشمنوں کو ان کے عزائم میں کامیاب نہیں ہونے دے گی، شامی وزارت خارجہ
جسارتاً عرض کروں حالیہ سانحہ مچھ (کوئٹہ) کے بعد پی ٹی آئی حکومت نے انتہائی غیر ذمہ دارانہ رویے کے باوجود گزشتہ حکومتوں کی نسبت بہتر اقدامات کیے یا کرنے کا عندیہ دیا ہے۔ مثلا ہزارہ برادری کی شہریت کے مسائل انتہائی پیچیدہ اور عرصہ دراز سے چلے آرہے تھے۔ باپ کا اگر پاکستانی شناختی کارڈ ہے بھی تو بچوں کا نہیں بنتا، ایک دفعہ شناختی کارڈ بن گیا تو دوسری بار اس میں توسیع نہیں ہوتی، شناختی کارڈ ہے تو پاسپورٹ نہیں بنتا۔ اعتراض ایک ہی ہے کہ جاو اپنی شہریت ثابت کرنے والی دستاویزات لیکر آؤ۔ اس سانحہ کے نتیجے میں ہونے والے ملک گیر احتجاج کے بعد پی ٹی آئی حکومت نے اس مسئلے کے مستقل حل کا تحریری وعدہ کیا ہے۔ اس سے قبل اس برادری سے حکومتیں تحریری معاہدے نہیں کیا کرتی تھیں۔ یاد رہے یہ مسئلہ 2013 والے دھرنوں کے مطالبات والی فہرست میں بھی شامل تھا لیکن زبانی وعدوں کے علاوہ اب تک اس پر کوئی پیشرفت نہیں ہوئی تھی حتی کسی نے تحریری طور پر لکھ کر بھی نہیں دیا تھا کہ مسئلہ حل کرتے ہیں۔
اسی طرح صوبائی و ضلعی افسران، اراکین پارلیمان اور ہزارہ نمایندوں پر مشتمل ایک کمیٹی بھی بنائی گئی ہے جو ہزارہ برادری کی مسلسل نسل کشی کے اسباب اور محرکات تلاش کرنے کی کوشش کے ساتھ ساتھ ہزارہ برادری کے دیگر مسائل کا حل پیش کرنے کی کوشش کرے گی۔ اگرچہ میری رائے ہے کہ تسلسل کے ساتھ ہزارہ نسل کشی پر جوڈیشل کمیشن بننا چاہیے تھا کیونکہ یہ مسئلہ ان مسائل سے کم اہمیت ہرگز نہیں جن پر اس ملک میں جوڈیشل کمیشن بنائے جاتے ہیں۔
ہزارہ کمیونٹی کے جتنے لوگ اب تک شہید ہوئے ہیں ان میں سے اکثریت غریب طبقے سے تعلق رکھتی ہے۔ شہداء کے لواحقین کی مالی امداد تقریباً ہر بار احتجاج کا مطالبہ رہا ہے۔ ماضی میں حکومتیں چیک دیا کرتی تھیں جن میں سے اکثریت کے شناختی کارڈذ بلاک ہونے کیوجہ سے کیش ہی نہیں ہوپاتے تھے یا لواحقین کو دھکے کھانا پڑتے تھے۔ اس بار احتجاج کے نتیجے میں نہ صرف یہ کہ شہداء کے لواحقین کو امداد کی مد میں نسبتا اچھی رقم دی گئی بلکہ وہ موقع پر کیش کی صورت میں ادا بھی کردی گئی ہے۔ اس سے شہداء کے لواحقین دوہری اذیت سے بچ جائیں گے۔
وزیراعظم نے لشکر جھنگوی اور داعش کا نام لیکر انہیں ہزارہ کمیونٹی کا قاتل قرار دیا۔ یعنی ریاست کے چیف ایگزیکٹو نے رسمی طور پر قاتل کی شناخت کا اعلان کیا ہے۔ ماضی کے واقعات میں ایسا نہیں ہوا۔ وزیراعظم کے بعد فوج کے سربراہ نے کوئٹہ جاکر لواحقین سے ملاقات کی یعنی ریاست نے ہزارہ قوم کی مظلومیت کو رسما تسلیم کیا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: بحرین میں انسانی حقوق کی کھلی خلاف ورزیوں پر ہیومن رائٹس واچ کی کڑی تنقید
تبادلے وغیرہ دیگر واقعات کے بعد بھی ہوتے رہتے ہیں انہیں میں کوئی بڑی کامیابی نہیں سمجھتا۔
