دنوں اور مہینوں کا نیک یا شوم ہونا انسانوں کے اپنے اعمال سے وابستہ ہے، آیت اللہ سعادت پرور
آیت اللہ سعادت پرور کے مطابق دنوں پر خیر و شر کا اطلاق ماضی و مستقبل کے حالات اور انسانی اعمال سے جڑا ہے، نہ کہ تخلیق کے نظام میں تبدیلی سے۔

شیعیت نیوز: جیسا کہ بظاہر سال، مہینے اور دنوں پر خیر و شر کا نام رکھا جاتا ہے، یہ دراصل اس قیاس کی بنیاد پر ہے جو ہر شخص اپنے ماضی اور حال کے حالات کے لحاظ سے کرتا ہے یا مختلف حوادث و پیش آمدہ امور کے سبب ان پر اچھے یا برے ہونے کا نام رکھتا ہے۔
احادیث میں خیر و شر کا ذکر اس بات کی دلیل نہیں کہ جہان کی ابتدائی خلقت کے نظام میں تبدیلی آئی ہو بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ خداوند متعال نے بعض ایام و سال و ماہ و ہفتہ کو بعض علل و اسباب کی بنا پر شرافت عطا فرمائی ہے یا یہ کہ کسی قوم و ملت کے بداعمال ہونے کے سبب وہ ایام ابتدا ہی سے بدنام ہو گئے ہوں۔
یہ بھی پڑھیں : کربلا میں بین الاقوامی کانفرنس، کرامت و عدالت کے قیام پر عالمی شخصیات کے خطابات
اسی طرح بندے بھی اپنے ماضی و مستقبل کے حالات کی بنا پر ان دنوں کو اچھا یا برا قرار دیتے ہیں۔ خیر و شر کو چاہے الہی اعتبار سے ہو یا اجتماعی، دراصل بندوں کے اختیار اور اعمال کے اعتبار سے نامگذاری کیا جاتا ہے۔
خداوند متعال انبیاء و اولیاء علیہم السلام کو نیک قرار دیتا ہے اور کفار، منافقین، فاسقین اور کمزور ایمان والوں کو (ان کے مراتب کے مطابق) بد شمار کرتا ہے۔ معاشرہ بھی ایک دوسرے کے بارے میں اسی طرح کا فیصلہ کرتا ہے۔
(شرح معارف ادعیہ آیت اللہ سعادت پرور پہلوانی تہرانی سے اقتباس)