اہم ترین خبریںشیعت نیوز اسپیشل

خاندانِ اجتہاد کی دو آنکھیں مولانا سید کلبِ عابد،مولانا سید کلبِ صادق

یہیں سے تشیع کے عروج اور سرفرازی کا وہ سورج طلوع ہوا جو آج تک نصف النہار پر ہی ہے اوراسے زوال ہوبھی کیسے سکتا ہے کیونکہ یہ عروج وعظمت مشیّت کی عطا کردہ ہے

شیعیت نیوز: تقریباً ڈھائی سو سال ہونے کوا ٓئے نصیر آباد جائس کے ایک نوجواں کسان دلدار علی نے کھیتی باڑی سے ناطہ توڑا،ہل کی جگہ قلم تھاما اوراُن راہوں پر چل پڑا جن پر چل کر اسے ابدی مقام حاصل ہونے والا تھا۔کسے معلوم تھا کہ اس جوان کے سبب سے(جو آگے چل کر آیۃ اللہ العظمیٰ حضرت غفران مآب ؒ کے نام سے مشہور ہوا۔) نصیر آباد اور جائس نام کی دو معمولی اورغیر معروف بستیاں برصغیر کے تشیع کی تاریخ میں اتنا اہم مقام حاصل کرلیں گی کہ دنیا میں جب ،جہاں اور جس زبان میں برّصغیر میں تشیع کے عنوان سے کچھ بھی لکھا جائے گا ان دو بستیوں کا ذکر ناگزیر ہوجائے گا۔

یہیں سے تشیع کے عروج اور سرفرازی کا وہ سورج طلوع ہوا جو آج تک نصف النہار پر ہی ہے اوراسے زوال ہوبھی کیسے سکتا ہے کیونکہ یہ عروج وعظمت مشیّت کی عطا کردہ ہے ۔اس عزت وعظمت کا ایک سبب وہ دعا ہے جو حضرت غفران مآب علیہ الرحمۃ نے امیرالمومنین علیہ الصلوٰۃ والسلام کے روضۂ اقدس میں عین قُبَّہ کے نیچے مانگی تھی کہ :’’میری نسل میں قیامت تک علمِ دین ختم نہ ہو۔‘‘

ظاہر ہے کہ یہ دعا قبول ہوئی کیونکہ آپ نے کوئی دنیاوی آرزو یا خواہش کا اظہار نہیں کیا اور نہ ہی جاہ وحشم اور مال ومنصب طلب کیا تھا بلکہ خالصتاً ایسی دعا مانگی کہ جس کے پیچھے مذہب کی خدمت اور ملت کی رہنمائی کا جذبہ کارفرما تھا۔اس لئے خاندانِ اجتہاد کے لئے یہ بات غرور وتکبر نہیں بلکہ فخر وانبساط کے ساتھ ساتھ اللہ کی بارگاہ میں شکر گزاری کا باعث ہے کہ آج بھی نسلِ حضرت غفران مآبؒ سے برّصغیر پاک وہند ،عراق وایران سمیت دنیا بھر میں درجنوں علماءخدمتِ مکتب وملت میں مصروف ہیں ۔درجنوں کا لفظ میں نے مبالغے کے الزام سے بچنے کے لئے استعمال کیا ہے ورنہ میرے اندازے کے مطابق سو(۱۰۰)سے زائد علماء اور طلاب کی فہرست مرتب کی جاسکتی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: سندھ حکومت کا عزادروں کو ایک اور دھوکا،جلوس اربعین حیدرآباد میں شریک عزاداروں پر مقدمات برقرار

آئمہ طاہرینؑ کے ادوار سے اگر تشیع کے مشاہیر کا تذکرہ کیاجائے توان کی تعداد ہزاروں میں ہے اور علامہ بزرگ تہرانی سمیت متعدد علمائے اعلام ان مشاہیر کی تفصیلات بھی دنیا کے سامنے لاتے رہے ہیں ۔لیکن خاندانوں کا تذکرہ اور وہ بھی علماء کے تسلسل کے ساتھ یہ انگلیوں پر گنا جاسکتا ہے ۔انبیاءؑاورائمہ طاہرینؑ کے بعد اللہ نے غیر معصومین میں بھی کچھ خاندانوں کو یہ شرف عطا فرمایا ہے کہ ان کی خدمات اورغلامیٔ اہل بیتؑ کے سبب یہ خاندان صدیوں سے انسانیت کے لئے خاص طور پر اہل ایمان کے لئے افتخار کا باعث ہیں ۔ایران اورعراق میں علامہ مجلسیؒ کے خاندان میں اگرچہ آج کل کوئی مشاہیر میں نہیں لیکن ماضی قریب میں یہ خاندان ایک عرصے تک خاندان کی حیثیت سے شہرت کی بلندیوں پر رہا۔اسی طرح آلِ بابویہؒ ،خانوداۂ آیۃ اللہ شاہرودیؒ ،خانوادۂ طباطبائیؒ،خانوادۂ بروجردیؒ وغیرہ۔

مگر جہانِ تشیع میں جو شہرت آلِ حکیم کو حاصل ہوئی اورآج تک ہے اس کا الگ مقام ہے ۔ آلِ حکیم کی شہرت کا آغازساٹھ کی دہائی میں آیۃ اللہ محسن الحکیم طباطبائی کی مرجعیت کے زمانے سے ہوا اورآج تقریباً ساٹھ(۶۰)سال سے یہ خاندان تشیع کے ماتھے کا جھومر ہے اور بھی بہت سے خاندان مشاہیر میں شامل ہیں مگر ظاہر ہے کہ سب کا تذکرہ ان محدود سطور میں ممکن نہیں ہے۔

