سعودی عرب

شیخ محمد علي عَمري کا انتقال پر ملال / مختصر سوانح عمری

aytullah_ameriآیت اللہ محمد علی عَمری آج صبح سعودی دارالحکومت ریاض میں داعی اجل کو لبیک کہہ گئے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق مرحوم شیخ محمد علی عَمری کے خاندانی ذرائع نے ذرائع ابلاغ کو بتایا ہے کہ سعودی عرب کے یہ بزرگ شیعہ عالم طویل عرصے تک اسلام اور مکتب اہل بیت (ع) کی خدمت کرنے کے بعد آج صبح 120 سال کی عمر میں، ریاض کے ایک ہسپتال میں انتقال کرگئے ہیں۔
آیت اللہ شیخ محمد علی عَمری کا آبائی شہر مدینہ منورہ ہے اور انھوں نے طویل عرصے تک شدید وہابی ـ سعودی دباؤ کے باوجود وسیع علمی، تبلیغی اور سماجی خدمات سرانجام دی ہیں اور وہابیوں کے شدید دباؤ کے باوجود مدینہ منورہ میں عظیم مسجد و امامبارگاہ کی بنیاد رکھی جہاں شیعیانِ مدینہ سلفیوں کی شدید مخالفتوں کے باوجود اپنے دینی مراسمات بجالایا کرتے ہیں۔
سلفیوں نے کئی بار بدنام زمانہ سعودی مذہبی پولیس کی مدد سے اس مسجد و امامبارگاہ کو بند کرایا ہے اور شیخ عَمری اور کو ان کے رفقائے کار کے ہمراہ قید و بند کی صعوبتیں جھلینی پڑی ہیں۔
قابل ذکر ہے کہ مرحوم آیت اللہ شیخ محمد علی عََمری نے اپنی زندگی کے 45 برس سعودی جیلوں میں گذارے ہیں۔
عالمی اہل بیت (ع) اسمبلی اور اہل البیت (ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا ـ مرحوم آیت اللہ العظمی شیخ محمد علی عَمری کے انتقال کی مناسبت سے حضرت بقیةاللہ الاعظم امام مہدی عَجَّلَ اللہ فَرَجَہ الشَّریف، رہبر مسلمین حضرت آیت اللہ العظمی امام سید علی خامنہ ای، مراجع عظام و علمائے اعلام، مرحوم عالم دین کے خاندان معظم اور شیعیان حجاز کو تسلیت و تعزیت عرض کرتی ہیں۔
شیخ العَمری آیت اللہ العظمی امام خمینی رحمۃاللہ علیہ کے قریبی دوستوں میں سے تھے۔ انھوں نے 1941 سے 1955 تک کا عرصہ حصول علم کے سلسلے میں قم المقدسہ میں گذارا تھا اور امام خمینی (رح) کے کہنے پر مدینہ منورہ واپس جاکر تبلیغ و تدریس کا سلسلہ شروع کیا اور شیعیان حجاز کی معنوی قیادت سنبھالی۔
آیت اللہ شیخ عَمری کا سب سے پہلا اعتراض 8 شوال 1383 ہجری (بمطابق 22 فروری 1964) کو یوم انہدام جنت البقیع کی مناسب سے تھا جس کی پاداش میں انہیں جیل جانا پڑا اور عرصہ دس سال تک قید و بند کی سختیان برداشت کرنی پڑیں۔ انہیں اس عرصے میں شدید اذیتوں کا نشانہ بنایا گیا۔
آیت اللہ شیخ محمد علی عَمری سنہ 1979 کو خفیہ طور پر سعودی عرب سے نکلے اور اپنے پرانے دوست سے ملنے تہران پہنچے اور تہران میں امام خمینی رحمۃاللہ علیہ سے ملاقات کی اور جب حجاز لوٹے تو سعودیوں نے انہیں گرفتار کرکے تین برس جیل میں رکھا۔
شیخ العَمری رحمۃاللہ علیہ کی اہمترین تحریک 1987 کو مکہ معظمہ میں سعودیوں کے ہاتھوں ایرانی حجاج کے قتل عام کے موقع پر شروع ہوئی جس کی پاداش میں انہیں گرفتار کیا گیا اور سعودی بے عدل عدالتوں نے انہیں موت کی سزا سنائی جس پر مدینہ اور منطقۃالشرقیہ کے شیعہ اکثریتی علاقوں میں وسیع مظاہروں کا سلسلہ شروع ہوا اور وہابی عدالت کو ان کی سزائے موت عمر قید میں بدلنا پڑی۔ اس زمانے میں بھی شیخ العمری عمر نوے برس سے زیادہ تھی جس کی بنا پر سعودیوں کو انہیں جیل سے رہا کرنا پڑا۔
یہ بات خاص طور پر قابل ذکر ہے کہ شیخ العَمری صاحب رائے مجتہد ہونے کے باوجود مرجعیت کے دعویدار نہیں تھے اور اپنے آپ کو حضرت امام خمینی رحمۃاللہ علیہ کا مقلد سمجھتے تھے۔
واضح رہے کہ سعودی عرب کے شیعیان اہل بیت (ع) کی اکثریت حضرت امام خمینی رحمۃاللہ علیہ کی تقلید پر باقی ہے جبکہ شیعہ نوجوان حضرت آیت اللہ العظمی امام خامنہ ای اور حضرت آیت اللہ العظمی سید علی سیستانی کے مقلد ہیں۔

متعلقہ مضامین

Back to top button