سفرنگار علی زین کی پہلی علمی کاوش "سفرِِ عشقِِ حُسین”ؑ
یہ سفرِ عشق ہے، جسے فقط دل سے دل میں ہی اتار جا سکتا ہے۔ الفاظ تو حجاب ہیں۔ الفاظ کے حجاب سے الہام ہی لیا جا سکتا ہے۔ میرے نزدیک برادر عزیز علی زین اس سفر عشق کو قارئین کے دلوں پر الہام کرنے میں بڑی حد تک کامیاب ہوگئے ہیں۔ ان کا یہ پہلا سفرنامہ ہے
تبصرہ نگار: نذر حافی
سفر اور انسان کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ ارباب دانش نے آج تک بے شمار سفر نامے لکھے ہیں۔ اردو ادب میں بھی معیاری سفر ناموں کی کوئی کمی نہیں۔
تاہم شہدائے کربلا سے منسوب شاعری ہو یا نثر، اُس کی اپنی ایک چاشنی ہے۔ چناب سے نینوا تک کے سفر نامے کی ورق گردانی کرکے دیکھئے۔ علی زین کا قلم، دشت کربلا کے سفر میں ان کا ہمسفر ہے۔
ان کا قلم یہ گواہی دے رہا ہے کہ انسان کی طبیعت سے آوارگی، عشق، جستجو اور کھوج کو جدا نہیں کیا جا سکتا۔ اس سفر نامے کا عنوان "سفرِ عشقِ حسینؑ” جتنا سادہ ہے، اتنا ہی پیچیدہ بھی۔
اس کی فنّی سطح کا تعیّن فی الحال اہل نقد پر چھوڑتے ہیں، تاہم اتنا جان لیجئے کہ آپ ابھی تک چاہے سفرِ اربعین پر گئے ہوں یا نہیں، اس سفر نامے کا مطالعہ ضرور کریں، اس کی ہر سطر میں آپ کو کربلا کے طور کی تجلی دکھائی دے گی۔ اس میں بین السطور آپ کو وہ سب مل جائے گا، جو صرف صاحبانِ معرفت کے ہاں ملتا ہے۔
میں نے اس سفر نامے کا مطالعہ کیا ہے، آپ بھی اس کا کم از کم ایک مرتبہ مطالعہ ضرور کریں۔ یہ سفرنامہ آپ کو بتائے گا کہ یہ سفر قدموں سے نہیں بلکہ نیّت سے شروع ہوتا ہے۔
اس سفر میں ہمسفر ڈھونڈنے، ملنے اور بننے کا عمل دنیا کے دیگر ہر سفر سے مختلف ہے۔ ایک سے دو اور دو سے پانچ والی تحریر ضرور پڑھئے گا۔ آدابِ سفر میں سے یہ بھی ہے کہ مسافر کا دل باوضو ہو۔حسین ابن علی ؑ سفینہ نجات ہیں۔ اس سفینے میں سوار ہونے کیلئے حرکت کی ضرورت ہے۔
یہ حرکت دل و دماغ سے شروع ہوتی ہے اور مشہد و قم و نجف و کاظمین و سامرا و ۔۔۔ کربلا تک پھیلتی چلی جاتی ہے۔ اگر کسی نے انسانی وجود میں نور کی حرکت کا مشاہدہ کرنا ہو تو وہ علی زین کے اس سفر نامے کو اٹھائے اور علی زین کا ہم سفر ہو جائے۔ یہ سفرنامہ جہاں آپ کو اربعین کے سفر کے آداب، خلوص، بھائی چارے اور اخوّت کے بارے میں بتائے گا، وہیں اس سفر کے دوران بارڈر کے دونوں اطراف کے انتظامی معاملات اور زائرین کی فلاح و بہبود کے حوالے سے ہونے والے اقدامات سے بھی آگاہ کرے گا۔
ویزوں کی اپروول سے لے کر تفتان بارڈر تک اور پھر بارڈر کے دوسری طرف میر جاوہ سے مشہد و قم اور پھر عراقی بارڈرز سے داخل ہوتے وقت کی منظر کشی، جہاں ایک زائر کیلئے مفید ہے، وہیں ایک عام پاکستانی کیلئے بھی چشم کشا ہے۔ یہ پاکستان کا منفرد روٹ ہے، جس پر لوگ خالصتاً عشقِ الہیٰ اور عشق سیدالشہداء کی خاطر سفر کرتے ہیں۔ سارا سال اس روٹ پر مسافروں کی آمدورفت رہتی ہے۔
حکومت کی تھوڑی سی توجہ اور حکمت عملی اس روٹ کو سی پیک کا متبادل بنا سکتی ہے۔ علی زین نے اپنے اس قلمی سفر میں ہمیں علمدار روڈ کوئٹہ سے بھی گزارا۔ یقیناً علمدار روڈ کوئٹہ کی اپنی ایک سُرخ و سیاہ تاریخ ہے، لہذا اس سفر نامے میں اس روڈ کا ذکر بھی ضروری تھا۔
