سعودی عرب

عبداللہ بن عبدالعزیز کی حالت نازک ہے / اقتدار کی رسہ کشی

king_abdullah_allyامریکی روزنامے نے لکھا کہ سعودی بادشاہ کی حالت نازک ہے / ملک عبداللہ خطرے کی حالت میں ہیں۔ رپورٹ کے مطابق ورلد ٹربیون نے لکھا ہے کہ ملک عبداللہ بن عبدالعزیز کی جسمانی حالت حالیہ چند دنوں میں شدت سے نازک ہوگئی ہے۔
 رپورٹ کے مطابق اس سے قبل گذشتہ جمعرات کے روز بعض خبر ایجنسیوں نے رپورٹ دی تھی کہ ملک عبداللہ کا امریکی صدر اوباما کی امریکہ کے پرانے یار حسنی مبارک سے بے وفائی پر سخت غضبناک ہوئے تھے جس کے بعد انہیں دل کا دورہ پڑا تھا جس سے وہ جانبر نہ ہوسکے اور دنیائے فانی سے  رخصت ہوئے جس کے بعد سعودی حکومت نے اس خبر کی تردید کی حتی کہ آج بھی سعودی حکومت نے اعلان کیا کہ عبداللہ بالکل صحتمند ہیں اور مراکش میں نقاہت کے ایام بسر کررہے ہیں۔
سعودی ترجمان البتہ اپنے بادشاہ کے زندہ ہونے کا کوئی ٹھوس ثبوت پیش نہیں کرسکا۔
ایک جاسوسی ذریعے نے بھی کہا ہے کہ ملک عبداللہ کو زبردست ذہنی اور جسمانی دباؤ کا سامنا کرنا پڑا ہے "گو کہ فوری طور پر ان کو موت کا خطرہ نہیں ہے”۔
اس ذریعے نے کہا ہے کہ گذشتہ دو مہینوں کے دوران ملک عبداللہ کی صحت لوٹانے کے لئے ہونے والی کوششیں ان کی مدد نہیں کرسکی ہیں بلکہ ان طبی کوششوں نے ان کی سلامتی کو نقصان پہنچایا ہے چنانچہ وہ جسمانی لحاظ سے قابل قبول صورتحال سے بہرہ مند نہیں ہیں۔
ان اطلاعات کے مطابق سعودی بادشاہ اس وقت مراکش میں واقع اپنے گھر میں رہائش پذیر ہیں اور سیکورٹی ذرائع کے مطابق ان کی کمر اور دل کی تکلیف بدستور باقی ہے اور دوسری طرف سے ان کی عقل بھی زائل ہونا شروع ہوگئی ہے۔
روزنامہ ورلد ٹربیون نے سعودی اپوزیشن کے حوالے سے لکھا ہے کہ ملک عبداللہ در حقیقت 9 فروری (2011) کو اپنے مراکش والے گھر میں انتقال کرگئے ہیں تا ہم سعودی وزیر خارجہ نے انہیں صحتمند قرار دیا۔
ملک عبداللہ گذشتہ 6 مہینوں سے بیمار ہیں اور انھوں نے اپنے بیمار اور قریب المرگ ولیعہد "سلطان بن عبدالعزیز کی غیرموجودگی میں ملکی باگ ڈور وزیر داخلہ نائف بن عبدالعزیز کے سپرد کی ہے۔
قابل ذکر ہے کہ سعودی ولیعہد سلطان بن عبدالعزیز عرصۂ دراز سے مختلف ملکوں میں زیر علاج رہتے ہیں اور انہیں بھی آلزائمر (اور بھلکڑ پن) کی بیماری لاحق ہوئی ہے جس کی بنا پر ملکی امور میں ان کا کوئی عمل دخل نہیں ہے۔
دریں اثناء ملک عبداللہ کی متنازعہ رپورٹ کا نتیجہ بھی دیکھئے جس کی ہم نہ تو تردید کرتے ہیں اور نہ ہی اس کی تصدیق کرتے ہیں لیکن واقعات کی تصویر کشی کرتے ہوئے اپنے قارئین سے نتیجہ اخذ کرنے کی دعوت دیتے ہیں:
