مقالہ جات

حضرت علی(ع) کے کعبہ میں پیدا ہونے کی وجہ/ قرآن سے آپ کی ولایت کے اثبات کا نیا طریقآقائے قرائتی سے خصوصی گفتگو

kiritiجو لوگ تاریخ اسلام میں غور و فکر سے کام لیتے ہیں وہ خانہ کعبہ میں علی علیہ السلام کی ولادت کا واقعہ پڑھ کر حیرت سے انگشت بدنداں ہو جاتے ہیں۔ آپ کیسے اس واقعہ کی تحلیل کرتے ہیں؟
ــ بسم الله الرحمن الرحیم. الهی أنطقنی بالهدی و ألهمنی التقوی.
سب سے پہلے امیر مومنان حضرت علی علیہ السلام کی ولادت با سعادت کے موقع پر تمام شیعیان علی(ع) کو تبریک عرض کرتا ہوں۔
مجھے یاد ہے کہ عرب کے ایک معروف دانشمند ’’عبد الفتاح عبد المقصود‘‘ شاہی حکومت کے اواخر میں ایران آئے اور قم میں حضرت علی علیہ السلام کے سلسلے میں ہونے والی نسشتوں میں شرکت کی۔ ایک سوال جو انہوں نے ایک نشست میں پوچھا جبکہ وہ خود دانشمند اور صاحب تصنیفات تھے یہ تھا کہ آپ شیعہ لوگ علی بن ابی طالب کے کعبہ میں ولادت سے کیا سمجھتے ہیں اور اس واقعے کی کیا تحلیل کرتے ہیں؟
ان سے پوچھا: کیا آپ اس واقعے کو نہیں مانتے ہیں؟
اس نے جواب دیا: کیوں نہیں مانتا ہوں لیکن میں آپ کی اس واقعہ سے تفسیر کو جاننا چاہتا ہوں۔
بعض خاموش ہو گئے کہ اسے کیا جواب دیں لیکن ایک عالم دین نے یوں جواب دیا: تمام مسلمان کعبہ کی طرف رخ کر کے نماز پڑھتے ہیں خداوند عالم نے علی کو کعبہ میں پیدا کیا تاکہ جب بھی کوئی کعبہ کی طرف رخ کر کے نماز پڑھےتو وہ اس واقعہ کی طرف بھی توجہ کرے اور علی (ع) کو یاد کرے۔
اسی مضمون کے تحت ایک عالم ’’شمس اصطہباناتی‘‘ نے بڑے اچھے اشعار کہے ہیں:
این خانه را باید خدا در عرش معماری کند / آدم بنایش بر نهد جبریل هم یاری کند
آید خلیل الله در او یک چند حجاری کند / او را اولو العزمی دگر منقوش و گچکاری کند
اینسان خدا از خانه اش چندی پرستاری کند / تا ساعتی از دوستی یک میهمانداری کند
’’خدا کو یہ گھر عرش پر بنانا چاہیے، کہ آدم اس کی تعمیر کریں اور جبرئیل ان کی مدد کریں۔
اس کے بعد خلیل اللہ آئیں اور اس کے کھڑکیاں دروازے لگائیں، اس کے بعد کوئی دوسرا اولعزم پیغمبر آکر اس میں نقش و نگار کرے۔
اس طریقہ سے خدا اپنے گھر کی حفاظت اور نگہداری کروائے تاکہ اس میں اپنے ایک دوست کی مہمانداری کر سکے‘‘۔
اس شعر کا یہ مطلب ہے کہ خانہ کعبہ کا تعمیر کروانے اور اس کا نقشہ پیش کرنے والا خود خدا ہے حضرت آدم(ع) اس کی بنیاد ڈالنے والے اور حضرت جبرئیل اس کام میں ان کے مدد کرنے والے ہیں۔ حضرت ابراہیم (ع) اس میں پتھروں سے چنائی کرنے والے اور حضرت اسماعیل (ع) اس کی لپائی پوتائی کرنے والے ہیں۔ ان تمام افراد نے ایک دوسرے کی مدد سے اس گھر کی تعمیر اس لیے کی کہ اس گھر میں اللہ کا ایک مہمان آنے والا ہے۔ اب وہ مہمان کون ہے؟ وہ مہمان ہیں حضرت علی بن ابی طالب علیہما السلام۔
ابنا: ہماری نیوز ایجنسی کا مقصد یہ ہے کہ اہلبیت علیہم السلام کو دنیا میں متعارف کروائیں۔ اس مقصد کے تحت یہ سوال کرتے ہیں کہ حضرت علی علیہ السلام کو کیسے پہچانیں اور کیسے پہچنوائیں؟
