مقالہ جات

امیرالمومنین حضرت علی ع کی مسجد میں شہادت سے پاکستان میں خوارج کی بربریت تک

fazat wo kabaاسلام کے نام پر مساجد میں دہشت گردی اور بغیر کسی جرم کے کلمہ گو مسلمانوں کو بے گناہ شہید کرنےکا سلسلہ کوئی نیا نہیں۔ پاکستان اور دنیا کے دیگر ممالک میں القاعدہ و طالبان نامی فتنے یعنی دور حاضر کے خوارج کی بربریت دراصل خوارج و بنی امیہ کے ملوکیتی حکمرانوں ہی کی پالیسیوں کا حصہ ہے جنہوں نے امیر المومنین کو مسجد کوفہ میں نماز کے وقت شہید کیا اور آپ ع کے فرزند امام حسن ع کو زہر دلوا کر شہید کرنے کے ساتھ ساتھ کربلا میں نواسہ رسول ص و فرزند امام علیؑ کو شہید کردیا ۔جب میدان کربلا میں سیدالشھدا حضرت امام حسینؑ نے افواج یذید لعین کومخاطب کرتے ہوئے فرمایا کہ میں نواسئہ رسول(ص( ہوں اس کے باوجود تم لوگ میرے قتل کے کیوں پیاسے ہوں تو انہوں نے جواب میں کہا کہ دراصلہم اپنے ان ابا واجداد کا بدلہ لینے آئے ہیں جن کو تمہارے بابا علیؑ نے
جنگ بدر و احد میں مار ڈالا تھا۔یعنی نعوذباللہ رسول اللہ(ص) اور اسلام کی حمایت و دفاع کرکے دراصل امیرالمومنیںؑ نے جرم کیا تھا جس کا بدلہ یہی ہے۔بقول شاعر
اک علی کی دشمنی کیا کیا ستم ڈھا گئی
بدر کی دشمنی چلتے چلتے کربلا تک آگئی

خوارج کی اس بربریت کو قرآن اور ااحادیث میں آخری زمانے کی علامات کے طور پر درج کیا گیا، جو کی تفصیل یہاں تصویر میں دی گئی ہے اور اس کو علامہ اقبال نے بھی بہترین تفسیر کی ہے۔
ناحق کے لئے اٹھے تو شمشیر بھی فتنہ
شمشیر ہی کیا نعرہ تکبیر بھی فتنہ
کیا بدبختی کی انتہا ہے خوارج کے لئے۔۔۔ کہ رسول اللہ(ص) کا واضح حکم و حدیث ہونے کےباوجود کہ علیؑ حق کے ساتھ ہے اور حق علیؑ کے ساتھ خدایا حق کا رخ اس طرف مڑیں جس طرف علیؑ جائے، کہ باوجود بھی دشمنان دین اسلامنے امیرالمومنیںؑ کو اتنی اذیتیں دے کر مظالم کا نشانہ بنایا کہ جس کی نظیر ملنا شاید مشکل ہوں۔رسول اللہ (ص( کے وصال کے بعد ایک دفعہ حضرت بی بی فاطمہ الذھرا(س )نے حضرت علیؑ سے پوچھا کہ مجھے پتہ چلا ہےکہ اے علیؑ کوئی آپ کو سلام نہیں کرتا تو حضرت علیؑ نے مظلومیت کا اظہارکرتے ہوئے فرمایا بات اس سے آگے نکل چکی ہے اب حالت یہ ہے کہ سلام تو دورکی بات جب میں سلام کرتا ہوں تو کوئی جواب تک نہیں دیتا۔
دنیا کے بعض حصوں بالخصوص مملکت خداداد پاکستان میں اسلام کے نام اورلبادے میں خوارج نما دہشت گرد القاعدہ و طالبان کے نام پر مساجد و پبلکمقامات میں خودکش حملے و دہشت گردی کرکے جس ظلم و جبر کے مرتکبہورہے ہیں ،جس کو عالم اسلام کے معروف سکالرز و علمائے کرام بشمول ڈاکٹرطاہر القادری نے دور حاضر کا فتنئہ وارج قرار دیا ہے۔خوارج کا فتنئہامیرالمومنیںؑ حضرت علیؑ کے مقابلے میں سر اٹھانے لگا اور یہاں تک کہ اسفتنئے نے امیرالمومنیںؑ و خلیفئہ رسول(ص)کو مسجد و محراب عبادت میں شہیدکردیا۔خوارج نماز روزہ اور عبادات میں مشغول ہونے کے علاوہ حتی کہ ان میںسے اکثریت حافظان قرآن تھی اور وہ یہ نعرہ لگا کر اسلام کے لبادے
