دنیا

انڈونیشیا میں شاہ سلمان کے خلاف عوامی مظاہرے

جکارتہ (مانیٹرنگ ڈیسک )سعودی فرمانروا شاہ سلمان کو انڈونیشیا کے دورے پر عوامی مظاہروں کا سامنا کرنا پڑا اور لوگوں نے جکارتا میں سعودی عرب کے سفارتخانے کے سامنے وسیع پیمانے پر احتجاج کیا۔مظاہرین نے سعودی عرب کے خلاف نعرے لگاتے ہوئے علاقے اور عالم اسلام میں سعودی عرب کی پالیسیوں کو تبدیل کئے جانے کا مطالبہ کیا۔
شاہ سلمان ملائیشیا کے بعد انڈونیشیا پہنچے ہیں۔ اس سفر میں ان کے ساتھ ڈیڑھ ہزار سے زائد افراد ہیں کہ جن میں سکیورٹی اہلکار بھی شامل ہیں۔ انڈونیشین عوام شاہ سلمان کی اس طرح آمد کو انڈیشین سیکورٹی کی توہین قرار دے رہے ہیں۔انڈونیشیا دنیا میں سب سے زیادہ آبادی والا اسلامی ملک ہے۔ اس لیے انڈونیشین عوام کے لئے یہ بات قابل قبول نہیں ہے کہ دنیائے اسلام میں تفرقہ انگیزی پھیلانے والے شاہ سلمان اس طرح سے انڈونیشیا کا دورہ کریں۔اس سفر کے تعلق سے انڈونیشین عوام کی نظر میں تین باتیں بڑی اہمیت رکھتی ہیں کہ جنہیں جکارتہ حکومت نے نظر انداز کیا ہے۔
اول تو یہ کہ سعودی عرب شام اور یمن میں عوام کا خون بہا رہا ہے اور دہشتگرد گروہوں کی مالی مدد کررہا ہے۔ ایسے حالات میں انڈونیشیا کے لوگوں کو یہ امید نہیں تھی کہ جکارتہ کی حکومت ایسے شخص کی میزبانی کرےگی کہ جس کے ہاتھ مسلمانوں کے خون سے رنگے ہوئے ہیں۔
دوسری بات، انڈیشین مزدوروں سے سعودی حکّام کی بدسلوکی ہے جس پر انڈیشین عوام سخت برہم ہیں۔ گزشتہ دو سالون کے دوران انڈینشین مزدوروں سے بدسلوکی اور خواتین کی عصمت دری کے کئی واقعات سامنے آچکے ہیں۔ سعودی عرب سے نکالی گئی کئی خواتین نے اپنے ملک واپس آنے کے بعد بتایا کہ سالوں تک ان کی عصمت دری کی جاتی رہی۔
تیسرا موضوع حرم مکی میں کرین حادثے کے دوران شہید ہونے والے انڈونیشین حاجیوں کا معاوضہ ادا نہ کرنا ہے جب کہ کئی بار انڈونیشین حکومت نے اعتراض بھی کیا تھا۔ملائیشیا اور انڈونیشیا کے عوام کو شاہ سلمان کے سفر سے جو بات پریشان کررہی ہے وہ ان کے ملک میں وہابیت کی ترویج ہے۔ کیونکہ گزشتہ چند سالوں کے دوران سعودی عرب نے وہابی انجمنوں اور اداروں کی حمایت کرکے انڈونیشیا اور ملائیشیا میں فرقہ واریت کو ہوا دینے کی کوشش ہے۔ جس کی وجہ سے دونوں ممالک کے لوگ تشویش میں مبتلا ہیں۔ اسی لیے ملائیشیا کے لوگوں نے اپنی حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہابی افکار کو فروغ دینے والے ذاکر نائک کے خلاف مقدمہ چلایا جائے تاکہ ملک کو فرقہ واریت سے بچایا جاسکے۔

متعلقہ مضامین

Back to top button