عراق میں مظاہروں کی وجوہات
اب تیل سے مالامال عراق میں صدامی ڈکٹیٹرشب کے خاتمے کو 15سال ہورہے ہیں ان 15سالوں میں عراق میں اندرونی طور پر پہلے امریکی مداخلت کے سبب پیدا ہونے والی دہشتگردی اور پھر بعد میں داعش کے عفریت کا مقابلہ جیسے مسائل رہے ۔
لیکن اب چونکہ عراق ان مسائل باہر نکل چکا ہے اور انتخابات کے انعقاد کے بعد نئی حکومت کی تشکیل کے مراحل سے گذار رہا ہے تو عوام کی توجہ ایک بار پھر ان عوامی مسائل کی جانب بڑھ گئی ہے جو اب تک مختلف وجوہات کے سبب حل طلب ہی رہے ہیں ۔
دہشتگردی اور بیرونی قبضے کے علاوہ عراق کو جس چیز کا سامنا ہے وہ کرپشن ہے ،کہا جاتا ہے کہ عراق میں کرپشن کی کوئی حد ہی نہیں رہی ہے ۔
بنیادی سہولیات جیسے پانی بجلی اور مناسب سڑکوں کا فقدان سے لیکر تعلیم اور صحت جیسے مسائل جوں تک توں پڑے ہوئے ہیں
عراقیوں کو سیاسی مسائل سمیت مختلف مسائل میں اختلاف رائے کرتے ہوئے دیکھاجاسکتا ہے لیکن کرپشن کے بارے میں وہ متفق دیکھائی دینگے ۔
اوپک میں عراق دوسرا بڑا ملک ہے جو تیل فروخت کرتا ہے لیکن تیل کی یہ آمدنی سرکاری خزانے سے ہوتے ہوئے عوامی مسائل میں خرچ ہونے کے بجائے بیوکریسی کے جیب میں جارہی ہے ۔
یہ بات صحیح ہے کہ دہشتگردی کیخلاف جنگ کے بعدعراقی حکومت پر پناہ گذینوں اور متاثرین کا اضافی بوجھ رہا ہے اور اب اس جنگ کے بعد بحالی کے مسائل بھی منہ کھولے ایک اژدھے کی مانند ان کے سامنے کھڑے ہیں ۔
لیکن اگر حکومتی پروگراموں اور توجہ کو بغور دیکھاجائے تو یہ بات واضح ہے کہ اب تک عوامی بنیادی مسائل کی جانب مطلوبہ توجہ حاصل نہیں رہی ہے ۔
کہا جاتا ہے کہ عراق کی صورتحال ہمسائیہ ملک سعودی عرب کی طرح ہے جہاں ریاست پر ایک مخصوص طبقہ قابض ہے جو کھلے ہاتھوں خزانے کو لوٹتا ہے ۔
عراق اس وقت کم وبیش ڈیپ اسٹیٹ بننے جارہا ہے جہاں بیوروکریسی اور اقتدار پر قابض ایک گروہ مسلسل اپنے قبضے اور اثرورسوخ کو بڑھاوا دینے کی کوشش میں ہے ۔
عراقیوں کا کہنا ہے کہ جب تک سیاسی نظام میں مناسب اصلاحات نہ کیں جائیں کرپشن کا خاتمہ ممکن نہیں ہے ۔