سعودی عرب

سعودی عرب پاکستان کے تعاون سے دولشکر شام بھجوائے گا

saudia arab pakistanرپورٹ کے مطابق تکفیری دہشت گردوں نے مہین کے جنوب میں سرکاری افواج کے گولہ بارود کے ذخائر پر قبضہ کرنے کی کوشش کی ہے جس کے بعد سرکاری افواج نے اس علاقے کا محاصرہ کرنے والے دہشت گردوں کے خلاف کاروائی کا آغاز کیا ہے اور مہین کی طرف پیشقدمی جاری ہے۔ قبل ازیں سرکاری افواج نے اس علاقے پر حملہ کرنے والے دہشت گردوں پر کاری ضربیں وارد کی تھیں۔
ایک فوجی اہلکار نے العالم کو بتایا کہ شام کی افواج اور قومی دفاعی فورسز نے صدد شہر کو بہت مختصر وقت میں دہشت گردوں سے آزاد کرالیا اور یہ کاروائی اپنی نوعیت کے لحاظ سے منفرد تھی اور مہین کے جنوب میں واقع اسلحہ کے سرکاری گوداموں کا محاصرہ کرنے والے دہشت گردوں کا صفایا کرنے کے لئے اس علاقے کی طرف پیشقدمی جاری ہے اور آج (7 نومبر2013) کو ہم مہین کے دروازوں تک پہنچ چکے ہیں اور اسلحہ کے گودام ہم سے صرف 100 تا 200 میٹر کے فاصلے پر ہیں۔ اور اس علاقے کی طرف پیشقدمی کے دوران درجنوں دہشت گردوں کو ہلاک اور ان کے اسلحہ کے ٹرکوں کو منہدم کیا ہے۔
قابل ذکر ہے کہ مہین نامی گاؤں القلمون کی اگلی لڑائی کے لئے بہت اہم ہے چنانچہ فوج کو اب مہین، الحفو اور الحوارین کے علاقوں کو دہشت گردوں سے خالی کرانا پڑے گا۔
ادھر سعودی عرب نے پاکستان، اردن، متحدہ عرب امارات اور فرانس کی مدد سے دو لشکر تشکیل دیئے ہیں جن میں دہشت گردوں کی تعداد 5 ہزار سے 10 ہزار تک ہے۔
اس رپورٹ کے مطابق پاکستان میں دہشت گردی کی تربیت کرنے والے دہشت گردوں کے تمام تر اخراجات سعودی برداشت کررہے ہیں اور سعودی عرب ہی انہیں شام منتقل کرے گا۔
العالم کے مطابق سعودی عرب دہشت گردوں کی تربیت کے اخراجات برداشت کرتا ہے اور پاکستانی فوج انہیں تربیت دیتی ہے!
آل سعود کی لشکرکشی کی وجہ یہ بیان کی گئی ہے کہ ان کی حکومت شام کے مسئلے میں بارک اوباما انتظامیہ سے ناامید ہوچکی ہے اور اب اس کی کوشش ہے کہ شام کی حکومت کا تختہ خود ہی الٹ لے۔
امریکی جریدے فارن پالیسی نے بیروت کے کارنیگی انسٹٹیوٹ (Carnegie Institute Beirut) کے تزویری امور کے ماہر یزید سائق کے حوالے سے لکھا ہے کہ سعودی عرب شامی مخالفین کی 40 سے لے کر 50 ہزار تک کی فوج تشکیل دینے کے درپے ہے اور اس کے اس فیصلے سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ واشنگٹن کی شراکت کے بغیر اور اپنے طرز پر شام میں اپنا کیس آگے بڑھانے کا ارادہ رکھتا ہے تاکہ امریکہ کو جتا دے کہ اس نے شام کے مسئلے سے پسپا ہوکر کتنا بڑا نقصان اٹھایا ہے۔
فارن پالیسی نے امریکی انٹیلجنس اداروں کے اندر اپنے ذرائع کے حوالے سے لکھا ہے کہ سعودی عرب کو بہت سی رکاوٹوں کا سامنا ہے جن میں سے ایک پاکستان کی غیر مستحکم اور تناؤ زدہ صورت حال نیز اردن سمیت شام کے پڑوسی ممالک کی صورت حال ہے اور دوسری مشکل یہ ہے کہ اردن میں طاقت کے مراکز شام کے خلاف اپنی سرزمین کے استعمال کے خلاف ہیں۔ لیکن سب سے اہم رکاوٹ ـ جس کا امریکہ اور فرانس کو بھی سامنا ہے ـ شام کے مخالف گروپوں کو متحد کرنا ہے

متعلقہ مضامین

Back to top button