اہم ترین خبریںشیعت نیوز اسپیشلمقالہ جات

اسرائیل ایشو پر بے ضمیروں کی سنیں !؟

اسرائیل ایشو پر بے ضمیروں کی سنیں !؟ مسئلہ مشیراور ضمیر کے درمیان میں سے کسی کے انتخاب کا نہیں ہے۔  لیکن بے ضمیروں کی تحریر و گفتار میں لفظ ضمیر سے کچھ اور ہی مراد ہوا کرتا ہے۔ برے بھلے میں تمیز کرکے برائی کو مسترد کرنا اور بھلائی کو قبول کرنا، جس انسان کے اندر یہ صلاحیت ہو اسے باضمیر کہا جاتا ہے۔ اسلامی اخلاقیات میں نفس لوامہ کسی حد تک اسی کیفیت کا مظہر ہے۔

Saudi regime blackmails Pakistan government to recognize Israel at earliest

لیکن نفس امارہ جن پر غالب ہو، انہیں ہی عرف عام میں بے ضمیر کہتے ہیں۔ یہ تمہیدی جملے ایک غیر منطقی و بے تکے کھوکھلے جملوں پر مشتمل ایک تحریر پڑھ کر جواباً عرض کرنے پڑے ہیں۔

انڈی پینڈنٹ اردو ڈاٹ کام

جس تحریر سے متعلق یہ جوابی تحریر ہے، وہ انڈی پینڈنٹ اردو ڈاٹ کام ویب سائٹ پر موجود ہے۔ ویسے تو برطانوی ادارہ بی بی سی ہو امریکی ادارہ وائس آف امریکا، بہت سوں نے عرصے سے اردو زبان میں بھی ریڈیو،ٹی وی نشریات اور ویب سائٹ کا جال بچھا رکھا ہے۔ جرمنی بھی ڈوئچے ویلے کے ساتھ میدان میں ہے۔

پاکستانی زایونسٹ مقبوضہ یروشلم جانا چاہتے ہیں ؟

لیکن سال 2018ع سے سعودی عرب کے شاہی خاندان سے قریبی تعلق رکھنے والے میڈیا گروپ نے برطانوی اخباری گروپ دی انڈی پینڈنٹ کے ساتھ معاہدہ کررکھا ہے۔ اس معاہدے کے تحت سعودی میڈیا گروپ عربی، ترکی اور اردو ویب سائٹس چلارہا ہے۔

اسرائیل ایشو پر بے ضمیروں کی سنیں !؟

یوں تو زایونسٹ امریکی عبری غربی عربی اتحاد کے زرخرید بے ضمیروں کا ایک لشکر آج کل اسرائیل کو تسلیم کرلینے کے حق میں ماحول سازی کی اسائنمنٹ پر ہے۔ اور مذکورہ بالا نام نہاد میڈیا پلیٹ فارمز ایسے ہی افراد کی اکثریت پر مشتمل ہیں۔

”اسرائیل: مشیرکی سنیں یا ضمیر کی؟“
 سعودی مالکان کی ہی سنی جارہی ہے

لیکن زیر نظر تحریر میں بنیادی طور پر سعودی عرب کے تابع انڈی پینڈنٹ اردو، عربی و ترکی زبان ایڈیشن فوکس کرتے ہیں۔  ہم محترمہ عفت حسن رضوی کے سوال مورخہ سولہ دسمبر 2020ع بعنوان ”اسرائیل: مشیرکی سنیں یا ضمیر کی؟“ کے جواب میں فقط ایک جملہ عرض کردیں کہ ا نڈی پینڈنٹ اردو ڈاٹ کام ویب سائٹ پر صرف انکے سعودی مالکان کی ہی سنی جارہی ہے۔  عقل و منطق، عدل و انصاف پر مبنی موقف کی تو انڈی پینڈنٹ سعودی گروپ سنی ان سنی کررہا ہے۔

https://www.jewishvirtuallibrary.org/u-s-vetoes-of-un-security-council-resolutions-critical-to-israel

