اہم ترین خبریںمقبوضہ فلسطین

لبنان کی مزاحمت کی 33 روزہ جنگ کی فتح کی 19ویں سالگرہ

سید حسن نصراللہ کی تقریر میں لبنان میں مضبوط حکومت کے قیام کی ضرورت پر زور

شیعیت نیوز : 14 اگست کو لبنان کی مزاحمت کی 33 روزہ جنگ میں عظیم فتح کی 19ویں سالگرہ منائی گئی۔ یہ وہ جنگ تھی جس نے مزاحمت کی تاریخ کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا اور "گریٹر اسرائیل” کے منصوبے کا خاتمہ کر دیا۔ جنگ کے اختتام پر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے قرارداد 1701 منظور کی۔ لبنان کی کابینہ نے جب اس قرارداد کی توثیق کی تو حزب اللہ کی قیادت نے بھی اعلان کیا کہ وہ جنگ بندی کی شقوں پر عمل کرے گی۔ یہ وہ مرحلہ تھا جہاں سے حزب اللہ کے اسلحہ کے مسئلے پر تقریباً دو دہائیوں پر محیط کشمکش کا آغاز ہوا۔

گزشتہ برسوں میں، خصوصاً ان تقریبات میں جو 33 روزہ جنگ کی فتح کے موقع پر منعقد کی گئیں، شہید سید حسن نصراللہ نے بارہا تفصیل سے یہ بیان کیا کہ حزب اللہ کے پاس اسلحہ رکھنے کی منطق کیا ہے اور عالمی طاقتیں اس کے غیر مسلح ہونے پر کیوں اصرار کرتی ہیں۔

یہ بھی پڑھیں : غزہ پر قبضہ اسرائیل کی تاریخ کا سب سے مہنگا فیصلہ ثابت ہوگا: ماہرین

اصل سوال یہ ہے کہ حزب اللہ کا غیر مسلح ہونا اسرائیل اور اس کے اتحادیوں کے لیے اتنی بڑی ترجیح کیوں ہے؟ شہید نصراللہ نے چھٹی سالگرہ کے موقع پر اپنی تقریر میں اسرائیلی عہدیداروں کے بیانات کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ اسرائیل فوجی کارروائی کے ذریعے حزب اللہ کو ختم کرنے میں مکمل طور پر ناکام رہا۔ انہوں نے کہا کہ موشے یعالون، جو قابض اسرائیل کے سابق آرمی چیف ہیں، یہ اعتراف کرتے ہیں کہ میرے لیے یہ بات بالکل واضح ہے کہ حزب اللہ ایک حقیقت ہے اور اسے فوجی کارروائی سے ختم نہیں کیا جا سکتا۔ میرے لیے یہ بھی واضح ہے کہ حزب اللہ کے میزائل نظام کے خلاف کوئی قطعی فوجی حل موجود نہیں۔ یہ بات اسرائیلی فوج کے سابق چیف اور ان کے بڑے اسٹریٹجک نظریہ ساز کہہ رہے ہیں۔

وہ زور دے کر کہتے ہیں کہ اگر آپ حزب اللہ کے اسلحہ کا مسئلہ حل کرنا چاہتے ہیں تو اس کا راستہ لبنان کے اندر تلاش کریں۔ وہ مزید کہتے ہیں: میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ شیعہ آبادی کے دلوں سے حزب اللہ کو اکھاڑ پھینکنے کا کوئی راستہ نہیں ہے۔ میں نے سمجھا کہ کاتیوشا میزائلوں کے خطرے کو ختم کرنے کا کوئی راستہ نہیں ہے۔ اسی لیے میں نے سیاسی و فوجی کوشش کا مشورہ دیا تاکہ حزب اللہ کو قابو میں لایا جا سکے اور اس کے دائرۂ عمل کو محدود کیا جا سکے۔ یہ وہ کوشش ہے جو بالآخر اس سمت میں جانی چاہیے کہ حزب اللہ کو لبنان کے اندر غیر قانونی تصور کیا جائے۔ مقصد یہ ہے کہ لبنانی عوام خود حزب اللہ اور اس کے اسلحہ کو غیر قانونی سمجھیں۔ یہی واحد حل ہے۔ اسرائیل کے پاس اس کے سوا کوئی راستہ نہیں۔ نہ جولائی کی جنگ، نہ اگست کی، نہ ستمبر کی، نہ اکتوبر، نہ نومبر… کوئی جنگ بھی اس ایمان دار، مجاہد، قربانی دینے والے اور شہادت کو گلے لگانے والے حزب کو شکست نہیں دے سکتی۔