میں ظلم و جبر اور عوام الناس پر دہشت گردی کا بازار گرم کرکے اپنے علاوہباقی تمام مسلمانوں کو کافر قرار دے کر یہ شعار یا نعرہ بلند کرتے تھے کہلا حکم الا الللہ۔۔۔۔یعنی حکم صرف الللہ کے لئے ہے ،امیرالمومنیں حضرتامامعلیؑ خوارج کے اس نعرے کے بارے میں فرماتے تھے کہ یہ نعرہ یا شعار تو حقہے لیکن اس کے پیچھے خوارج کے مقاصد و فتنئہ باطل اور فساد پر مبنی ہے۔ہماگر آج بھی اپنے ارد گرد پوری دنیا بالخصوصمملکت خداداد پاکستان میں اسلام کے نام اور لبادے میں خوارج نما دہشت گردالقاعدہ و طالبان کے غیر انسانی و غیر اسلامی افعال و کردار اور دہشتگردی پر نظر دوڑائے تو فتنئہ خوارج کا عکس یا تاریخ اپنے آپ کو دہراتیہے کا نطارہ پیش کرتا ہوا نطر آئے گا۔
امیر المومنینؑ پر اسلام کے لبادے میں مسلط خوارج اور بنی امیہ کے ظالم وجابر ملوکیتی حکمرانوں کے مظالم کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہخلیفئہ رسول(ص) امیر المومنیںؑ حضرت امام علی ابن ابی طالب علیہ سلاماور اہلبیت اطہار ؑ و اولاد رسول(ص) پر لعن طعن کے لئے کئی ہزار مساجدکے منبر و محراب تک درہم و دینار سے خریدے گئیں۔جہاں سے باقاعدہ جمعہ کےخطبات اور دیگر مواقع پرامیر المومنیںؑ حضرت امام علی ابن ابی طالب علیہ سلاماور اہلبیت اطہار ؑ و اولاد رسول(ص) پر لعن طعن کی جاتی تھی۔ظلم کیانتہا دیکھئے کہ جب انیس رمضان کی صبح مسجد کوفہ میں نماز فجر کے لئے آنےوالے امیرالمومنین حضرت امام علیؑ پر اس وقت کے شقیترین ابن ملجم لعین نے سجدے میں وار کرکے مسجد کوفہ کے محراب کو خون میںتر کردیا۔اور یہ خبر کوفہ سے باہر دیگر علاقوں بالخصوص ملوکیت اور بنیامیہ کے پایہ تخت شام یا سیریا تک پہنچا۔کہ امیرالمومنینؑ مسجد کوفہ میں نماز فجر کے وقت مجروح ہو چکے ہیں،تو لو گ ایک دوسرے سےتعجب سے پوچھنے لگیں کہ علی مسجد میں کیا کر رہے تھے۔۔؟؟ جب بتایا گیا ہ
نماز فجر پڑھنے گئے تھے تو لوگ اور ذیادہ تعجب سےپوچھنے لگیں کہ علی مسجد میں کیا کر رہے تھے۔۔؟؟یہ تھا اسلام کے لبادےمیں مسلط خوارج و بنی امیہ کے پروپیگنڈے اور اس زمانے کی باطل میڈیا کاکردار کہ اپنے ناجائز مفادات اور اقتدار کے حصول کے لئے خلیفئہ وقتامیر المومنینؑ حضرت علی ابن ابی طالب علیہ سلام کے حوالے سے اتنا غلیظ وگمراہ کن منفی پروپیگںڈہ کر رکھا تھا کہ زمانے کے متقی ترینامیرالمومنینؑ کو نعوزبالللہ بے نمازی و لادین قرار دے کر عوام میں مشہورکردیا تھا۔
اس سے خوارج اور بنی امیہ کی اسلام دشمنی اور بغض و عداوات امیرالمومنیںؑ حضرت امام علی ابن ابی طالب علیہ سلاماور اہلبیت اطہار ؑ و اولاد رسول(ص) کا پتہ چلتا ہے۔
انیس رمضان نماز فجر کے وقت خوارج و بنی امیہ کی زہر میں ڈوبے تلوار کےزخم کے بعد مسجد کوفہ میں امیر المومنینؑ کا یہ جملہ فزت برب کعبہ ۔۔۔ربکعبہ کی قسم علیؑ کامیاب ہوگیا ۔۔۔دو دن بعد اکیس رمضان المبارک کوامیر المومنیںؑ حضرت امام علی ابن ابی طالب علیہ سلامشہید ہو گئے اور یوں علیؑ کا ظاہری سفر خانہ کعبئہ میں ولادت سے لے کرمسجد کوفئہ میں شہادت تک ہر لمحہ الللہ پاک کی خوشنودی و رضا کی خاطر بسرہو کر رہتی دنیا تک مینارہ نور بن گیا۔
علی ابن ابی طالب (ع) ۔ صراط حیات

