عراق کے شیعہ آبادی والے علاقے پر داعش کا کیمیائی حملہ
داعش کے دہشت گردوں نے ایک بار پھر شمالی عراق کے صوبے کرکوک کے شیعہ آبادی والے علاقے طوز خور ماتو میں ممنوعہ کیمیائی ہتھار استعمال کیے ہیں۔
عراق کے ترکمن فرنٹ کے سربراہ ارشد صالحی نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ داعشی دہشت گردوں نے طوز خورماتو کے علاقے کو ایسے مارٹر گولوں سے نشانہ بنایا ہے جن میں کیمیائی مواد بھرا ہوا تھا۔ تیل سے مالا کرکوک شہر سے محض پچیس کلومیٹر کے فاصلے پر واقع طوز خورماتو پر داعش کے کیمیائی حملوں میں کم سے کم تین افراد شہید اور سو کے قریب زخمی ہوئے ہیں۔
کیمیائی ہتھیاروں پر پابندی کی عالمی تنظیم او پی سی ڈبلیو کے ڈائریکٹرجنرل احمد اوزمکو نے کہا ہے کہ ان کی تحقیقاتی ٹیم کو ایسے شواہد ملے ہیں جن سے پتہ چلتا ہے کہ داعش نے شام سے ملنے والی سرحد کے قریب واقع عراقی علاقوں میں عام شہریوں کے خلاف سلفر مسٹرڈ گیس کے حامل بم استعمال کیے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ایسی بھی اطلاعات ہیں کہ داعش کے عناصر کیمیائی مواد کی تیاری اور ان سے بم بنانے کی مہارت رکھتے ہیں۔
ادھر اقوام متحدہ میں روس کے نمائندے ویتالی چورکین نے سلامتی کونسل کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ترکی نے داعش کو کیمیائی ہتھیار فراہم کیے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ تکریت کے نواحی علاقوں میں داعش کے جو کیمیائی بم برآمد ہوئے ہیں ان کے جائزے سے پتہ چلتا ہے کہ یہ کیمیائی مواد یا تو ترکی نے فراہم کیا ہے اور یا غیر قانونی طور پر ترکی میں فروخت کیا گیا ہے۔
اقوام متحدہ کے مستقل نمائندے کا کہنا تھا کہ خطے میں کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے اور دہشت گرد انہیں استعمال کر رہے ہیں لیکن سلامتی کونسل کے بعض ملکوں نے اس پر آنکھیں بند کر رکھی ہیں۔
انہوں نےدہشت گردی کے خلاف جنگ میں حکومت عراق کی حمایت کرتے ہوئے کہاکہ بغداد میں دہشت گردی کی بڑھتی سرگرمیوں نے، داعش مخالف اتحاد کی کارکردگی پر سوالیہ نشان لگا دیئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ترکی مسلسل عراق کے اقتدار اعلی کی خلاف ورزی کر رہا ہے۔
قابل ذکر ہے کہ داعش نے سات اپریل کو شمالی شام کے کرد آبادی والے علاقے پر کیمیائی بموں سے حملہ کیا تھا جس میں تئیس افراد ہلاک اور سو سے زائد افراد زخمی ہوگئے تھے۔
رپورٹوں کے مطابق داعش نے سن دوہزار گیارہ سے اب تک عراق اور شام میں ایک سو ساٹھ بار سارین اور کلورین گیس کے حامل بم استعمال کیے ہیں ، جس کے نتیجے میں ایک ہزار چار سو اکیانوے افراد مارے جاچکے ہیں۔