خاندانِ اجتہاد یا آلِ غفران ؒ کو یہ اعزاز اللہ کی بارگاہ سے عطا ہوا ہے کہ یہ خاندان گذشتہ ڈھائی سو سال سے مسلسل دین ومکتب کی خدمت گزاری میں مصروف ہے۔ایک بار پھر اپنے نفس کو اوراپنے خانوادے کے افراد کو نصیحت کرتے ہوئے قلم آگے بڑھانا چاہتا ہون کہ اس اعزاز پر جو اللہ کے کرم اورمعصومینؑ کی عنایات کا آئینہ دار ہے ،کبھی غرور وتکبر کا شکار نہیں ہونا چاہیے بلکہ ہر وقت عاجزی اورانکساری کے ساتھ رب کی بارگاہ میں شکرگزاری کے سجدے بجالاتے رہنا چاہئیں۔سید دلدار علی نقوی غفران مآبؒجس خلوص،ہمت،جرأت اور رواداری کے ساتھ انتہائی نامساعد حالات میں اپنے مقصد کی طرف آگے بڑھتے رہے ۔وہ تاریخ میں ہمیشہ مثال بن کر زندہ رہے گا۔

ان کی مشکلات کا اندازہ صرف اس بات سے لگایاجاسکتا ہے کہ ان کے زمانے تک برصغیر میں نمازِ جمعہ توکجا اہل تشیع میں باجماعت نماز تک قائم نہیں تھی۔یہ اعزاز بھی حضرت غفران مآبؒکو حاصل ہوا کہ آپ نے برصغیر میں اہل تشیع کے لئے پہلی نماز باجماعت اورنماز جمعہ قائم کرکے ہمیشہ کے لئے تشیع کو اجتماعی پلیٹ فارم کی اہمیت کا احساس دلایا۔تشیع اخباریت اور صوفیت میں محصور تھا اور وہ بھی سطحیات کی حد تک،جس معاشرے میں حضرت غفران مآبؒکوواردِ عمل ہونا تھااس معاشرے کے عوام کی حالت کا اندازہ اس وقت کے شاہان اودھ کی حالت سے باآسانی لگایاجاسکتا ہے جو بھنگ کے نشے کے عادی تھے اور باقی عادات واطوار کا ذکر کرنا تحصیل حاصل ہوگااوراس پر اضافہ یہ کہ دین سے دور کا بھی واسطہ نہیں تھا اور جب کوئی دینی مسئلہ درپیش ہوابھی تواِ ن کی مشکلات حل کرنے کے لئے درباری ملّاؤں کی کوئی کمی نہ تھی۔

یہ بھی پڑھیں: پی ٹی آئی کے ساتھ ایم ڈبلیوایم کے اتحاد کابنیادی اور مشترکہ اصول سب کے سامنے ہے جو پاکستان کو استحکام کی راہ پر گامزن کرنے کا فارمولہ ہے،کاظم میثم

اس کے علاوہ بھی مذہبی اور مسلکی بنیادوں پر الگ محاذ تھے جن سب محاذوں پر حضرت غفران مآبؒکو تنِ تنہا مقابلہ کرنا پڑ رہا تھا،تفصیلات میں جانے کے لئے یہ مضمون کافی نہیں ہوگا۔

ویسے بھی یہ تفصیلات وقتاًفوقتاًشائع ہوتی رہی ہیں۔ہم نے یہ مختصراشارہ اس لئے تحریر کیا کہ پڑھنے والوں کےذہن میںیہ بات پھر تازہ کردی جائے کہ حضرت غفران مآبؒکوئی روایتی مولوی یا دربارِ اودھ سے وابستہ ہونے کی بنا پر کوئی درباری مولوی نہیں تھے بلکہ وہ فطرتاًایک انقلابی عالم تھے ۔ ظاہر ہے اس وقت کے ہندوستانی سماج میں کوئی اسلامی حکومت کے قیام کی تحریک توچل نہیں سکتی تھی لیکن انہوں نے اودھ کی سطح پرنوابینِ اودھ کی مرضی کے خلاف اوران کے روبروان کی مخالفت کرکے شرعی بالادستی کا نظام قائم کرنے کی جد وجہد شروع کی اوراپنی اس تحریک میں اس حد تک کامیاب ہوئے کہ نواب آصف الدولہ کو اپنی عاداتِ غیر شرعیہ بدلنا پڑیں اورحضرت غفران مآبؒ کی دلیری اور حق بیانی کے آگے اسے سر تسلیم خم کرنا پڑ گیااور یہی وہ شجاعت اور بہادری کا درس تھا جوآپ اپنے عمل سے اپنی قوم خاص طور پر اپنی اولاد کو دے کر گئے کہ کلمۂ حق بلند کرنے میں کسی حاکم ،کسی جابر کی پروانہ کریں اور پھر تاریخ گواہ ہے کہ ان کی اولاد میں سلطان العلماءہوں یا انگریزوں سے آصفی امام بارگاہ آزاد کرانے والے سید ابراہیم ہوں ،سب نے اپنے اپنے زمانے میں درباروں کوسرنگوں رکھا خود درباروں میں سرنگوں نہیں ہوئے۔

دوسری طرف زمانے کی تبدیلیوں سے قوم کو ہم آہنگ کرنے کے لئے حضرت غفران مآبؒ کی نسل میں ہر آنے والے مجتہد نے اپنا اپنا کردار ادا کیا ۔ہم ایسی ہر شخصیت پر الگ الگ تفصیل سے گفتگو کرسکتے ہیں مگر پھر وہی تنگیٔ صفحات آڑے آجاتی ہے لیکن ایک ہستی جس کا ذکر کئے بغیر مضمون کا حق ادا نہیں ہوگا اور اس ہستی کا نام ہے ’’قدوۃ العلماء سید کلبِ صادق المعروف آقا حسن صاحب قبلہ‘‘یعنی عمدۃ العلماء سید کلبِ حسین اعلی اللہ مقامہ کے والد بزرگوار اورصفوۃ العلماء سید کلبِ عابد اعلی اللہ مقامہ اور حکم امت ڈاکٹر مولانا سید کلبِ صادق اعلی اللہ مقامہ کے جدّبزرگوار۔کبھی کبھی کہیں سے دبی دبی آواز ابھرتی نظرآجاتی ہے جو بڑے ہی نخیف لہجے میں یہ اعتراض کر بیٹھتے ہیں کہ مولانا کلبِ عابد اور مولانا کلبِ صادق کا شجرہ ننھیال کی طرف سے حضرت غفران مآب ؒ سے ملتا ہے اصل شجرہ تو ددھیالی ہوتا ہے توان کی خدمت میں یہ ناچیز بصد عجز وانکسار عرض کئے دیتا ہے کہ کلبِ عابد صاحب اور کلبِ صادق صاحب کی ننھیال دودھیال دونوں ایک ہی ہے۔اسی لئے یہ خاکسار مضمون کی ابتدا ہی سے نصیر آباد،جائس لکھتا چلا آیا ہے ۔جائس وہ بستی ہے جسے نجم الدین سبزواری نے جنگ کے نتیجے میں حاصل ہونے کے بعد ودیانگر کا نام بدل کر ’’جائے عیش‘‘نام قرار دیا تھا جو زمان وزبان کے استحصال کے نتیجے میں جائس ہوگیا۔