علی ابن ابی طالب (ع)عالم اسلام بلکہ عالم بشریت کی مفتخرترین ہستیوں میں مرسل اعظم ، نبی رحمت حضرت محمّد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے بعد سب سے پہلا نام امیر المومنین حضرت علی ابن ابی طالب کا آتا ہے لیکن آپ سے متعلق محبت و معرفت کی تاریخ میں بہت سے لوگ عمدا” یا سہوا” افراط و تفریط کا بھی شکار ہوئے میں ایک جگہ خبردار کیا ہے کہ : ” جلد ہی میرے سلسلے میں دو گروہ ہلاک ہوں گے ایک وہ دوست جو افراط سے کام لیں گے اور ناحق باتیں میری طرف منسوب کریں گے اور دوسرے وہ دشمن جو تفریط سے کام لے کر کینہ و دشمنی میں آگے بڑھ جائیں گے اور باطل کی راہ اپنا لیں گے ۔میرے سلسلے میں بہترین افراد وہ ہیں جو میانہ رو ہیں اور راہ حق و اعتدال سے تجاوز نہیں کرتے ۔

علی ابن ابی طالب (ع)
عزیزان محترم ! وہ سچے مسلمان جو اہلبیت رسول (ص) سے محبت کرتے ہیں اور ان کواپنے لئے ” اسوہ ” اور” نمونۂ عمل ” سمجھتے ہیں صرف اس لئے ایسا نہیں کرتے کہ وہ ہمارے نبی (ص) کی اولاد ہیں اور ان کی نسل اور خاندان سے تعلق رکھتے ہیں بلکہ اس لئے محبت و اطاعت کرتے ہیں کہ وہ خدا کی نگاہ میں عزیز و محترم ہیں اور ان کو اللہ نے اپنا نمائندہ اورعالم بشریت کا امام و پیشوا قراردیا ہے ۔البتہ جن کو اہلبیت (ع) کی صحیح معرفت نہیں ہے وہ ان کو یا تو اولاد رسول (ص) سمجھ کر مانتے اور احترام کرتے ہیں یا پھر ایسے بھی لوگ ہیں جو ایک اچھا انسان سمجھ کر ان کی تعریف و ستائش کرتے اور عقیدت و ارادت کا اظہار کرتے ہيں ۔ لیکن مسلمانوں کے لئے سب سے اہم یہ ہے کہ خدا نے ان کو امام و رہنما بنایاہے اور اسوہ و نمونہ قرار دے کر ان کی اطاعت و پیروی واجب قرار دی ہے ۔ان کی سیرت سے سبق حاصل کرنا اور ان کے آئینۂ کردار میں خود کو ڈھالنا ہمارا فریضہ ہے ۔چنانچہ حضرت علی (ع) کی محبت اور معرفت میں اس پہلو کو سامنے رکھنا بے حد ضروری ہے مسلمانوں کو دراصل اپنی رفتار و گفتار کے ذریعہ ثابت کرنا چاہئے کہ جب ہم ” علی کی پیروی ” کی بات کرتے ہيں تو یہ اوروں کی پیروی سے الگ ، خدا و رسول (ص) کی پیروی کے مترادف ہے ایک مسلمان حضرت علی (ع) سے محبت و اطاعت عبادت سمجھ کر انجام دیتا ہے ۔جس طرح قرآن کی تلاوت رسول اسلام (ص) کی پیروی ،نماز و روزہ کی ادائگی ، حج کے اعمال اور راہ خدا میں جہاد و سر فروشی عبادت ہے علی ابن ابی طالب (ع) کی محبت اور پیروی بھی عبادت ہے ۔ظاہر ہے محبت و اطاعت اسی وقت کارساز ہے جب ان کی امامت و رہبری کی معرفت کے ساتھ ہو ۔

علی ابن ابی طالب (ع)
ورنہ محبت کی ایک وہ صورت بھی ہے جو درویشوں اور فقیروں کے یہاں پائی جاتی ہے وہ بھی حضرت علی (ع) کو اپنا قطب اور پیشوا مانتے ہیں مگر حضرت علی (ع) کی عملی زندگی سے خود کو دورکئے ہوئے ہیں عیسائي دانشور جارج جرداق ادعا کرتے ہیں کہ “میں خداؤں کی پرستش کرتا ہوں میرے لئے علی ابن ابی طالب کمال اور عدالت و شجاعت کے پروردگار ہیں ” ۔ظاہر ہے اس عیسائي دانشور کی محبت اور اس کا اظہار الگ عنوان رکھتا ہے وہ عیسائي تھے اور عیسائي رہے ہیں انہوں نے” انسانی عدل و انصاف کی آواز” کے عنوان سے حضرت علی (ع) کی مدح و ستائش میں ایک پوری کتاب کئی جلدوں میں لکھ دی مگر ان کی محبت اسلام کی نظر میں کسی دینی معیار پر پوری نہیں اترتی ۔اسلام میں وہی محبت کارساز ہے جو معرفت کےساتھ ہو ورنہ محبت میں سہی اگر کوئی حضرت علی (ع) کو الوہیت یا نبوت و رسالت کی منزل میں پہنچانے کی کوشش کرے تو یہ غلو اورشرک ہے جس کی طرف حدیث میں آیا ہے :

” ہلک فیہ رجلان مبغض قال و محب غال”

“مبغض قال ” سے مراد وہ کینہ توز دشمن ہیں جو جان بوجھ کر علی (ع) کے فضائل چھپاتے یا انکار کرتے ہیں ۔ اور ” محب غال ” سے مراد محبت کے وہ جھوٹے دعویدار ہیں جو حضرت علی (ع) کو خدا کی منزل تک پہنچا دیتے ہیں ۔ایک مسلمان کی حیثیت سے جب ہم علی ابن ابی طالب (ع) کی سیرت اورکردار کا جائزہ لیتے ہیں تو وہ خدا کی بندگی رسول اسلام (ص) کی جانشینی اور مسلمانوں کی امامت و پیشوائی کے لحاظ سے بہتریں مسلمان اور کامل ترین انسان نظر آتے ہیں ۔اسی لئے ان کی شخصیت اور کردار ابدی اور جاوداں ہے چنانچہ 19 ماہ رمضان المبارک کو وقت سحر سجدۂ معبود میں جس وقت امیرالمومنین کی پیشانی خون میں غلطاں ہوئی خدا کے معتمد اور رسول اسلام (ص) کے امین ، فرشتوں کے امیر ، جنگ احد میں ” لافتی الّا علی لاسیف الّا ذوالفقار ” کا نعرہ بلند کرنے والے جبرئیل نے تڑپ کر آواز بلند کی تھی :