ذرائع میں شائع ہونے والی ایک خبر:
ملک عبداللہ کے انتقال کے بعد شہزادوں کے درمیان اقتدار کی رسہ کشی شروع ہوگئی ہے اور وزیر خارجہ سعودالفیصل، وزیر داخلہ امیرنائف، بیمار ولیعہد سلطان بن عبدالعزیز اور ان کے بیٹے اور امریکیوں کے قریبی ترین دوست بندر بن سلطان کے نام عبداللہ کے جانشینوں کی فہرست میں شامل ہیں۔
ہم سب جانتے ہیں کہ سعودی بادشاہی خاندان کے تمام کے تمام افراد شہزادے ہیں چنانچہ شہزادوں کی تعداد بہت زیادہ ہے اور اب ان کے درمیان تنازعہ شروع ہوگیا ہے اور ہر کوئی اپنے کو بادشاہت کا حقدار سمجھ رہا ہے اسی حوالے سے ایک بہت پرانی خبر:
نائف بن عبدالعزيز سعودی عرب کے ولیعہد ہیں: 15/2/ 2009
ابنا نے فارس خیر ایجنسی کے حوالے سے خبر دی ہے کہ سعودی ولیعہد شہزادہ سلطان بن عبدالعزیز کے قریب المرگ ہوجانے کے بعد شہزادہ نائف بن عبدالعزیز کو ولیعہد بنایا گیا ہے۔
ایک موثق ذریعے نے نام فاش نہ ہونے کی شرط پر ذرائع ابلاغ کو بتایا ہے کہ سعودی ولیعہد سلطان بن عبدالعزیز جو سرطان کے مہلک مرض میں مبتلا ہیں اس وقت نیویارک کے ایک ہسپتال میں موت و حیات کی کشمکش میں مبتلا ہیں اور ریاض کی حکومت نے وزیر داخلہ شہزادہ نائف بن عبدالعزیز کو غیر سرکاری طور پر ولیعہد مقرر کیا ہے۔
مذکورہ ذریعے نے بتایا کہ 7 افراد پر مشتمل بیعت بورڈ – جو ولیعہد کے تعین کا ذمہ دار ہے –  اس سے قبل نائف کی ولیعہدی سے اتفاق نہیں کرسکا تھا مگر اب دعوی کیا جارہا ہے کہ اس سلسلے میں اختلافات ختم ہوگئے ہیں اور اگر کوئی خاص واقعہ نمودار نہ ہوا تو نائف بن عبدالعزیز ہی ولیعہد ہونگے اور آل سعود میں بھی نائف کی ولیعہدی پر اتفاق پایا جاتا ہے اور اس موضوع کا سرکاری اعلان بہت جلد متوقع ہے۔
لیکن اس بات کا سرکاری اعلان آج (12/فروری 2011) تک نہیں ہوسکا ہے گو کہ آج کہا جارہا ہے کہ شاہ عبداللہ نے نائف کو "ولیعہد ثانی” کا عہدہ سونپا ہے جبکہ اس سے پہلے کہیں بھی اس طرح کا کوئی عہدہ نہیں پایا جاتا تھا اور سعودی آئین میں بھی ایسے عہدے کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔
سلطان بن عبدالعزیز ولیعہد ہیں لیکن وہ بیماری کی بنا پر بادشاہ نہیں بن سکتے۔
دوسری طرف سے جب تک عبدالعزیز کے بیٹے زندہ ہیں عبدالعزیز کے پوتوں کو بادشاہت سنبھالنے کا حق حاصل نہیں ہے لیکن سلطان بن عبدالعزیز کی بیماری کی وجہ سے ان کے بیٹے بندر بن سلطان اپنے آپ کو اس عہدے کا حقدار سمجھ رہے ہیں اسی وجہ سے اب عبدالعزیز بن سعود کے دوسرے بیٹوں کی اولادیں بھی اس دوڑ میں شامل ہوگئے ہیں اور وہ کہہ رہے ہیں کہ اگر بندر بن سلطان سلطنت کے دعویدار ہوسکتے ہیں تو وہ بھی تو شہزادے ہیں اور۔۔۔