اس کے بعد علی زین نے چند انتہائی اہم سوالات اٹھا کر اس سفرنامے کی اہمیت کو مزید بڑھا دیا ہے۔ ان کیلئے باعث تعجب ہے کہ زائرین ایف سی کی معیّت میں بھی سفر کریں تو پھر بھی غیر محفوظ کیوں ہوتے ہیں اور پبلک روٹ سے تیل سے بھرے ٹینکروں کو گزرنے کی اجازت کیسے ملتی ہے۔؟
اس موقع پر انہوں نے اربعین فاونڈیشن کا بھی ذکر کیا ہے۔ ممکن ہے کہ اس سفرنامے کو پڑھنے والوں میں سے کسی کے دل میں یہ خیال انگڑائی لے کہ یہ کام اکیلے اربعین فاونڈیشن پر چھوڑنا انتہائی ناانصافی ہے۔ ضرورت ہے کہ ہمارے دیگر قومی و فلاحی ادارے تفتان بارڈر پر اربعین فاونڈیشن کے ساتھ کاندھے سے کاندھا ملا کر کھڑے ہوں۔ پاکستان کی عزاداری کی تاریخ میں اربعین فاونڈیشن کا اپنا ایک الگ مقام اور منفرد حصّہ ہے۔ اربعین فاونڈیشن کیا ہے اور اس کے کام کرنے کے طریقہ کار کو سمجھنے میں بھی یہ سفر نامہ آپ کو مدد دے گا۔ یوں یہ فقط سفرنامہ ہی نہیں بلکہ سوچنے اور سمجھنے والوں کیلئے فہم و فراست کا سارا سامان اس میں موجود ہے۔
اگر کسی میں زائرین کی معرفت، خدمت اور رہنمائی کا سچا جذبہ موجود ہے تو یہ کتاب اس کے جذبات کو درست سمت فراہم کرے گی۔ بارڈر کے دوسری طرف جہاں زائرین کیلئے بہت ساری سہولیات موجود ہوتی ہیں، وہیں مشکلات بھی بے پناہ ہوتی ہیں۔ ہمیں یہ سیکھنے کی ضرورت ہے کہ ہمارے ہمسایہ ملک ایران میں ان مشکلات پر قابو پانے کی خاطر کس طرح قومی تنظیمیں، فلاحی ادارے اور عام لوگ ایک صف میں کھڑے ہو جاتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: نوجوان صحافی توقیر کھرل کی کتاب ’’نجف سے کربلا‘‘ کا دوسرا ایڈیشن شائع ہوگیا
عراق میں زائرین کے استقبال کے مناظر پر صرف وہی یقین کرسکتا ہے، جس نے خود سفر اربعین کیا ہو۔ مہمانوں کی اس طرح بے لوث خدمت کرنا دنیا کے کسی بھی دوسرے ملک کے کلچر اور تہذیب میں دکھائی نہیں دیتا۔
مہمان نوازی کی یہ ریت اور روایت نہ الفاظ میں بیان ہوسکتی ہے اور نہ ہی اس کی علت کو فلسفے کی موشگافیوں میں تلاش کیا جا سکتا ہے۔
یہ سفرِ عشق ہے، جسے فقط دل سے دل میں ہی اتار جا سکتا ہے۔ الفاظ تو حجاب ہیں۔ الفاظ کے حجاب سے الہام ہی لیا جا سکتا ہے۔ میرے نزدیک برادر عزیز علی زین اس سفر عشق کو قارئین کے دلوں پر الہام کرنے میں بڑی حد تک کامیاب ہوگئے ہیں۔
ان کا یہ پہلا سفرنامہ ہی ہمیں کہیں رکنے یا ٹھہرنے نہیں دیتا، وہ ایک موکب سے دوسرے موکب تک اکیلے نہیں جاتے بلکہ اپنے قاری کو بھی ساتھ لے جاتے ہیں۔
زائرین کے ٹھاٹھیں مارتے سمندر کو دیکھتے جاتے ہیں اور کہتے جاتے ہیں کہ "اک سمندر کی طرح سوئے منزل ہیں رواں” اور کبھی تعجب سے کہتے ہیں کہ” کتنی بڑی ہے سلطنت مہدی ؑ”۔
اس سارے سفر نامے میں وہ ایک بات ہر قاری سے پوچھ رہے ہیں کہ کیا اب بھی کربلا میں حُر پہنچتے ہیں؟ ان کا یہ پوچھنا صرف پوچھنا ہی نہیں بلکہ بیدار کرنا بھی ہے۔ جوش ملیح آبادی کے بقول
انسان کو بیدار تو ہو لینے دو
ہر قوم پکارے گی ہمارے ہیں حسینؑ