” ان تَہَدّمَت و اَللہ اَرکان الہُدیٰ” خدا کی قسم ارکان ہدایت منہدم ہوگئے
اور مسجد کوفہ میں جب سارے مسلمان اپنے امام وپیشوا کے غم میں نوحہ و ماتم کرنے میں مصروف تھے خدا کا مخلص بندہ اپنے معبود سے ملاقات کااشتیاق لئے آواز دے رہا تھا” فُزتُ وَ رَبّ الکَعبہ ” رب کعبہ کی قسم میں کامیاب ہوگیا اور علی (ع) آج بھی کامیاب ہیں کیونکہ ان کی سیرت ،ان کا کردار ،ان کے اقوال و ارشادات ان کی حیات اور شہادت کاایک ایک پہلو نہ صرف عالم اسلام بلکہ عالم بشریت کی کامیابی و کامرانی کی ضمانت سمجھا جاتا ہے اسی لئے علی ابن ابی طالب (ع) سے محبت اور معرفت رکھنے والے کل بھی اور آج بھی اس بات کا اقرار کرتے ہیں کہ علی (ع) کی شہادت تاریخ بشریت کے لئے ایک عظیم خسارہ اورایسی مصیبت ہے کہ اس پر جتنا ماتم کیا جائے کم ہے ۔نبی اکرم (ص) کی رحلت کے بعد ملت اسلامیہ کا وہ کارواں جو 25 سال پیچھے ڈھکیل دیا گيا تھا جب حضرت علی (ع) کی ولایت و امامت پر متفق ہوا اور حکومت و اقتدار امیرالمومنین کے حوالے کردیا گیا تو 18 ذی الحجّہ سنہ 35 ہجری سے 21 ماہ رمضان المبارک سنہ 40 ہجری تک چار سال دس مہینہ کی مختصر مدت میں علی ابن ابی طالب نے وہ عظیم کارنامے قلب تاریخ پر ثبت کردئے کہ اگر ظلم و خیانت کی شمشیر نہ چلتی اور جرم و سازش کا وہ گھنونا کھیل نہ کھیلا جاتا جو عبدالرحمن ابن ملجم اور اموی خاندان کے جاہ طلبوں نے مل کر کھیلا تھا تو شاید دنیائے اسلام کی تقدیر ہی بدل جاتی پھر بھی علی ابن ابی طالب (ع) نبی اکرم (ص) کی 23 سالہ زندگی کے ساتھ اپنی پانچ سالہ حکومت کے وہ زریں نقوش تفسیر و تشریح کی صورت میں چھوڑ گئے ہیں کہ رہتی دنیا تک کے لئے اسلام کی حیات کا بیمہ ہوچکا ہےاور قیامت تک روئے زمین پرقائم ہونے والی ہر حکومت اس کی روشنی میں عالم بشریت کی ہر ضرورت کی تکمیل کرسکتی ہے ، چونکہ 21 رمضان المبارک کو علوی زندگی کا وہ صاف و شفاف چشمہ جو دنیائے اسلام کو ہمیشہ سیر و سیراب کرسکتا تھا ہم سے چھین لیا گيا لہذا یہ مصیبت ایک دائمی مصیبت ہے اورآج بھی ایک دنیا علی (ع) کے غم میں سوگوار اورماتم کناں ہے ۔

19 رمضان:

سن40 ھ ق : حضرت علی علیہ السلام مسجد کوفہ میں شہید کر دیئے گئےتھے۔

عبد الرحمن بن ملجم مرادی ، خوارج میں سے تھا اور ان تین آدمیوں میں سے تھا کہ جنہوں نے مکہ معظمہ میں قسم کھا کر عہد کیا تھا کہ تین افراد بشمول امام علی بن ابیطالب (ع) کو قتل کرڈالیں گے ۔

ھر کوئی اپنے منصوبے کے مطابق اپنی جگہ کی طرف روانہ ہوا اور اس طرح عبدالرحمن بن ملجم مرادی بیس شعبان سن چالیس کو شھر کوفہ میں داخل ہوا۔

انیسویں رمضان سن چالیس کی سحر کو کوفہ کی جامعہ مسجد میں امیرالمومنین علی (ع) کے آنے کا انتظار کر رہا تھا ۔ دوسری طرف قطامہ نے ” وردان بن مجالد” نامی شخص کے ساتھ اپنے قبیلےکے دو آدمی اسکی مدد کے لیے روانہ کئے گئے۔

اشعث بن قیس کندی جو کہ امام علی (ع) کے ناراض سپاہیوں اور اپنے زمانے کا زبردست چاپلوس اور منافق آدمی تھا ،حضرت امام علی (ع) کو قتل کرنے کی سازش میں ان کی رہنمائی کی اور انکا حوصلہ بڑھایا رہا ۔ حضرت علی علیہ السلام انیسویں رمضان کے شب اپنی بیٹی ام کلثوم کے ہاں مہمان تھے .

روایت میں آیا ہے کہ آپ اس رات بیدار تھے اور کئی بار کمرے سے باہر آ کر آسمان کی طرف دیکھ کر فرماتے تھے :خدا کی قسم ، میں جھوٹ نہیں کہتا اور نہ ہی مجھے جھوٹ کہا گيا ہے ۔ یہی وہ رات ہے جس میں مجھے شھادت کا وعدہ دیا گيا ہے ۔

علی ابن ابی طالب (ع) بہر حال نماز صبح کے لیے آپ کوفہ کی جامعہ مسجد میں داخل ہوئے اور سوئے ہوئے افراد کو نماز کے لیے بیدار کیا من جملہ خود عبدالرحمن بن ملجم مرادی کو جوکہ پیٹ کے بل سویا ہوا تھا کو بیدار کیا۔اور اسے نماز پڑھنے کوکہا ۔

جب آپ محراب میں داخل ہوئے اور نماز شروع کی تو پہلے سجدے سے ابھی سر اٹھا ہی رہے تھے کہ شبث بن بجرہ نے شمشیر سے حملہ کیا مگر وہ محراب کے طاق کو جالگی اوراسکے بعد عبد الرحمن بن ملجم مرادی نے نعرہ لگایا :” للہ الحکم یاعلی ، لا لک و لا لاصحابک ” ! اور اپنی شمشیر سے حضرت علی علیہ السلام کے سر مبارک پر حملہ کیااور آنحضرت کا سر سجدے کی جگہ( ماتھے ) تک زخمی ہوگیا .