یہ بھی پڑھیں: معروف مذہبی اسکالر علامہ کرامت عباس حیدری کی سید اسدعباس نقوی کو وزیر اعلیٰ پنجاب کامشیر برائے سیاسی امور مقررہونے پر مبارکباد

اِنھیں نجم الدین سبزواری کی اولاد میں سید ذکریا نے جائس سے کچھ ہی فاصلے پر قصبہ ٹپاک پور کو فتح کرکے اس کا نام اپنے پردادا سید نصیر الدین کے نام پر نصیر آباد رکھا اورانہیں نصیر الدین کے جدّاعلیٰ تھے سید نجم الدین سبزواری ۔اس طرح نصیر آباد جائس کی بستیوں میں سید ذکریا کہ نسل پھلتی پھولتی رہی اوریہی وہ سید ذکریا ہیں جہاں جا کر خاندانِ اجتہاد یا آلِ غفران مآبؒ کی خاص طور پر قدوۃ العلماءآقا حسن صاحب قبلہ کی ننھیال ددھیال ایک ہوجاتی ہے۔(تفصیلات کے لئے ملاحظہ فرمائیں :ہندوستان میں شیعیت کی تاریخ اورعلامہ محمد باقر شمس ،برّصغیر میں تشیع ازاجتہاد از ساحرؔ لکھنوی ،خاندانِ اجتہاد نمبر یادگاری مجلہ از دفتر شعاع عمل لکھنؤ۲۰۰۶ء)

آقا حسن صاحب قبلہ جو عماد العلماءآیت اللہ سید مصطفیٰ عرف میر آغاابن آیۃ اللہ سید ہادی ابن آیۃ اللہ سید مہدی ابن حضرت غفران مآبؒ کے سگے بھانجے تھے ،دوسری طرف عماد العلماءمیر آغا صاحب نے آقا حسن صاحب کے عقد میں اپنی بیٹی دے کر انہیں دامادی کا شرف بھی دے دیا تھا ۔تیسری طرف آقاحسن صاحب کے والد سید کلبِ عابد (اول)ابن سید کلبِ حسین(اول)کا شجرہ بھی ولی محمد جائسی سے ہوتا ہوا سید ذکریا سے جاملتا ہے یوں یہ ننھیالی ددھیالی شجرہ ایک ہوجاتا ہے ۔

بہرحال قصہ کوتاہ!!یہی آقا حسن صاحب وہ نابغۂ روزگار تھے جنہوں نے آلِ غفران مآب ؒ کی عزت وعظمت میں چارچاند لگائے ،آپ کا زمانہ انگریزی فتنے کا زمانہ تھا۔مسلمان انگریزوں سے نفرت کی بنا پر جدید تعلیم سے دورہوتے جارہے تھے اور ہندوستان میں غیر مسلموں کا ہر سطح پر غلبہ بڑھتا جا رہا تھا۔

اہل تسنن میں سرسید احمدخان نےجدید علمی تحریک کا آغازکردیا تھا اوراُنھیں بھی مسلم طبقات کی جانب سے خاص طور پر مذہبی حلقوں کی جانب سے شدید مخالفت کا سامنا تھا۔اہلِ تشیع کا حال بھی کچھ مختلف نہ تھا،ایسے حالات میں آقا حسن صاحب نےکئی محاذوں پر مورچہ سنبھالا ،مسلمانوں کی مشترکہ جد وجہد میں شامل رہے اور مستقبل کے حالات پر نظر رکھتے ہوئے تشیع کی ترقی کے لئے سرگرمِ عمل رہے۔آل انڈیا شیعہ کانفرنس کے ذریعے قوم کو ایک مضبوط پلیٹ فارم فراہم کیاتوقوم کے یتیموں کی سرپرستی کا بیٹرا بھی اٹھایا اور سنتِ معصومین ؑ پر عمل کرتے ہوئے ان کی تعلیم وتربیت کے لئے بھرپور انداز میں عملی اقدام اٹھایا اور شیعہ یتیم خانے کی بنیاد ڈالی اورسب سے بڑھ کر عوام کے لئے بالعموم اورملت کے لئے بالخصوص جدید علوم کے حصول کے لئے تاریخی قدم اٹھایا اور شیعہ کالج کی بنیاد ڈالی اگرچہ اس وقت کچھ حلقوں کی جانب سے شدید مخالفت کی گئی مگر آنے والے وقت نے بتایا کہ اس کالج کی بدولت قوم جدید زمانے کے تقاضوں سے ہم آہنگ ہوئی۔

یہ بھی پڑھیں: علامہ ناصرعباس جعفری کا جلیل القدرعالم دین آیت اللہ سید محمد صادق روحانی کی رحلت پر اظہار افسوس