لیکن سوال یہ ہے کہ ایک سیاسی جماعت اور ایک تنظیم ہوتے ہوئے حزب اللہ ایسے ملک میں جہاں ایک باقاعدہ فوج موجود ہے، اپنا اسلحہ کیوں رکھے ہوئے ہے؟ اس کا جواب سید حسن نصراللہ نے پہلی فتح کی تقریب میں بنت جبیل میں تفصیل سے دیا تھا۔ انہوں نے کہا: “سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ لبنان کے پاس ایسا طاقتور اور بااختیار حکومتی ڈھانچہ اور فوج نہیں ہے جو قبضے کو ختم کر سکے۔ یہی سب سے بڑی دلیل ہے کہ حزب اللہ کو مسلح رہنا پڑا۔”

انہوں نے مزید کہا: “جب ہم مزاحمت کی فتح کا جشن منا رہے ہیں تو میں ان لوگوں سے بھی بات کرنا چاہتا ہوں جو اسلحہ کے مسئلے کا حل چاہتے ہیں۔ میں ان سے کہتا ہوں کہ اصل وجوہات کو دور کریں۔ میں نعرے نہیں لگانا چاہتا بلکہ منطقی بات کرنا چاہتا ہوں۔ آئیے دلیل سے بات کریں۔ مزاحمت خود ایک نتیجہ ہے اور یہ کچھ وجوہات کے باعث وجود میں آئی ہے: قبضہ، لوگوں کی گرفتاری، پانیوں پر قبضہ، لبنان کو لاحق خطرات اور اس ملک کی خودمختاری پر حملے۔ یہ سب اصل وجوہات ہیں۔ جب یہ وجوہات ختم ہو جائیں گی تو نتیجہ بھی خود بخود ختم ہو جائے گا۔ جب ہم ایک مضبوط، توانا اور عادل حکومت قائم کریں جو لبنان اور لبنانی عوام کا دفاع کرے، تب ہم باعزت طریقے سے مزاحمت اور اس کے اسلحہ کے مسئلے کا حل نکال سکتے ہیں۔”

شہید سید حسن نصراللہ نے زور دیا کہ یہ بات منطقی نہیں کہ کسی ملک کے اندر کوئی مسلح جماعت موجود ہو، اس لیے حزب اللہ بھی ہمیشہ کے لیے ہتھیار بند نہیں رہے گا۔ تاہم انہوں نے واضح کیا کہ اس کے لیے شرط یہ ہے کہ لبنان میں ایک مضبوط اور مزاحمتی حکومت قائم ہو۔

اسی تناظر میں انہوں نے کہا کہ میں چاہتا ہوں لبنانی عوام اچھی طرح سنیں۔ جو کچھ کبھی کبھی میں اور میرے ساتھی بعض بحثوں میں کہتے ہیں، اس سے آگے بڑھ کر سنیں۔ آئیے ذمے داری کی بات کریں۔ ہم یہ نہیں کہتے کہ یہ اسلحہ ہمیشہ کے لیے رہے گا۔ یہ منطقی بھی نہیں کہ ہمیشہ رہے۔ یہ اسلحہ کسی دن ختم ہونا ہی ہے۔ اس کا قدرتی حل یہ ہے کہ وجوہات کو ختم کیا جائے، نتائج خود بخود ختم ہو جائیں گے۔ ایک طاقتور اور عادل حکومت تشکیل دیں جو اس ملک، اس کے عوام، اس کے وسائل، اس کی عزت و وقار کا دفاع کرے۔ اس کے بعد دیکھیے کہ مزاحمت کے مسئلے کو حل کرنے کے لیے مذاکرات کی بھی ضرورت نہیں پڑے گی، معاملہ بہت آسان ہو جائے گا۔ لیکن اسرائیل اس کے برعکس کر رہا ہے۔ شبعا فارمز سے نکلنے کے بجائے وہ سرحدوں پر مزید آگے بڑھ رہا ہے۔ سرحدی تنازعات حل کرنے کے بجائے وہ خیام، مروحین اور ضہیرہ تک بڑھتا جا رہا ہے۔ وزانی کے پانی پر لبنان کے حق کو تسلیم کرنے کے بجائے وہ ان پانیوں کو چرانے کی کوشش کر رہا ہے۔ کیا اس طرح اس ملک اور اس کے وسائل کا دفاع ممکن ہے؟

انہوں نے مزید کہا کہ اسی لیے میں کہتا ہوں کہ مزاحمت سے اسلحہ چھیننے کی بات کرنا دراصل لبنان کو اسرائیل کے حوالے کرنے کے مترادف ہے۔ تاکہ وہ جسے چاہے قتل کرے، جسے چاہے قید کرے، جہاں چاہے بمباری کرے اور ہماری زمین اور ہمارے پانی پر قبضہ کرے۔ ہم اسے قبول نہیں کر سکتے، یہ بالکل واضح ہے کہ ہم اسے کبھی قبول نہیں کریں گے۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر موجودہ سیاسی حالات برقرار رہے اور لبنان میں کوئی مضبوط حکومت تشکیل نہ ہو سکی تو حزب اللہ اپنے ہتھیار رکھنے پر کس حد تک ڈٹی رہے گی؟ اس پر سید حسن نصراللہ نے کہا کہ دنیا کی کوئی فوج مزاحمت کے ہاتھوں سے اسلحہ نہیں چھین سکتی۔