حضرت علی علیہ السلام نےمحراب میں گر پڑے اسی حالت میں فرمایا : بسم اللہ و بااللہ و علی ملّۃ رسول اللہ ، فزت و ربّ الکعبہ ؛ خدای کعبہ کی قسم ، میں کامیاب ہو گيا ۔

کچھ نمازگذار شبث اورا بن ملجم کو پکڑنے کیلئےباھر کی طرف دوڑ پڑے اور کچھ حضرت علی (ع) کی طرف دوڑے تاکہ ان کا حال لیں۔حضرت علی (ع) کہ جن کے سر مبارک سے خون جاری تھا فرمایا: ھذا وعدنا اللہ و رسولہ ؛یہ وہی وعدہ ہے جو خدا اور اسکے رسول نے میرے ساتھ کیا تھا ۔

حضرت علی (ع) چونکہ اس حالت میں نماز پڑھانے کی قوت نہیں رکھتے اس لیے اپنے فرزند حسن مجتبیٰ(ع) سے نماز جماعت کو جاری رکھنے کو کہا اور خود بیٹھ کر نماز ادا کی ۔

علی ابن ابی طالب (ع)
روایت میں آيا ہے کہ جب عبدالرحمن بن ملجم نے سرمبارک حضرت علی (ع) پر شمشیر ماری زمین لرز گئ ، دریا کی موجیں تھم گئ اور آسمان متزلزل ہوا کوفہ مسجد کے دروازے آ: تھدمت و اللہ اركان اللہ ھدي، و انطمست اعلام التّقي، و انفصمت العروۃ الوثقي، قُتل ابن عمّ المصطفي، قُتل الوصيّ المجتبي، قُتل عليّ المرتضي، قَتَلہ اشقي الْاشقياء؛ خدا کی قسم ارکان ھدایت منہدم ہوگئے علم نبوت کے چمکتے ستارے کو خاموش کیا گيا اور پرہیزگاری کی علامت کو مٹایا گيا اور عروۃ الوثقی کو کاٹا گيا کیونکہ رسول خدا(ص) کے ابن عم کو شھید کیا گيا۔ سید الاوصیاء ، علی مرتضی کو شھید کیا گيا، انہیں شقی ترین شقی [ابن ملجم ] نے شھید کیا۔

حضرت علی علیہ السّلام کے امتیازی صفات اور خدمات کی بنا پر رسول اکرم (ص) ان کی بہت عزت کرتے تھے او اپنے قول اور فعل سے ان کی خوبیوں کو ظاہر کرتے رہتے تھے کبھی یہ کہتے تھے کہ »علی مجھ سے ہیں اور میں علی سے ہوں« .کبھی یہ کہا کہ »میں علم کاشہر ہوں اور علی اس کا دروازہ ہے . کبھی یہ کہا »آپ سب میں بہترین فیصلہ کرنے والا علی ہے . کبھی یہ کہا»علی کومجھ سے وہی نسبت ہے جو ہارون کو موسیٰ علیہ السّلام سے تھی . کبھی یہ کہا»علی مجھ سے وہ تعلق رکھتے ہیں جو روح کو جسم سے یاسر کو بدن سے ہوتا ہے .,,

کبھی یہ کہ»وہ خدا اور رسول کے سب سے زیادہ محبوب ہیں ,, یہاں تک کہ مباہلہ کے واقعہ میں علی علیہ السّلام کو نفسِ رسول کاخطاب ملا. عملی اعزاز یہ تھا کہ جب مسجدکے صحن میں کھلنے والے، سب کے دروازے بند ہوئے تو علی کادروازہ کھلا رکھا گیا . جب مہاجرین وانصار میں بھائی کا رشتہ قائم کیا گیا تو علی علیہ السّلام کو پیغمبر نے آپنا بھائی قرار دیا۔ اور سب سے اخر میں غدیر خم کے میدان میں مسلمانوں کے مجمع میں علی علیہ السّلام کو اپنے ہاتھوں پر بلند کر کے یہ اعلان فرما دیا کہ جس طرح میں تم سب کا حاکم اور سرپرست ہوں اسی طرح علی علیہ السّلام، تم سب کے سرپرست اور حاکم ہیں۔ یہ اتنا بڑا اعزاز ہے کہ تمام مسلمانوں نے علی علیہ السّلام کو مبارک باد دی اور سب نے سمجھ لیا کہ پیغمبر نے علی علیہ السّلام کی ولی عہدی اور جانشینی کااعلان کردیا ہے

مشہور عیسائی عالم اور دانشور جارج جرداق کی ندائی عدالت انسانی سے اقتباس

علی بن ابی ابیطالب-ع-
رات تاریک اور ڈراؤنی تهی، آسمان پر ابر سیاه محیط تها کبهی کبهی بجلی چمک جاتی تهی جس کی روشنی گهٹا ٹوپ اندهیرے میں اجالا پهیلادیتی تهی، عقاب اپنے گهونسلوں میں سرچهپائے سو رہے تهے کہ کل ان کے بال و پر جهڑ جانے والے تهے اور وه سرور جہان کے غم میں سوگوار ہونے والے تهے.
امام (علیہ السلام)جاگ رہے تهے آنکهیں خواب سے محروم تهیں کیونکہ روئے زمین پر دکھ کے مارے ظلم کے پنجے میں تهے اور ان کا جینا دوبهر ہورہا تها. کچھ لوگ لہو و لعب اور سرکشی میں مبتلا تهے،قوت اور طاقت والے ایک طرف ظلم و جور کا بازار گرم کئے ہوئے تهے اور کمزور اور ناتوان طاقتور کا لقمہ بنے ہوئے تهے، آپ (علیہ السلام)کے دشمن شر و فساد میں ایک دوسرے کا ہاتھ بتا رہے تهے، کچھ بدکار تهے جو تعصب و نافرمانی کے کاموں میں ایک دوسرے کی محبت کا دم بهرتے تهے، کچھ خود کو آپ (علیہ السلام)کے یاران و انصار میں سے جانتے تهے مگر انہوں نے حق کو ترک کردیا تها اور ایک دوسرے کی مدد سے گریزان تهے.

