سیرت نبویؐ میں حقوق بشر / 1400 سال پر محیط بشر دوستانہ اصول و حقوق
حجت الاسلام حمیدرضا مطہری کا قم المقدسہ میں خطاب، رسول اکرمؐ نے جنگی حالات میں بھی انسانی اقدار کی ضمانت فراہم کی

شیعیت نیوز : علوم و ثقافت اسلامی تحقیقی ادارہ کے رکن حجت الاسلام والمسلمین حمیدرضا مطہری نے ایران کے شہر قم المقدسہ میں منعقدہ سلسلہ نشست "پیامبر رحمت” میں، جو حوزہ اور یونیورسٹی کے اساتید کی موجودگی میں "سیرت نبوی میں حقوق بشردوستانہ” کے موضوع پر ہوئی، خطاب کرتے ہوئے کہا کہ آج جس مسئلے پر توجہ دی جا رہی ہے وہ سیرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں حقوق بشردوستانہ ہے، کیونکہ آپ بحیثیت پیامبر رحمت نہ صرف اپنے پیروکاروں کے لیے بلکہ پوری انسانیت کے لیے مظہر شفقت اور مہربانی تھے اور آپ کے فرامین و سیرت اس حقیقت پر روشن دلیل ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ وہ معاشرہ جہاں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مبعوث ہوئے، تشدد، قبائلی تعصبات اور جہالت سے بھرا ہوا تھا؛ ایک ایسا ماحول جس میں خشونت بنیادی خصوصیت تھی۔ ایسے حالات میں پیامبر رحمت تشریف لائے تاکہ اس معاشرے کو جہالت کے اندھیروں سے عقلانیت کی روشنی کی طرف، ظلم و تشدد سے عطوفت کی طرف اور تبعیض سے انصاف کی طرف منتقل کریں۔ آپ کامیاب ہوئے کہ اسی جاہلانہ خشن معاشرے کو دوسری اقوام اور تہذیبوں کے لیے نمونہ بنا دیا۔
یہ بھی پڑھیں : سادہ زندگی، دوسروں کا خیال اور بے مثال سخاوت، امام حسن مجتبیؑ کی سیرت کے نمایاں پہلو
حجت الاسلام والمسلمین مطہری نے حقوق بشر اور حقوق بشردوستانہ کے فرق کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ حقوق بشر مجموعی طور پر انسانوں کے تمام حالات میں حقوق پر بحث کرتا ہے لیکن حقوق بشردوستانہ ان انسانوں کے حقوق پر توجہ دیتا ہے جو جنگی حالات میں شریک نہیں ہوتے، یعنی غیر فوجی افراد کو جنگ میں نشانہ نہیں بنایا جانا چاہیے۔ آج یہ موضوع مختلف کنونشنز اور بین الاقوامی قوانین میں مدون تو ہے لیکن بدقسمتی سے ضمانتِ اجرا نہ ہونے کی وجہ سے اکثر ان کی خلاف ورزی ہوتی ہے۔
انہوں نے ان قوانین کا موازنہ سیرت رسول اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کرتے ہوئے کہا کہ جب ہم آج کے قوانین کا سیرت نبوی کے ساتھ تقابل کرتے ہیں تو دیکھتے ہیں کہ حقوق بشردوستانہ کے اصول نہ صرف ۱۴۰۰ سال قبل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بیان اور مدون کیے بلکہ عملی طور پر ان پر عمل بھی ہوا، اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ ان کے لیے ضمانتِ اجرا بھی موجود تھی۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کبھی اجازت نہیں دی کہ کوئی ان اصولوں سے انحراف کرے یا غیر مسلح افراد کے حقوق پامال کرے۔
انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی بابرکت زندگی میں بارہا حکم دیا کہ عورتوں، بچوں، بوڑھوں اور مریضوں کو قتل نہ کیا جائے، حتیٰ کہ درختوں اور کھیتوں کو بھی نقصان نہ پہنچایا جائے۔ یہ سب اس بات کی علامت ہے کہ آپ صرف فتح کے خواہاں نہیں تھے بلکہ سب سے سخت حالات یعنی میدان جنگ میں بھی انسانی اخلاقیات کو راسخ کرنے کے درپے تھے۔
حجت الاسلام والمسلمین مطہری نے کہا کہ اگر آج مغرب اور بین الاقوامی ادارے حقیقی معنوں میں حقوق بشردوستانہ چاہتے ہیں تو انہیں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت کو ایک مکمل نمونہ سمجھنا ہوگا، ایسا نمونہ جو موجودہ قوانین کی طرح ضمانتِ اجرا سے خالی نہیں بلکہ جس میں عدل، اخلاق اور معنویت سب ایک ساتھ موجود ہیں۔