انہوں نے زور دے کر کہا کہ مزاحمت کو ختم کرنے کے خواب دباؤ، خوف پھیلانے اور محاصرے سے پورے نہیں ہو سکتے۔ مزاحمت کو لبنانی فوج کے ساتھ تصادم میں دھکیلنے کا خواب بھی محض ایک خام خیالی ہے۔ فوج اور مزاحمت دو بھائی ہیں، ایک دوسرے کے ساتھی ہیں، ان کے درمیان کوئی فاصلہ پیدا نہیں کر سکتا۔ جو لوگ یہ سوچتے ہیں کہ اسرائیل یا کسی اور جنگ کے ذریعے مزاحمت کو غیر مسلح کر دیا جائے گا، میں ان سے کہتا ہوں: جب تک یہ وفادار اور باعزت عوام اس مزاحمت پر ایمان رکھتے ہیں، اس وقت تک دنیا کی کوئی فوج، کوئی طاقت، ہمارے ہاتھوں اور ہماری مضبوط گرفت سے اسلحہ چھین نہیں سکتی۔

انہوں نے مزید کہا کہ میں ہتھیار کے زور پر کسی کو دھمکی نہیں دیتا، بلکہ میں اس قوم پر بھروسہ کرتا ہوں جس نے مزاحمت کو اپنے دل میں جگہ دی ہے۔ میرا اعتماد اس معزز بزرگ خاتون پر ہے جو کھنڈرات میں کھڑی ہوئی اور کہنے لگی: میرا بیروت کا گھر تباہ ہو گیا، میرا جنوبی گھر تباہ ہو گیا، لیکن ہم مزاحمت اور اس کے ہتھیار کے ساتھ ہیں۔ اور ان دوسرے لوگوں پر جنہوں نے کہا: اگر سید حسن اپنے ہتھیار دشمن کے حوالے کر دے تو وہ غدار ہوگا۔ میں ان سب باعزت، وفادار اور عظیم لوگوں سے کہتا ہوں کہ میں کبھی اپنی زندگی کو غداری کے ساتھ ختم کرنے کی تمنا نہیں رکھوں گا، بلکہ شہادت کے ساتھ اپنی زندگی ختم ہونا پسند کروں گا۔ اس لیے مزاحمت کو ختم کرنے کے تمام خواب بے سود ہیں، کیونکہ لبنان کی عوام اور مزاحمت ایسی ہے جو قبضے، ذلت، غلامی، ظلم اور توہین کو برداشت نہیں کرتی اور جو اپنے ملک کے لیے اپنی جان، اپنے بچوں اور اپنے عزیزوں کو قربان کرنے کے لیے تیار ہے۔

شہید نصراللہ نے آخر میں کہا کہ جی ہاں، آج لبنان حقیقتاً خطے میں چھوٹا ملک نہیں رہا بلکہ ایک بڑی طاقت ہے۔ امریکہ، مغرب اور اسرائیل اپنی پالیسیوں اور حساب کتاب میں اس کو مدنظر رکھتے ہیں اور دنیا کے مظلوم اور محروم لوگ لبنان کو عزت، قدر، احترام اور فخر کی نظر سے دیکھتے ہیں۔ تاکہ کسی کو پریشانی نہ ہو، میں ایک بار پھر کہتا ہوں کہ ہم ہمیشہ کے لیے ہتھیار نہیں رکھنا چاہتے۔ جیسے گزشتہ 25 برسوں سے کہہ رہا ہوں، یہ ہتھیار ملک کے اندرونی استعمال کے لیے نہیں ہے، کبھی استعمال نہیں ہوا اور نہ ہو گا۔ یہ ہتھیار صرف شیعوں کا نہیں بلکہ سب لبنانیوں کا ہے۔ یہ مسلمانوں اور مسیحیوں کا ہے، یہ اہلِ سنت، دروزیوں اور شیعوں سب کا ہتھیار ہے۔ یہ لبنان کے دفاع، اس کی خودمختاری اور آزادی کے لیے ہے۔ میں آپ سب سے عہد کرتا ہوں کہ اس ہتھیار کی فطرت اور اس کا رخ ہمیشہ یہی رہے گا۔ یہ ایک عہد ہے خدا کے ساتھ، امت کے ساتھ اور شہیدوں کے ساتھ۔ لہٰذا راستہ یہی ہے کہ ہم ایک ایسی مضبوط، مزاحمتی، باعزت، محترم اور شفاف حکومت قائم کریں۔

متعلقہ مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button