گذشتہ ایک صدی میں اس کالج نے متعدد اتارچڑھاؤدیکھے۔ایک وقت ایسا بھی آیا کہ انتہائی ناگفتہ بہ حالت تک بھی جا پہنچا،لیکن کیونکہ اس کی بنیاد تقویٰ پر رکھی گئی تھی۔قوم سے محبت اور خدمت کے خالص جذبے کے تحت اسے بنایاگیاتھا اس لئے یہ تمام بحرانوں کامقابلہ کرتا ہوا آج بھی اپنی اوراپنے بانیوں کی عظمت کا گواہ ہے ۔میرے علم میں آیا ہے کہ جلد ہی شیعہ کالج لکھنؤ،یونیورسٹی کا درجہ حاصل کرنے جارہا ہے (اللہ کرے میری معلومات درست ہوں )یہ کالج ہمارے علمااورمجتہدین کی بصیرت کا عکاس ہے ۔قدوۃ العلماءسید کلبِ صادق المعروف آقا حسن صاحب قبلہ کو یہ بات کب معلوم ہوگی کہ ان کے خلفِ صالح عمدۃ العلماء مولانا سید کلبِ حسین اعلیٰ اللہ مقامہ کے دو بیٹوں کلبِِ عابد اورکلبِ صادق میں ان کی صلاحیتیں برابر سے تقسیم ہوجائیں گی اوران کے یہ دونوں پوتے نہ صرف ان کی بلکہ خاندانِ اجتہاد کی دو آنکھیں بن جائیں گے۔

جی ہاں!ان دونوں بھائیوں یعنی صفوۃ العلماءمولانا سید کلبِ عابد اور حکیم امت ڈاکٹر مولانا سید کلبِ صادق کے درمیان ایسا لگتا ہے کہ کوئی خاموش معاہدہ تھا یا کوئی روحانی رہنمائی تھی کہ دونوں بھائیوں نے عالم دین ہونے کے باوجود اپنے جد کی میراث کو سنبھالتے ہوئے ایک ایک محاذ سنبھالا،یعنی مولانا کلبِ عابد صاحب نے قوم کی مذہبی رہنمائی کی ذمہ داری سنبھالی اورکلبِ صادق صاحب نے قوم کے لئےزمانے کے جدید تقاضوں کے مطابق تعلیم وتربیت کا بیڑاٹھایا۔صفوۃ العلماء مولانا کلبِ عابد صاحب قبلہ ان علماء میں سے تھے کہ جواپنے علم اور تقویٰ کے سبب سے اپنے ہم عصر علماء میں ممتاز مقام رکھتے تھے۔ایک زمانے میں سلطان المدارس سے صدر الافاضل کی سند ملنا گویا کہ سندِ اجتہاد ملنے کے برابر سمجھا جاتا تھا(افسوس کہ آج معیار وہ نہیں رہا)برصغیر کے کتنے ہی جیّد علماء جو درجۂ اجتہاد پر فائز ہوئے وہ صدر الافاضل کی سند رکھتے تھے ۔کسی اور مضمون میں اگر موقع ملاتوان شاءاللہ ان میں سے کچھ کا تذکرہ تفصیل سے کردیں گے ۔

صدر الافاضل کی یہ سند ملنے کاعرصہ تقریباً۱۴ سے ۱۵سال تک کا ہوتا تھا۔بعض علماء اس سے کم عرصے میں بھی سند حاصل کرلیتے تھے اور بعض اس کے برعکس ،یعنی کچھ زیادہ عرصہ لگ جاتا تھا۔کلبِ عابد صاحب طاب ثراہ نے ۱۹۳۰ء میں سلطان المدارس کی جماعت اولیٰ میں ۷سال کی عمر میں داخلہ لیا اور ۱۹۴۵ءمیں یعنی تقریباً۱۵سال میں یہ سند فرسٹ ڈویژن میں حاصل کی ۔صدر الافاضل کی سند حاصل کرنے والا منقولات اورمعقولات پر عبور حاصل کرلیتا تھا مگراس کے باوجود علم کی پیاس اور خوب سے خوب تر کی تلاش میں کربلا اور نجف کی خاک سے اپنی پیشانی منور کرنے کے لئے عراق کا سفر اختیار کیا اور وہاں آیۃ اللہ محسن حکیم طباطبائیؒ ،آیۃ اللہ شاہرودیؒاورآیۃ اللہ مہدی شیرازیؒکے ممتاز تلامذہ کی فہرست میں شامل ہوئے۔غالباًتقسیم ہند کے بعد ۱۹۴۹ءمیں واپس لکھنؤتشریف لائے تودل کا نور چہرے پر ظاہر ہوچکا تھا۔سلطان المدارس کی مسند تدریس سنبھالی توایسے ایسے نابغۂ روزگار علماء کو تعلیم وتربیت کے زیور سے آراستہ کیا کہ جہانِ تشیع کو ان پر بڑا ناز ہے۔

یہ بھی پڑھیں: علامہ تصورجوادی پرحملے کے مجرموں کو کیفرکردار تک پہنچایا جائے، علامہ ڈاکٹر یاسرعباس سبزواری

یہاں پاکستان میں حجۃ الاسلام والمسلمین آغا جعفر صاحب اعلیٰ اللہ مقامہ جو اپنے علم وتقویٰ اورتقدس سے پہچانے جاتے تھے ،جہاں بھی موقع ملتا تھااپنے استاد معظم کلبِ عابد صاحب کا تذکرہ انتہائی عقیدت اور محبت سے فرماتے تھے ۔یہی کیفیت میں نے ان کے برادر عزیز حضرت علامہ سید رضی جعفر نقوی صاحب میں دیکھی کہ آپ نےمتعدد مقامات پر اپنے استاد معظم مولانا سید کلبِ عابد صاحب کے لئے برسر منبر عقیدت سے سرشار گفتگوفرمائی (اللہ انہیں طول عمر عطا فرمائے،آمین)بھارت میں تو یہ فہرست کافی طویل ہوگی لیکن ناچیز کے پاس صرف چند نام محفوظ ہیں جن میں مرزا محمد عالم صاحب قبلہ،مولانا تقی صاحب آلِ باقر العلوم، مولانا افتخار حسین انصاری کشمیری،مولوی ابن حسن صاحب قبلہ،مولانا مرزا محمد اطہر صاحب قبلہ،مولوی نبی حسن صاحب قبلہ،مولانا علی قاسم ،مولانا علی ابن الحسنین باقری،ڈاکٹر مولانا عمران رضا صاحب قبلہ اور بہت سے نام کہ مناسب مقام پران کا ذکر کردیاجائے گا۔