علی بن ابی ابیطالب-ع-
امام (علیہ السلام)بیدار تهے آنکهوں نیند سے کوسوں دور تهی کیونکہ عدل و انصاف سے منہ موڑ لیا گیا تها، نیکی کو خیر باد کہہ دیا گیا تها، عوام الناس کی تقدیر فسادیوں کے ہاتهوں میں کهلونا بنی ہوئی تهی . خلائق کی جان خونریز مفسدوں کے اختیار میں تهی اور روئے زمین پر نفاق کی بہتات تهی.

امام جاگ رہے تهے نیند کے ذائقے سے محروم وه دنیا میں ہمیشہ حق و انصاف کے مددگار اور دست و بازو رہے ، مصیبت زدوں اور پریشان حالوں کے لئے بمنزلہ شفیق و مہربان بهائی تهے، ظالموں اور سرکشوں کے سروں پر مثل صاعقہ تهے، آپ (علیہ السلام)اپنی زبان اور شمشیر دونوں سے ظالموں کے خلاف بر سر پیکار رہے.

اس شب آپ (علیہ السلام)نے اپنی پوری زندگی پر نظر دوڑائی، بچپن ہی سے آپ (علیہ السلام)کے ہاتھ میں شمشیر بُرّان رہی، مشرکین مکہ کے کلیجوں کو سہائے رہے دین اسلام کی ترویج و اشاعت کی اور نور رسالت کی خدمت میں جان لڑاتے رہے. آپ (علیہ السلام)نے شب هجرت تلواروں تلے محو خواب رہنا یاد کیا، آپ (علیہ السلام)نے گذشتہ صعوبتوں اور لڑائیوں کا تصور کیا جہان آپ (علیہ السلام)نے اپنے ایمان اور پیغمبر اسلام (صلی الله علیہ و آلہ و سلم) کی محبت کی قوت سے قلعوں کو منہدم کردیا اور ہر خبیث کو جہنم واصل کیا، مؤمنین آپ (علیہ السلام)کی ہر ضربت پر سجده شکر بجا لاتے اور زمین کے بوسے لیتے تهے کیونکہ وه دیکهتے تهے کہ ظالم آپ (علیه السلام) سے یوں بهاگ رہے ہیں جیسے تیز آندهی میں ٹڈیاں تتر بتر ہوجاتی ہیں.

علی بن ابی ابیطالب-ع-
اپنے ابن عم الله کے رسول (صلی الله علیہ و آلہ و سلم) کا تصور کیا جو کمال شفقت و محبت سے آپ (علیہ السلام)کو دیکھ رہے تهے اور آپ (علیہ السلام)کو کلیجے سے لگاکر فرما رہے تهے “یہ میرا بهائی ہے”.

پیغمبر خدا (صلی الله علیہ و آلہ و سلم) تشریف لائے اورآپ محو استراحت تهے جناب سیده (سلام الله علیہا) نے آپ (علیہ السلام)کو جگانا چاہا تو پیغمبر (صلی الله علیہ و آلہ و سلم) نے ارشاد فرمایا ” انہیں سونے دو کہ انہیں میرے بعد طویل مدت تک خواب سے محروم رہنا ہے” اس پر جناب سیده (سلام الله علیہا) روئیں اور روتی رہیں.

آپ (علیہ السلام)کی نظروں میں رسول الله (صلی الله علیہ و آلہ و سلم) کی رحلت کا منظر گذر گیا آپ اس وقت 33 برس کے تهے. آپ (علیہ السلام)نے الله کے رسول (صلی الله علیہ و آلہ و سلم) اور اپنے بهائی کو غسل کفن اور دفن کا انتظام خود اپنے ہاتهوں سے کیا. آپ (علیہ السلام)ایک دائمی رنج و اندوه طاری ہوگیا، جناب سیده (سلام الله علیہا) اپنے پدر عالی قدر کے غم اور ان کے بعد کی مصیبتوں سے 75 یا 95 دن بعد ہی ان سے جاملیں، فرط غم نے آپ (علیہ السلام)کی نیندیں اڑادیں.

آپ (علیہ السلام)نے اصحاب رسول (صلی الله علیہ و آلہ و سلم) کی صورتیں یاد کیں جو یہ فقره ہر وقت دہراتے رہتے تهے ” کنا نعرف المنافقین فی عهد رسول الله (صلی الله علیہ و آلہ و سلم) ببغض علی (علیہ السلام)

یعنی: عہد پیغمبر (صلی الله علیہ و آلہ و سلم) میں ہم منافقوں کو ان (علی علیہ السلام) سے دشمنی سے پہچانا کرتے تهے، رسول الله نے ایک بار نہیں بارہا یہ فرمایا تها: یا علی لا یبغضک الا منافق. یعنی: ای علی (علیہ السلام) صرف منافق ہی آپ سے دشمنی کرسکتا ہے.

ان ہی لمحوں میں آپ (علیہ السلام)نے ان رفقاء اور انصار کو یاد کیا جو پیغمبر (صلی الله علیہ و آلہ و سلم) کی زندگی میں میں ایک دوسرے کے مددگار تهے، آج انہی میں سے کچھ لوگ آپ (علیہ السلام)کے ساتھ تهے اور کچھ لوک حکومت کی طمع کئی بیٹهے تهے، وه پاک طینت و پاکباز اصحاب جو وفادار، حق و عدل کے حمایتی اور نیکیوں کا قول و قرار کئے ہوئے تهے خداوندا ان پر رحمتیں نازل فرما جو اس دنیا سے اجنبی اور بیگانہ تهے، انہوں نے حق کی خاطر اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا تها اور دشمنوں کے جور و ستم نے انہیں زمین کی گہرائیوں میں پوشیده کردیا.