پاکستان اپنی منفرد تاریخی حیثیت پر نازاں

حالانکہ زمینی حقیقت یہ ہے کہ پاکستان نے اسرائیل کو تسلیم نہیں کیا تو ضمیر ہی کی سن کر ایسا کیا۔ اس کا ایک پس منظر ہے۔ پاکستان اپنی منفرد تاریخی حیثیت پر نازاں ہے۔ یہ اس مخصوص جغرافیائی حدود میں مسلمانوں پر اسلام کی حکمرانی کے لیے معرض وجود میں آیا۔ پاکستان کو اپنی اسلامی شناخت پر فخر ہے۔ اور یہ اسلامی شناخت اللہ اور اللہ کے رسول خاتم الانبیاء حضرت محمد مصطفی ﷺ کی عطاکردہ ہے۔ اسکا تعلق کسی بھی ملک کے موجودہ حکمرانوں سے نہیں۔

فلسطین پر یہودی دعویٰ غیر جمہوری اور ناجائز

جب بانیان پاکستان اس آزاد و خود مختار مملکت حاصل کرنے کی جدوجہد میں مصروف تھے، تب سے مسلمانان برصغیر کی نمائندہ جماعت مسلم لیگ نے فلسطین پر یہودی دعویٰ کو غیر جمہوری اور ناجائز قرار دے رکھا تھا۔ یاد رہے کہ تب عرب اکثریتی فلسطین پر نسل پرست یہودی دہشت گردوں کی جعلی ریاست اسرائیل قائم نہیں ہوئی تھی، تب بھی برصغیر کے مسلمان عرب اکثریتی فلسطین پر یہودی اقلیتی حاکمیت کے شدید مخالف تھے۔

جمہوری اصولوں کے قاتل

اسرائیل ایک جعلی ریاست ہے۔ فلسطین کی مقدس سرزمین پر نسل پرستانہ غیر قانونی و ناجائز قبضے کا نام اسرائیل ہے۔ پوری دنیا سے سازش کے تحت عرب اکثریتی فلسطین میں جمع ہونے والے غیر فلسطینی نسل پرست یہودی دہشت گرد ٹولوں یعنی ہگانہ، ارگن، زیوی، لیوی کا مقامی فلسطینی عربوں کے قتل عام کرکے اسرائیل کو مسلط کیا گیا۔

  بیت المقدس پر غیر قانونی قبضہ

جمہوری اصولوں کے قاتلوں نے پہلے تل ابیب کو دارالحکومت بنایا اور اب بیت المقدس پر غیر قانونی قبضہ کو امریکا سے منواچکے ہیں۔ عرب اکثریتی فلسطین میں غیر مقامی فلسطینی اقلیت جو امریکا، یورپی ممالک، روس اور افریقی ممالک سے آکر یہاں آباد ہوگئے۔

فلسطین کی مظلومیت کا نوحہ

جبکہ لاکھوں فلسطینی اپنے وطن کے ہوتے ہوئے دیگر ممالک میں قائم پناہ گزین کیمپوں میں کسمپرسی کی زندگی گذارنے پر آج بھی مجبور ہیں۔ انکے گھروں اور علاقوں میں دنیا بھر سے آنے والے یہودی قابض ہوگئے۔

ضمیر اگر ہوتا تو فلسطین کی مظلومیت کا نوحہ لکھا جاتا۔ اگر ضمیر ہوتا تو عدل و انصاف کی بات کی جاتی۔ بے ضمیر وں پر بھی کسی حد تک اس شعر کا اطلاق ہوتا ہے:

ہمیں ان سے ہے امید وفا
کہ جو نہیں جانتے کہ وفا کیا ہے

فلسطینی مظلوم بھائیوں کے خلاف اسرائیل کے سہولت کار

جو خائن سعودی، اماراتی، بحرینی، مراکشی، اردنی، مصری حکمران اپنے عرب فلسطینی مظلوم بھائیوں کے خلاف اسرائیل کے سہولت کار بن گئے، ان کی ڈکٹیشن اور بلیک میلنگ کے آگے سرنگونی کا مطلب یہ ہوگا کہ پاکستانی قوم کا مستقبل بھی فلسطینیوں جیسا ہی ہونا ہے۔

جانو جرمن یہودی صحافی کے دوست جاوید چوہدری کو جواب

بجائے اسکے کہ مظلوم کشمیریوں کے حق میں بات کی جائے، اسرائیل کو تسلیم کرنے کے مالیخولیائی فوائد بیان کیے جارہے ہیں، جن کا سرے سے کوئی وجود نہیں۔

دوستی اور اتحاد میں یہ نقصانات ہوئے

پاکستان نے تو تمام تر مشکلات کے باوجود اسرائیل سے کئی درجہ بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے۔ قرض جیسے لاعلاج مرض کے باوجود، زایونسٹ عربی بلاک کے ساتھ دوستی کے باوجود پاکستان میں تکفیری دہشت گردی نے جو جانی و مالی نقصانات کیے، اسکی نظیر ملنا ممکن نہیں۔ جب دوستی اور اتحاد میں یہ نقصانات حاصل ہوئے تو اس سے تو بہتر تھا کہ انہیں دشمن ہی قرار دیا جاتا۔

امریکی مغربی بلاک کی کھلی منافقت

ایک طرف تو مغربی بلاک اور انکا قائد امریکا جمہوریت اور حقوق انسانی کے ڈھول پیٹتے نہیں تھکتا۔ اور دوسری طرف پوری عرب دنیا میں موروثی بادشاہ یا فوجی ڈکٹیٹروں کو ایک طویل عرصے سے دوست، اتحادی اور شراکت دار بنارکھا ہے۔

 

کیونکہ یہ امریکا کے دوست، اتحادی اور شراکت دار عرب دنیا کے سب سے بڑے جمہوریت دشمن یعنی جعلی ریاست اسرائیل کے مفاد میں امریکا کے سہولت کار بنے رہے۔ اسکے باوجود اسرائیل کو تسلیم کرنے کے بعد بھی مصر اور اردن اقتصادی لحاظ سے ناکام ترین ملک ثابت ہوئے، حالانکہ انکی آبادی پاکستان سے بھی کم ہے۔

اسرائیل ایشو پر بے ضمیروں کی سنیں !؟

یہ چمچے جو دیگ سے زیادہ گرم کی زندہ مثال بنے ہوئے ہیں، ان پڑھے لکھے جاہلوں کو ککھ کچھ پتہ نہیں ہوتا اور اسی نوعیت کی بے تکی، غیر منطقی باتوں سے خودکے بے ضمیر ہونے کا ثبوت دیتے ہیں۔

اسرائیل ناجائز قبضہ گروپ

پاکستان ایک نظریہ کا نام ہے اوریہ نظریہ اسے اسرائیل جیسے ناجائز قبضہ گروپ کو تسلیم کرنے سے روکتا ہے۔ خائن اور غدار خواہ مشیرہوں خواہ لکھاری، ان کے خلاف پوری پاکستانی قوم کو صدائے احتجاج و احتساب بلند کرنی چاہیے۔ پاکستان ہرگز اپنے صادق جمہوری اسلامی نظریے کو داؤ پر نہیں لگائے گا۔ کیونکہ نظریہ پاکستان منطقی ہے

:

ہے خاک فلسطیں پہ یہودی کا اگر حق
ہسپانیہ پہ حق نہیں کیوں اہل عرب کا

ایم ایس مہدی شیعیت نیوز اسپیشل
اسرائیل کو تسلیم کرنے کے نقصانات برائے پاکستان

 

متعلقہ مضامین

Back to top button