سلطان المدارس میں درس وتدریس کا یہ سلسلہ ۱۹۷۲یعنی ۲۲سال تک جاری رہا۔اس کے بعد مسلم علی گڑھ یونیورسٹی میں تقریباً۱۰ سال تک استاد کی حیثیت سے فرائض انجام دیتے رہے۔اہل خُبرہ جانتے ہیں کہ ہندوستان میں لکھنؤکے امام جمعہ کی حیثیت کیا ہوتی ہے ،اس منصب کو حضرت غفران مآب ؒ نے جو چارچاند لگائے تھے اوراللہ نے اس منصب کے ذریعے انہیں جو عزت وشرف عطا فرمایا وہ آج بھی ان کی نسلوں کے لئے قابلِ فخر اورعطیۂ الٰہی ہے۔کلبِ عابد صاحب اپنے والد بزرگوار جناب عمدۃ العلماءکی حیات ہی میں ان کی نیابت میں متعددمرتبہ امام جمعہ لکھنؤکے فرائض انجام دیتے چلے آرہے تھے ۔۱۹۶۳ءمیں عمدۃ العلماء کے انتقال کے بعد آپ مستقل امام جمعہ مقرر ہوئے اوراس منصب پر دسمبر۱۹۸۶ءیعنی اپنے انتقال کے وقت تک فائز رہے۔

کلبِ عابد صاحب قبلہ نے اپنے اسلاف کی طرح اپنے آپ کو مسلمانوں کی وحدت کی علامت بنایا،طویل عرصے تک مسلم پرسنل لاءبورڈ کے نائب صدر رہے اور بابری مسجد کے معاملے میں مسلمانوں کے متفقہ موقف میں بڑھ چڑھ کر اپنا کردارادا کیا بلکہ مجاہدانہ کردار ادا کیاجس کے سبب سے مسلمانوں کے تمام مکاتب فکر کے درمیان آپ کا ایک خاص اور منفرد مقام تھا۔اس کے ساتھ ہی ساتھ اپنے جد آقا حسن صاحب قبلہ کی یادگار آل انڈیا شیعہ کانفرنس کے صدر بھی رہے اور حسینیہ غفران مآبؒ کاعشرہ اور مجلسِ شام غریباں توآپ کی خاص پہچان تھی ہی جس کے ذریعے حسینیت کا پیغام سارے عالم میں پہنچاتے تھے ۔اردو اکیڈمی ،مسلم یونیورسٹی کورٹ،ممبرسنٹرل جج کمیٹی،ڈین فیکلٹی آف تھیالوجی ،مسلم یونیورسٹی علی گڑھ ان کے علاوہ درجنوں ادارے جن کی سرپرستی فرماتے تھے۔

ان کی حیات میں ۱۹۷۹ءمیں میرا لکھنؤجانا ہواتھا تو میں نے ان کی ڈیوڑھی کو جیسا سنا تھا ، جیسا کتابوں میں پڑھا تھا ویسا ہی پایایعنی اپنے آباءواجداد کی طرح ضرورت مندوں اورناداروں کے لئے یہ ڈیوڑھی ہروقت کھلی رہتی تھی۔اپنے گھر میں کچھ ہو یا نہ ہو مگر سوالی خالی ہاتھ نہ جائے اور پھر مہمان نوازی کا توذکر ہی کیا ۔بہرحال یہ توہرہر پہلو پرایک الگ مضمون کی ضرورت محسوس ہوتی ہے ۔ملت کی دینی رہنمائی کے لئے لاتعداد مضامین لکھے جن کا فیض آج بھی جاری ہے ۔مضامین اور خطبات جمعہ کے علاوہ تحریروں میں فلفسۂ حج،تشریح امالی شیخ صدوقؒ،درس گاہِ اسلام سے کچھ سبق اور عماد التحقیق اس کے علاوہ کچھ غیر مطبوعہ تحریریں ہیں ۔مجھے یقین ہے کہ ان کے صاحبزادے اورموجودہ امام جمعہ وجماعت لکھنؤمولانا سید کلبِ جواد صاحب قبلہ جو نور ہدایت فاؤنڈیشن کے تحت ہونے والی علمی کاوشوں کی سرپرستی بھی فرمارہے ہیں ان کی توجہ اس طرف بھی ضرور ہوگی اور یقیناً وہ اپنے عظیم والد کے ورثے کی حفاظت کے لئے کوئی دقیقہ اٹھا نہیں رکھیں گے۔

یہ بھی پڑھیں: پولیس کی جانب سے مغویوں کی رہائی کیلئے اغواکاروں سے ڈیلیں کروایا جانا باعث شرم ہے، علامہ مقصود ڈومکی

اب آتے ہیں اس نابغۂ روزگار ،نگینۂ تاجِ خاندان،فخرِ قوم،حکیمِ امت،سرسید ثانی (یہ لقب میں نے اپنی طرف سے نہیں دیا بلکہ جب گذشتہ سالوں میں میرالکھنؤجانا ہواتھاتو وہاں میں نے لوگوں کی زبانی یہ لقب سنا)ڈاکٹر مولانا سید کلبِ صادق اعلیٰ اللہ مقامہ کے ذکر کی طرف ،میں نے کچھ دیر پہلےاسی مضمون میں عرض کیا تھا کہ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اِ ن دونوں بھائیوں میں کوئی خاموش معاہدہ تھا یا کوئی روحانی اور غیبی رہنمائی کہ دونوں نے اپنے جد آقا حسن صاحب قبلہ کی علمی میراث کو نہایت دیانتداری سے آپس میں تقسیم کیا اورایسا لگ رہا ہے کہ قدوۃ العلماء دنیا سے جاتے جاتے اپنی آنکھیں قوم کے حوالے کر گئے اور یہ آنکھیں ان کے خلفِ صالح ذاکر شام غریباں عمدۃ العلماء کلبِ حسین اعلیٰ اللہ مقامہ کے ذریعے کلبِ عابد اور کلبِ صادق کی صورت میں دنیا کے اتارچڑھاؤ کو دیکھ رہی تھیں اور قوم کے لئے منزل کا تعین کر رہی تھیں۔