ابوذر غفاری رسول خدا (صلی الله علیہ و آلہ و سلم) کے بزرگترین صحابی جن سے زندگی کی ذلت و اہانت برداشت نہ ہوسکی اور وه اس کے خلاف اٹھ کهڑے ہوئے. وه معززترین انسان جس کی حق پرستی کی وجہ سے علی (علیہ السلام)کے سوا ان کا کوئی دوست نہ رہا، ہائے کتنا اندوہناک انجام ہؤا ان کا؟ وه جی جان سے حق کے سرگرم حمایتی رہے یہاں تک کہ انہوں نے عہد عثمان میں مظلومین کی خاطر سارے بنو امیہ کے خلاف محاذ قائم کیا بنو امیہ کے ہاتهوں ان کا غمناک انجام.

ایسے ہی ایک رات کچھ عرصہ پہلے علی (علیہ السلام)کے رفیق و جان نثار متقی و پرہیزگار، غموں میں شریک بهائی صحابی رسول (صلی الله علیہ و آلہ و سلم) عمار یاسر رضوان الله تعالی علیہ شہید ہوئے، ان کو باغیوں نے صفین کی لڑائی میں شہید کیا تها ( بالکل اسی طرح جیسا کہ رسول الله (صلی الله علیہ و آلہ و سلم) نے انہیں بشارت سنائی تهی کہ تقتلک فئة باغیة= تم کو باغی گروه قتل کردے گا)

آج ظلم و جفا، جور و ستم سے خونین جنگ اور ہولناک لڑائی لڑنے علی (علیہ السلام)اکیلے ره گئے تهے. یہ ایسی جنگ تهی جس میں حق ایک طرف یکہ و تنہا تها، یہ جنگ تهی علی کی، جو دنیا کی نعمتیں اور آسائشیں دوسروں کے لئے چاہتے تهے اور ان لوگوں کے درمیان موجود کچھ لوگ، رعیت کو کو سرسبز زمینوں اور مرغزاروں سے نکال کر بے آب و گیاه بنجر لق و دق صحراؤں اور باد سموم کی تندیوں میں دهکیلنا چاہتے تهے.

کل کا دن، وه دن جس کا علی (علیہ السلام)اپنے قلب و عقل سے تصور کررہے تهے، اس رات کے بعد کوئی بهی برا آدمی حق کو معزز کرکے ترجیح نہ دے گا جب کہ کذب سے اسے فائده پهنچنے کی امید ہو. اس رات کے بعد کوئی ایسا حاکم نہ ہوگا جو لوگوں کے لئے بمنزلت باپ کے ہو، جو باطل کی لذتوں کے مقابلے میں حق کے مصائب و آلام کو دوست رکهتا ہو. اس رات کے بعد ایسے قلب و عقل کا وجود نہ رہے گا جو خلائق کے ساتھ عادلانہ برتاؤ کرے. حق پر عمل پیرا ہو، چاہے پہاڑوں میں زلزلہ آجائے یا زمین کا سنہ شق ہوجائے- امیر المؤمنین (علیہ السلام)دیر تک روتے رہے.

وقت گذرتا گیا، رات تاریک ہوتی گئی، ابن ابی طالب (علیہما السلام) نے محسوس کیا کہ وہ دنیا میں اکیلے رہ گئے ہیں. ہائے زمین کیسی وحشت کی جگہ اور اجنبی بیگانہ و فریب کی منزل ہے؟ آپ (علیہ السلام)نے دنیا پر اپنے چشم دل سے نظر کی اور فرمایا ” اے دنیا میرے سوا کسی اور کو فریب دینا”.

علی بن ابی ابیطالب-ع-
ہائے کیا زندگی تهی علی (علیہ السلام)کی جو یا تو جہاد کرتے گذر گئی یا مصائب و آلام جهیلتے کٹی-

علی (علیہ السلام)صحن سے مسجد کی طرف روانہ ہوئے، آسمان قطرہ ہائے اشک برسا رہا تها طائروں پر حزن و اندوه طاری تها. ابهی آپ صحن مسجد تک نہ پهنچے تهے کہ بطخیں آپ کی طرف دوڑ کر چیخنے چلانے لگیں اور ان کے ساتھ صبح کی برفیلی ہواؤں نے بهی فریاد و زاری کی صدائیں بلند کیں، نمازی سکوت اور خاموشی کے ساتھ آپ (علیہ السلام)کی طرف بڑھے انہوں نے بطخوں کو امام (علیہ السلام)کے پاس سے ہٹانا چاہا مگر نہ تو بطحیں آپ کے پاس سے دور ہٹیں اور نہ ہی انہوں نے چلانا بند کیا. ہوا بهی سنسنا رہی تهی گویا یہ سب اس مصیبت سے باخبر تهے جو جناب امیر (علیہ السلام)کی دنیا میں آخری مصیبت ہوگی.

امیر المؤمنین (علیہ السلام)نے ان چیختی چلاتی بطخوں کی آوازوں کو غور سے سنا اور لوگوں کی طرف مڑ کر فرمایا: انہیں نہ ہٹاؤ یہ نوحہ کرنے والیاں ہیں. آپ (علیہ السلام)کا یہ جملہ آنے والی مصیبت کی پیشین گوئی تها، آپ (علیہ السلام)نے محسوس کیا کہ ایک دور دراز کا سفر شروع ہؤا چاہتا ہے.آپ تهوڑی دیر تک مسجد کے دروازے پر ٹہرے، ان بطخوں کی طرف نظر کی اور حاضرین کی طرف رخ کرکے کئی بار یہ فقره دہرایا “لا تزجروهن انهن نوائح” (= انہیں نہ ہٹاؤ یہ نوحہ کرنے والیاں ہیں)

علی (علیہ السلام)مسجد میں آئے رب العزت کے حضور سر جهکایا- ان ملجم زہر الود تلوار ہاتھ میں لئے آیا اور حضرت کے سرپر وار کیا کہ جس کے متعلق اس کاکہنا تها کہ اگر یہ وار سارے شہر کے باشندوں پر پڑے تو ایک شخص بهی زنده نہ بچے.