ملک عبداللہ کی جانشینی کا بحران بہرحال نہایت سنجیدہ ہے اور اگر ملک عبداللہ کے انتقال کی خبر درست ہوئی تو یہ سعودی بادشاہت کے لئے ایک عظیم چیلنج ہے اور اس کے بعد دنیا اس ملک میں مہینوں اور ہفتوں میں بادشاہوں کی تبدیلی کے مناظر بھی دیکھ سکیں گے جیسا کہ احادیث میں عبداللہ کی موت کے بعد کے زمانے کے سلسلے میں پیشین گوئیاں ہوئی ہیں:
صادق آل محمد (ص) حضرت امام جعفر صادق (ع) نے فرمایا:
وہ زمانہ جب لوگ عرفات میں کھڑے ہونگے اور ایک تیزرفتار اونٹنی کا سوار انہیں عبداللہ کی موت کی خبر دیتا ہے اور اس کی موت سے آل محمد (ص) کی دشواریوں اور مصائب و مشکلات کے خاتمے کا دور آن پہنچتا ہے. 1
ابوبصير کہتے ہیں: میں نے امام جعفر صادق علیہ السلام کو فرماتے ہوئے سنا:
«اگر کسی نے مجھے عبداللہ کی موت کی ضمانت دی تو میں اس کو قائم آل محمد (ص) کے ظہور کی ضمانت دوں گا».
اس کے بعد امام علیہ السلام نے فرمایا:
«جب عبداللہ کی موت واقع ہوجائے تو لوگ اس کے بعد کسی کے ساتھ متحد نہ ہونگے ان شاء اللہ؛ اور اس کے بعد پیش آنے والے حالات تمہارے امام زمانہ (ع) کے ظہور کے سوا ہرگز نہیں سدھریں گے اور سالانہ یا طویل المدت سلطنت و حکومت کا دور گذر جائے گا اور بادشاہوں کی حکمرانی مہینوں اور ایام کی حد تک گھٹ جائے گی.
میں نے عرض کیا: کیا یہ دور لمبا ہوگا؟
امام (ع) نے فرمایا: ہرگز نہیں» 2
حضرت امام باقر (ع) نے فرمایا:
«جب بنی فلان اپنے اندر کی چیز (اقتدار کی جنگ) کی وجہ سے اختلاف کا شکار ہونگے تو تم لوگ ظہور کا انتظار کرو اور تمہارے مصائب کا خاتمہ بنی فلان کے اختلاف کے سوا ممکن نہیں ہوگا؛ پس جب وہ اختلاف کا شکار ہوجائیں تو رمضان کے مہینے میں آسمانی فریاد «صیحہ» اور قائم آل محمد (ص) کے ظہور کے منتظر رہو. اور تم بھی جو ان کے مشتاق ہو انہیں نہیں دیکھ سکیں گے اس وقت تک جب تک بنی فلان کے اندر کے معاملات پر ان کے اختلافات ظہورپذیر نہ ہوئے ہوں. اور جب ان کے درمیان اختلاف واقع ہوجائے تو لوگ ان کی سلطنت میں حرص و طمع کریں گے اور اتحاد و یکجہتی ختم ہوکر رہے گی اور سفیانی بغاوت کرے گا. بنی فلان بہرحال حکومت کریں گے اور حکومت کے بعد اختلافات کا شکار ہونگے اور ان کی حکومت چلی جائے گی اور یہ خاندان درہم برہم ہوجائے گا. 3
مآخذ:
1. غيبت‌ نعماني‌، ص‌ 179،بحارالانوار، ج‌ 52، ص‌ 240؛ بشارة‌الاسلام‌، ص‌122.
2. بحاراالانوار، ج‌52، ص‌210؛ بشارة‌الاسلام‌، ص‌123.
3. غيبة‌النعماني‌، ص‌171؛ بحارالانوار، ج‌52، ص‌232.

متعلقہ مضامین

Back to top button