ڈاکٹر کلبِ صادق صاحب جب مدرسے میں تعلیم حاصل کررہے تھے جب ہی اساتذہ کو اندازہ ہوگیا تھاکہ یہ بچہ اپنے اسلاف کی ریاضتوں کا صلہ ہے،کلبِ صادق کے بچپن کا دورقوم کی زبوں حالی کا دورتھا،انگریزوں نے کیا کم تباہی مچائی تھی کہ تقسیم اور ہجرت کے صدموں سے نڈھال اورنیم جان لکھنؤاپنی عظمت کے آثار کو مٹتے ہوئے حسرت سے دیکھ رہا تھا۔اسلاف کی یادگاریں مٹائی جارہی تھیں یا غیران پر قبضہ کرتے جارہے تھے اور ستم بالائے ستم یہ کہ نوابین،زمینداراورسرمایہ داروں کی جاہل اور ناکارہ اولادیں حویلیاں اوراوقاف بیچتے بیچتے گھر کے برتنوں تک کو فروخت کرنے پرآگئے تھے مگراپنی جہالت کو ترک کرنے پرآمادہ نہیں تھے۔محلوں میں رہنے والوں پر بھیک مانگنے کی نوبت آگئی تھی۔دنیاوی تعلیم کو جانے دیجئے ،دینی مدارس کی سرپرستی کرنے والے بھی اب اس پوزیشن میں نہیں تھے کہ پہلے کی طرح مدارس کی سرپرستی کریں۔لکھنؤکا حوزۂ علمیہ جو کبھی نجف اور قم کا ہم سر سمجھاجاتا تھا اور لکھنؤنے ایک وقت یہ بھی دیکھا کہ ایک ہی زمانے میں ایک سے زیادہ مرجع تقلید اوردرجنوں مجتہدین کا وجود،اس حوزۂ علمیہ کی زبوں حالی یہاں تک پہنچی کہ بعض کتابخانے تودوسرے ممالک منتقل ہوگئے ۔

خیر اچھی بات یہ ہے کہ جہاں گئے صحیح مقام پر گئے ۔کم از کم سید العلماء کے کتابخانے کی طرح نذرآتش تونہیں کردئیے گئے ۔بہرحال کلبِ صادق یہ حالات دیکھ رہے تھے،بظاہر طبیعت میں کھلنڈراپن رکھنے والا یہ بچہ جوکم سنی ہی سے اپنی بذلہ سنجی ،برجستگی اورطنز ومزاح میں شہرت حاصل کرچکا تھا۔کسی کو کیا معلوم تھا کہ وہ اندر سے کتنا ٹوٹا ہوااورقوم کے حالات کا غم دل سے لگائے اپنی منزل ڈھونڈ رہا ہے۔اپنے والد بزرگوار کی کوثر میں دھلی ہوئی زبان ورثہ میں پانے والا کلبِ صادق جب والد کے حکم پر پہلی بار رونق افروزِ منبر ہوا توہمارے بزرگ بتاتے ہیں کہ عمدۃ العلماء کی آنکھوں میں خوشی اور شکرِ الٰہی کے آنسو تھے،نوجوانی ہی میں کلبِ صادق صاحب نے اپنی منفرد خطابت کا سکہ بٹھا دیا تھا۔ان کا نرم ، دھیما اورشیریں لہجہ سماعتوں میں رس گھول دیتا تھا۔گفتگو کے انداز میں تقریر کرنے کا فن کلبِ صادق صاحب سے شروع ہو کرانھیں پر ختم ہوگیا،جب میں نے ان کے مرقد کی تصویر دیکھی توبے ساختہ کانوں میں ایک آواز گونجنے لگی:
ڈھونڈوگے ہمیںگلیوں گلیوں ملنے کے نہیں نایاب ہیں ہم

اگر میں صرف ان کی خطابت پرگفتگو کرنے بیٹھ جاؤں توایک الگ دفتردرکار ہوگا۔لیکن ڈاکٹر صاحب کی اصل منزل یا مقصدِ حیات خطابت کی معراج حاصل کرنا نہیں تھا بلکہ وہ تواس خطابت کو منزل تک پہنچنے کا ایک وسیلہ سمجھتے تھے ۔دینی علوم میں اسنادحاصل کرنے کے بعد کلبِ صادق صاحب نے علیگڑھ یونیورسٹی کا رخ کیا،ماسٹر اور پی ۔ایچ۔ڈی ۔کرنے کے دوران اپنے آپ کوجدید علوم سے مکمل ہم آہنگ کیا۔اور یہ ہم آہنگی ۱۹۷۰ءکے بعدکی خطابت کا جوہر قرار پائی ۔۱۹۷۰ءکے بعد آپ نے دین اور سائنس کواپنا موضوعِ خطابت بنا لیا اور کچھ ہی عرصے میں آپ ساری دنیا میں اسی حوالے سے پہچانے جانےلگے اور آپ کے سامعین کا حلقہ دیگر مکاتب بلکہ دیگر مذاہب تک پھیل گیا،اردو،فارسی اور عربی پر مکمل عبور رکھنے والے ڈاکٹر کلبِ صادق نے یورپ میں جب انگریزی زبان میں تقاریر شروع کیں تو یورپ میں رہنے والے دنیابھر کے مسلمانوں کو جیسے زبان مل گئی ۔یورپ میں مقیم جو مسلمان اپنے بچوں کے مستقبل کی طرف سےپریشان رہتے تھے انہیں جیسے کوئی مسیحا مل گیا تھا جوان کے مغرب میں پیدا ہونے والے بچوں کےبیباکانہ سوالات کا جواب دے رہا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: حکمران خدارا سقوط ڈھاکہ اور سانحہ آرمی پبلک سکول سے سبق سیکھیں،اسدعباس نقوی

