غزہ پر قبضہ اسرائیل کی تاریخ کا سب سے مہنگا فیصلہ ثابت ہوگا: ماہرین
اسرائیلی معیشت پر 180 ارب شِکلز سالانہ بوجھ، صحت و تعلیم میں کٹوتیوں کا خدشہ

شیعیت نیوز : قابض اسرائیلی وزارتِ خزانہ ان دنوں جنگی کارروائیوں کے مالی بوجھ کا تخمینہ لگا رہی ہے۔ اسرائیلی میڈیا کے مطابق اب تک جنگی کابینہ اور کنسٹ میں اس اقدام کی ممکنہ مالی لاگت پر کوئی بحث نہیں ہوئی ہے، حالانکہ یہ بجٹ پر بھاری بوجھ ڈالنے والا فیصلہ ہے۔ اس کے باوجود وزارتِ خزانہ اور فوج کے سابق مالی کمانڈرز کھلے عام "بہت زیادہ اخراجات” کی بات کر رہے ہیں۔
کھربوں شِکلز کے اخراجات
قابض اسرائیلی چینل 12 کے مطابق اگر فوجی کارروائی تین ماہ سے کم وقت میں مکمل ہو تو اس پر 45 ارب شِکلز تک لاگت آئے گی۔ صرف ریزرو فوجیوں کی بھرتی ہی ہر ماہ 7.5 ارب شِکلز کی لاگت مانگتی ہے۔ اس کے علاوہ گولہ بارود، ایندھن اور دیگر اخراجات 12 سے 15 ارب شِکلز ماہانہ ہیں۔ "آپریشن اراباہ گدیون” پر ہی کم از کم 25 ارب شِکلز خرچ ہو چکے ہیں۔
وزارتِ جنگ کے حسابات کے مطابق، غزہ پر فوجی حکومت قائم رکھنے پر سالانہ 20 ارب شِکلز درکار ہوں گے۔ اس طرح مجموعی طور پر یہ بوجھ 120 سے 180 ارب شِکلز سالانہ تک پہنچ سکتا ہے، جس سے اسرائیل کے بجٹ پر تباہ کن اثرات مرتب ہوں گے۔
یہ بھی پڑھیں : امریکہ اور اسرائیل کی حزب اللہ کو غیر مسلح کرنے کی پالیسی ناکام، شیخ نعیم قاسم کا دوٹوک جواب
ماہرین کی تشویش
معروف اقتصادی تجزیہ کار "ہاگای عمیت” نے اخبار دی مارکر میں خبردار کیا ہے کہ غزہ پر قبضہ اسرائیل کی تاریخ کے سب سے مہنگے فیصلوں میں سے ایک ثابت ہوگا۔ ان کے مطابق اگر دو ماہ میں ایک فوجی آپریشن 25 ارب شِکلز کا خرچ کر سکتا ہے تو غزہ پر قبضے کے لیے پانچ ماہ اور پانچ ڈویژن درکار ہوں گے، جس کی لاگت اس سے دوگنی ہو گی۔
یدیعوت آحارانوت کے صحافی "گادی لئور” نے بھی پیش گوئی کی ہے کہ غزہ پر مکمل قبضہ تل ابیب کی معیشت کو زبردست دھچکا پہنچائے گا اور ہر سال 120 سے 180 ارب شِکلز کے اخراجات کا تقاضا کرے گا۔
مالی و سماجی بحران
ماہرین کے مطابق، اتنی بھاری مالی ذمہ داری اسرائیل کی کریڈٹ ریٹنگ کو مزید گرا سکتی ہے، ٹیکسوں میں بے تحاشہ اضافہ کرے گی اور صحت، تعلیم اور سماجی بہبود جیسے شعبے شدید کٹوتیوں کا شکار ہوں گے۔ اس کے ساتھ ہی ریزرو فوجیوں اور ان کے خاندانوں پر بھی ناقابلِ برداشت دباؤ بڑھے گا۔
اب تک اسرائیل کی جنگوں پر مجموعی لاگت 300 ارب شِکلز سے تجاوز کر چکی ہے اور بالآخر یہ سب کچھ غاصب اسرائیلی شہریوں اور ٹیکس دہندگان ہی کو ادا کرنا ہوگا۔