اس ساری صورتحال کا بغور جائزہ لیا جائے تو ہزارہ کمیونٹی اور ایم ڈبلیو ایم سمیت ان کی حمایت میں احتجاجی تحریک شروع کرنے تمام لوگ کامیاب ہوئے ہیں۔ ہزارہ کمیونٹی کی مظلومیت زبان زدِ عام ہوئی ہے۔ ریاستی اداروں سمیت اکثر بین الاقوامی ادارے اس احتجاج کی بدولت اس حساس مسئلے کی طرف متوجہ ہوئے ہیں۔ غیر ذمہ دار سیاست دان اور عناصر بے نقاب ہوئے ہیں۔ ہزارہ کمیونٹی کو ہمدردی کا احساس ہوا ہے۔ قوم میں ایک یکسوئی اور اتحاد و اتفاق نظر آیا ہے۔ یہ سب چیزیں ان ماؤں اور بہنوں کے دکھ اور درد کو ہرگز کم نہیں کرسکتے لیکن یہ بتانے کے لیے کافی ہے کہ اگر ہم چاہیں تو بطور معاشرہ بہتری کی جانب نہ صرف حرکت کرسکتے ہیں بلکہ ایک بہتر معاشرہ تشکیل بھی دے سکتے ہیں۔ شرط صرف سنجیدگی ہے اور یہ شرط ریاست سے لیکر عام شہری تک صادق ہے۔
سانحہ مچھ (کوئٹہ) اور اس سے قبل کے سانحات میں شہید ہونے والوں کے لواحقین کا درد سمجھنے کے لیے کسی ایک واقعہ کی تفصیلات پڑھ یا دیکھ لینا کافی ہے۔ 2012 میں جب کوئٹہ سے تفتان جانے والی ہزارہ زائرین کی بس کو روک کر چہرے پہچان کر اتارے جانے کے بعد ان پر گولیوں کو بوچھاڑ ہوئی تو میں اس وقت کا عینی شاہد ہوں۔ ڈرائیور بس رکتے ہیں اتر کر دور بھاگ گیا تھا لیکن دہشت گردوں کو ڈرائیور سے غرض بھی نہیں تھی کیوں کہ وہ غیر ہزارہ تھا۔ چہروں سے پہچان کر غیر ہزارہ مسافروں کو انہوں نے بس سے اتار کر ایک طرف بٹھا دیا اور پھر ہماری آنکھوں کے سامنے ہزارہ جوانوں کو گولیوں سے بھون ڈالا۔ ہم آنکھیں بند کیے کانوں میں انگلیاں دےکر چیختے رہے۔ لیکن بے بسوں کی چیخوں سے کب کبھی کسی ظالم کا ہاتھ رکا ہے؟. میں جب بھی وہ منظر یاد کرتا ہوں پوری پوری رات سو نہیں سکتا۔ ان اوائل میں تو میں رات کو سوتے وقت خوف کے مارے چیخیں مار کر اٹھ جاتا تھا۔ میری ہزارہ برادری میں کوئی رشتہ داری یا خاص تعلق نہیں ہے بس چند ہزارہ دوست ہیں اور بس! مجھ جیسا جوان آدمی صرف اس ایک سانحے کو اپنی آنکھوں کے سامنے دیکھ کر جب بھی اس سانحے کو یاد کرتا رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں تو جس بوڑھے باپ کا جوان بیٹا یا جن بہنوں کا جوان بھائی یا جس ماں کا لخت جگر کٹے گلے کے ساتھ یا چھلنی بدن کے ساتھ ان کے سامنے لایا گیا ہو تو وہ ناجانے کیسے اس غم کو برداشت کرپائے ہوں گے؟۔
یہ بھی پڑھیں: مسجد اقصیٰ کے انتظامی امور میں اسرائیلی مداخلت مذہبی جارحیت ہے، عمر الکسوانی
پاکستان میں بسنے والی ہزارہ برادری درد و اَلم کی تصویر بنے ہوئے ہیں ان کا درد سمجھنے کے لیے ان کے ساتھ قومی، مذہبی یا علاقائی تعلق ہونا ہرگز ضروری نہیں ہے بس ایک دل چاہیے جس میں انسانیت کا درد ہو۔ اور درد ہی دوا کا مقدمہ بنتا ہے۔ خدا کرے اس بار جو درد ہزارہ برادری کا ریاست اور قوم کو محسوس ہوا ہے وہ ان کے درد کی دوا کا مقدمہ ثابت ہو اور آئندہ ہزارہ برادری کو کوئی ایسا نیا درد نہ سہنا پڑے۔