آج یورپ میں بے شمار علماء اوردانشور یورپی زبانوں میں تقاریر کررہے ہیں یہ کوئی تعجب کی بات نہیں لیکن ۷۰ء کی دہائی میں ڈاکٹر صاحب کا وہاں انہیں کی زبان میں تقاریر کرنا،سوال جواب کی نشستیں رکھنا اورانہیں مطمئن کرنا یہ کسی عطیۂ الٰہی سے کم نہ تھا۔مگر یہ بھی کلبِ صادق کی منزل نہ تھی بلکہ ایک وسیلہ ہی تھا،اسی زمانے میں جب آپ نے اپنی علمی شخصیت کو معاشرے سے منوا لیا اور ہر طبقہ کے دل میں اپنی جگہ بنالی توآپ نے اپنی تقاریر میں اپنے مقصدِ حیات کو بیان کرنا شروع کیا اور وہ کرب جو آپ بچپن سے اپنے دل میں لئے دیار بہ دیار پھر رہے تھے اس کا اظہار شروع کردیا۔طبقاتی ناہمواریوں میں ڈوبا ہوا برّصغیر کا معاشرہ فرقہ واریت کی آگ میں جلنے والے مسلمان،لسانی اور علاقائی تعصبات میں جکڑے ہوئے ذہنی معذور عوام الناس،جنہیں یہ احساس ہی نہیں تھا کہ ان کا اصل دشمن ہے کون؟وہ توبس ایک دوسرے ہی کو اپنا دشمن سمجھتے تھے ۔کلبِ صادق نے برسوں کی ریاضت کے بعد معاشرے کے اصل دشمن کی شناخت کرلی تھی اور پھراس کے بعد ڈاکٹرصاحب کی ساری دنیا میں ہر تقریر میں اس دشمن کی نشاندہی ہوتی تھی۔وہ قوم کو شدت سے احساس دلارہے تھے کہ تمہارا اصل دشمن دوسرے فرقے ،دوسرے مذہب یا دوسرے طبقے کا فرد نہیں ہے بلکہ تمہارا اصل دشمن جس نے تمہیں اس حال کو پہنچایا ہے وہ غربت اور جہالت ہے۔

ڈاکٹر کلبِ صادق کاصرف یہ نعرہ نہیں تھا بلکہ وہ تاریخ کے ان چند خوش نصیب افراد میں سے تھے کہ جن کے پاس ویژن کے ساتھ ساتھ اسے عملی جامہ پہنانے کی صلاحیت بھی تھی۔۱۹۸۰ء کے بعد کلبِ صادق صاحب نے انقلابی قدم اٹھانا شروع کئے۔آپ سمجھتے ہیں کہ جب بھی کوئی معاشرے میں رائج رسم ورواج کے خلاف قدم اٹھائے گا تواسے کن مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے ۔یہی کچھ ڈاکٹر صاحب کے ساتھ بھی ہوا،مگر اپنی دھن کے پکے اور اپنی کامیابی پر راسخ یقین رکھتے ہوئے اپنے انفرادی کاموں کو اجتماعی شکل وصورت دینا شروع کی ۔بظاہر توحید المسلمین ٹرسٹ کا قیام ۱۹۸۲ءمیں عمل میں آیالیکن درحقیقت یہ آپ کی برسوں کی انفرادی جد وجہد کا نچوڑ تھا،توحید المسلمین ٹرسٹ کے بارے میں الگ کسی مقام پرلکھ چکا ہوں ۔

توحید المسلمین ٹرسٹ کے تحت جہاں غریب خاندانوں کی مالی مدد کی جاتی ہے وہیں انہیں اپنے پیروں پر کھڑا کرنے کے انتظامات بھی ہوتے ہیں کیونکہ کلبِ صادق قوم کو بھکاری نہیں بنانا چاہتے تھے ،غریبوں اورناداروں کی مدد کے دوران کلبِ صادق نے فرقہ اور مسلک کو بنیاد نہیں بنایا لیکن پھر بھی نام سے ظاہر ہے کہ یہ ٹرسٹ شیعہ نا سہی مسلمانوں تک محدود ہونے کا اشارہ ہے جبکہ کلبِ صادق ایک آفاقی شخصیت تھے ۔

بہرحال اسی توحید المسلمین ٹرسٹ کے پلیٹ فارم سے سیکڑوں بلکہ کئی ہزار طلباء وطالبات کو اسکالرشب دینے کے سلسلے کاآغاز ہوا اور دیکھتے ہی دیکھتے یہ عمل ایک عالمی تحریک میں اس طرح تبدیل ہوگیا کہ ساری دنیا سے قوم کادرد رکھنے والوں نے کلبِ صادق صاحب کی آواز پر لبیک کہا اورآپ کے ساتھ عملی طور پر اس طرح شریک ہوگئے کہ مستحق اورلائق طلباء کو اسپانسر(sponsor)کرنا شروع کیا۔کلبِ صادق صاحب پابندی سے کتابی صورت میں آمدن واخراجات کا گوشوارہ شائع کرتے تھے اوریہیں آپ کو قوم میں تیسرے دشمن کی شناخت ہوئی اور وہ دشمن ’’کرپشن‘‘تھا۔اس کی تفصیل میں جانے کی ضرورت نہیں ، کلبِ صادق صاحب کے قریبی احباب کی بہت بڑی تعداد ان ناسوروں کو جانتی ہے جنہوں نے آپ کے عظیم مقصد کو داغدار کرنے کی کوشش کی تھی۔