خدا کی لعنت ہو ابن ملجم پر اور تمام لعنت کرنے والوں کی لعنت ہو اس پر، اس پر دنیا میں ہر آنے والے اور دنیا سے ہر جانے والے کی لعنت ہو. ہر اس شخص کی لعنت ہو جو خدا کے حکم سے پیدا ہؤا. خداوند عالم ابن ملجم پر ایسی لعنت کرے کہ وہ لعنت دریاؤں پر پڑے تو وہ خشک ہوجائیں، کهیتوں پر پڑے تو وه نیست و نابود ہوجائیں اور سرسبز پودوں کو زمین کے اندر ہی جلا کر راکھ کردے. جہانوں کا خالق و مالک جہنم کے بهڑکتے شعلے اس پر مسلط فرمائے اور اسے منہ کے بل جہنم میں دال دے. اس جگہ جہاں آگ کے شعلے لپک رہے ہوں اور قہر الہی کا جوش و خروش ظاہر کررہے ہوں.

محبان علی (علیہ السلام)کو عظیم ترین صدمہ پهنچا، زمانے نے علی (علیہ السلام)پر گریہ کیا، اور آنے والے صدیان بهی علی (علیہ السلام)پر گریہ کریں گی. دنیا کی ہر چیز شکستہ و اندوہگین ہوئی سوائے علی ابن ابی طالب (علیہما السلام) کے جن کا چہرہ ہشاش بشاش تها. آپ (علیہ السلام)نے نہ انتقام کی خواہش ظاہر کی نہ غیظ و غضب کا اظہار کیا بلکہ ” فزت برب الکعبة” کہہ کر اپنی کامیابی کا اعلان فرمادیا. لیکن آپ (علیہ السلام)کے چہرے کی بشاشت تمام مصائب و آفات سے بڑھ کر اندوہناک تهی اس وقت آپ کا چہره سقراط کے چہرے سے مشابہ تها جس وقت جاہل اورنادان عوام نے اسے زہر پلایا تها، عیسی ابن مریم (علی نبینا و آلہ و علیہ السلام)کے چہرے جیسا تها جب کہ قوم یہود آپ (علیہ السلام)کو کوڑوں سے اذیت پهنچا رہے تهے، محمد مصطفی (صلی الله علیہ و آلہ و سلم) کے چہرے جیسا تها جب آپ (صلی الله علیہ و آلہ و سلم) پر طائف کے نادان پتهر برسا رہے تهے اور یہ نہ سمجھ رہے تهے کہ ہم کس بزرگترین ہستی کو یہ پتهر مار رہے ہیں.

علی بن ابی ابیطالب-ع-
کوفہ کا سب سے بڑا طبیب حاذق اثیر بن عمرو ہانی آیا اور زخم کے معائنے کے بعد اس نے مأیوسی کا اظہار کیا، آپ نے حسن اور حسین (علیہما السلام) کو اپنے پاس بلاکر وصیتیں فرمائیں جن میں سے چند جملے یہ ہیں:

” میرے قتل کی وجہ سے ہنگامہ یا خونریزی نہ کرنا، اپنے پڑوسیوں کا لحاظ کرنا، فقراء اور مساکین کا خیال رکهنا اور انہیں بهی اپنی روزی اور معاش میں شریک رکهنا، اچهی بات کہنا، امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کو ترک نہ کرنا، آپس میں لطف اور مہربانی سے پیش آنا، بی تکلفی اور سادگی برتنا، ایک دوسرے سے نہ کٹنا، متفرق نہ ہونا و…

بروز جمعہ صبح کے وقت آپ (علیہ السلام)کے فرق مبارک پر ضربت لگی تهی اس کے بعد دو روز تک انتہائی کرب و اذیت کے عالم میں زنده رہے مگر آپ (علیہ السلام)نے اف تک نہ کی، لوگوں کو احسان و نیکی اور رحم و کرم وصیت فرماتے رہے. ماه رمضان کی اکیسویں شب کو آپ (علیہ السلام)نے اس دنیا سے رحلت فرمائی.

آپ دنیا سے رخصت ہوگئے اور اپنے بعد ایسا خاندان چهوڑ گئے جس کا ایک ایک فرد راه حق میں شہید ہؤا، اپنے بعد دکهیاری بیتی زینب (سلام الله علیہا) کو دنیا بهر کے مصائب و آلام جهیلنے کے لئے چهوڑ گئے اور دنیا نے ان کے ساتھ وه بے رحمی و شقاوت کا سلوک کیا جیسا کسی کے ساتھ نہ کیا ہوگا. حسن اور حسین (علیہما السلام) کو ابوسفیان کی بیٹی اور دیگر خون کے پیاسے دشمنوں میں چهوڑ گئے.

علی (علیہ السلام)اور فرزندان علی (علیہم السلام) کے خلاف سازش کا پہلا دور تمام ہؤا، اس کے بعد بے شمار دور آئے اور ہر دور اپنی آغوش میں ہولناک تر اور سخت تر اور شدید تر مصائب لئے ہوئے تها.

امام (علیہ السلام)اپنے دشمنوں کو دنیا میں زندہ چهوڑ گئے لیکن ان کی یہ زندگی عین ہلاکت تهی.

علی محراب کوفہ میں اپنی شدت عدل کی بنا پر قتل کئیے گئے تهے

متعلقہ مضامین

Back to top button