یہ بھی پڑھیں: الصبح ترکی میں خوفناک کار بم دھماکہ ، 8 پولیس اہلکار زخمی

مگر یہ آپ کی شخصیت کی عظمت اور مقصد کی سچائی تھی کہ آپ پر سے لوگوں کااعتماد کم نہ ہوا بلکہ گندےانڈوں کی صفائی کے بعد یہ اعتماد اوربڑھ گیا۔پھرعرض کردیں کہ یہ بھی کلبِ صادق کی منزل نہیں تھی،توحید المسلمین ٹرسٹ بھی ان وسیلوں میں سے ایک بڑا وسیلہ تھا جو فخرِ قوم کو حکیم امت اور سر سید بنانے جارہا تھا۔ہزاروں طلباء وطالبات کو جدید علوم کے زیور سے آراستہ کرنے والے اس انسان نے اب اصل منزل کی طرف قدم بڑھانا شروع کئے ۔ایراز میڈیکل کالج(ERAS,mc)آج جس مقام پر ہے اس مقام تک پہنچانے میں کلبِ صادق کا کتنا بڑا حصہ ہے ساری دنیا جانتی ہے اور خود ایراز میڈیکل کالج کے ذمہ داران فراخ دلی سے اس بات کا اعتراف بھی کرتے ہیں ۔ لکھنؤمیں یونٹی کالج کا قیام ایسا ہی تھا جیسے ۱۰۰سال پہلے کے کلبِ صادق(آقا حسن)کے ہاتھوں شیعہ کالج کا قیام ،یونٹی کالج ایک علامت اور آنے والے زمانوں کے لئے استعارہ بن گیا ،ایک انسان کی جد وجہد کا اپنے مقصد سے خلوص اور وابستگی کا۔اس کے بعد توجیسے یہ سلسلہ طوفانی رفتار سے آگے بڑھتا گیا۔

لکھنؤکے بعد علی گڑھ (علی گڑھ مدرسے اور اسکول کے ضمن میں اگر یادگارِ سید العلماء یعنی مولانا ڈاکٹر سید علی محمد نقوی صاحب کا ذکر نہ کیاجائے تو یہ ناانصافی ہوگی۔ڈاکٹر علی محمد نقوی صاحب کی علمی شخصیت نےکلبِ صادق صاحب کی اس علمی تحریک میں جس طرح معاونت فرمائی وہ ہمیشہ تاریخ کا حصہ رہے گا۔)اورپھر الٰہ آباد (یہاں بھی مولانا ڈاکٹر رضوان حیدر صاحب کا ذکر نہ کرنا زیادتی ہوگی ، اللہ ان احباب اوربزرگواران کی توفیقات میں اضافہ فرمائے )اوراب تو یہ سلسلہ ساری دنیا میں اس طرح پھیل چکا کہ جہاں اسکول اور کالج ابھی قائم نہیں بھی کرسکے تووہاں کے لائق اور مستحق طلباء و طالبات کو امکان کی حد تک تعلیم بلکہ اعلیٰ تعلیم کی سہولت فراہم کی جاتی ہے حتی کہ یورپ اور امریکہ کے اعلیٰ تعلیمی اداروں تک انہیں رسائی دی جاتی ہے۔

لکھنے کو بہت کچھ ہے اور کہنے کو بھی بہت کچھ ہے مگر کیا کیاجائے سب کچھ ہے کلبِ صادق نہیں ہے۔میں نے ایک مقام پر اور بھی تحریر کیا ہے کہ اب آنے والے زمانے میں کلبِ صادق کے نام کے ساتھ کسی لقب یا منصب لگانے کی ضرورت پیش نہیں آئے گی بلکہ تاریخِ بشریت کے چند ناموں  کی طرح کلبِ صادق کانام بھی علمی تحریک کا استعارہ بن جائے گاجس طرح آج کلبِ صادق کو سرسیدثانی کہاجارہا ہے آنے والے زمانے میں ایسا کام کرنے والوں کو کلبِ صادق کا نام دیا جائے گا۔ کلبِ صادق صاحب کے صاحبزادے جناب کلبِ سبطین اوران کے داماد جناب نجم الحسن رضوی سے بہت امیدیں ہیں کہ وہ ڈاکٹر صاحب کی بنائی ہوئی ٹیم کے ساتھ مل کر پہلے سے بھی زیادہ محنت کے ساتھ کلبِ صادق کے مشن کو آگے بڑھائیں گے اورہمیشہ ان کے اصولوں کو اپنے لئے مشعلِ راہ قرار دیں گے۔ان شاءاللہ ۔کلبِ صادق صاحب کی ہونے والی دوسری نماز جنازہ نے سمجھا دیا کہ آج کے پرفتن دور میںبھی انسان چاہے تواپنے کردار سے ہرطبقے سے اپنی شخصیت کا لوہا منوا سکتا ہے اور پھر کلبِ صادق کو رخصت کرنے والوں میں صرف مسلمان نہیں بلکہ اس لاکھوں کے مجمع میں بڑی تعداد میں غیر مسلموں کی بھی ایک نوحہ گرشرکت تھی۔

اس مضمون کو ختم کرنے سے پہلے ایک معذرت ضروری سمجھتا ہو ں کہ اگرچہ میں نے پوری کوشش کی ہے کہ احتیاط کے دامن کو ہاتھ سے نہ چھوڑا جائے ،ایک دو جگہ مجبوراًکردار کی طرف اشارہ کرنا پڑ گیاپھر بھی افراد کو زیر بحث نہیں لایامگرامکان موجود ہے کہ نادانستگی یاغیرشعوری طور پر کسی کی دل آزاری ہوگئی ہو(جو کہ ناچیز کا ہرگز ارادہ نہ تھا اور نہ ہے)اس کے لئے میری معذرت پیشگی قبول فرمائیں ۔

والسلام
دعاؤں کا طالب:
سید حسن ظفر نقوی ،کراچی پاکستان
۲۱دسمبر ۲۰۲۰ء؁ بروز پیردوپہر تین بج کر ایک منٹ پر مکمل ہوا

متعلقہ مضامین

Back to top button