حضرت علی علیہ السلام کی واقعی معرفت ہمارے بس کی بات نہیں ہے۔ ایک مثال دیتا ہوں: ہماری حد اکثر مفید عمر ۷۰ یا ۸۰ سال ہے۔ اس ۷۰،۸۰ سال کی عمر میں ہم ایک رکعت نماز بھی پوری توجہ سے نہیں پڑھتے ہیں۔ بلکہ ہم نماز میں دوسرے کاموں کے بارے میں سوچنے کی فرصت پیدا کر لیتے ہیں۔ لیکن امیر المومنین (ع) ایک رات میں ہزار رکعت نماز بجا لاتے ہیں اور ہر رکعت کو پوری توجہ کے ساتھ پڑھتے ہیں۔ اس حساب سے ہمارے ۸۰ سال حضرت علی (ع) کی ایک رکعت کے ہزارویں حصے کے برابر بھی نہیں۔ آپ (ع) کے باقی فضائل و کمالات جیسے علم، شجاعت، ایثار، اخلاص، حکمت و۔۔۔ ان سب کو درکنار رکھ دیں صرف ایک نماز میں ہی ہم مولا علی علیہ السلام کا مقابلہ نہیں کر سکتے اور ان کے مقابلہ میں صفر سے بھی نیچے ہیں۔
لہذا نہ ہم علی علیہ السلام کو خود پہچان سکتے ہیں اور نہ ہی پہچنوا سکتے ہیں۔
ابنا: پس کون علی علیہ السلام کی معرفت کروائے گا؟
۔ قرآن کریم، پیغمبر اکرام (ص) علی علیہ السلام کی معرفت کروائیں۔
سوال: قرآن کریم علی علیہ السلام کی کیسے معرفت دلاتا ہے؟
۔ مباہلہ کے واقعے میں نجران کے مسیحیوں نے پیغمبر اکرم (ص) سے کہا: ہم آپ کی نبوت اور رسالت کو قبول نہیں کرتے۔ لہذا آئیں بد دعا کرتے ہیں آپ اپنی جانوں کو بلائیں ہم اپنی جانوں کو بلاتے ہیں اور اس کے ایک دوسرے کے لیے بد دعا کرتے ہیں کہ جو ہم سے جھوٹا ہوں گا خدا اسے نابود کرے گا۔ "فَمَنْ حَاجَّكَ فِيهِ مِنْ بَعْدِ مَا جَاءَكَ مِنَ الْعِلْمِ فَقُلْ تَعَالَوْا نَدْعُ أَبْنَاءَنَا وَأَبْنَاءَكُمْ وَنِسَاءَنَا وَنِسَاءَكُمْ وَأَنْفُسَنَا وَأَنْفُسَكُمْ ثُمَّ نَبْتَهِلْ فَنَجْعَلْ لَعْنَتَ اللَّهِ عَلَى الكَاذِبِين”.(1)
جب رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ میدان مباہلہ میں آئے تو سب نےدیکھا کہ پیغمبر اتنی ساری عورتوں میں سے اپنے پارہ تن فاطمہ زہرا(س) اور ان کے بچوں حسن و حسین علیہما السلام اور اتنے صحابیوں اور رشتہ داروں میں سے صرف علی علیہ السلام کو اپنے نفس کے عنوان سے انتخاب کر کے میدان میں لائے ہیں۔(۲)
کیوں صرف علی پیغمبر اکرم (ص) کی جان ہیں؟ کیوں علی علیہ السلام نے ایسا کام انجام دیا جس کی وجہ سے خداوند عالم نے ملائکہ کےسامنے فخر کیا۔ علی علیہ السلام نے کیا کیا کہ خدا نے ان کے وجود پر فخر کیا؟ انہوں نے شب ہجرت کے واقعے میں رسول اسلام کے بستر پر سو کر رسول کی جان بچا دی۔ خداوند عالم نے فرشتوں سے کہا: دیکھو کیسے علی نے پیغمبر کی جگہ سو کر ان کی جان کو بچائی اور اپنے لیے موت کو خریدا۔ تم فرشتوں میں سے کون ایسا ہے جو دوسرے کی موت کو اپنی جان پر خریدے؟
لہذا جس طریقے سے شب ہجرت علی علیہ السلام نے پیغمبر اکرم (ص) کے بستر پر سو کر یہ ثابت کر دیا کہ علی(ع) جانِ رسول ہیں اسی طریقے سے مباہلہ کے دن رسول اسلام (ص) نے اتنے اور افراد میں سے صرف علی علیہ السلام کا انتخاب کر کے یہ ثابت کر دیا کہ نفس رسول (ص) صرف علی ہیں۔
سوال: ایک شاعر نے انتہائی ظرافت سے کہا: علی را قدر پیغمبر شناسد / که هر کس خویش را بهتر شناسد …
( علی کی قدر و قیمت صرف پیغمبر جانتے ہیں، ہر کوئی اپنے آپ کو بہتر جانتا ہے۔
۔ جی ہاں، خدا ہمارے نصیب کرے ہم حرم مولا کی زیارت کو جائیں اور حرم مولا کے در و دیوار کا بوسہ لیں۔ آپ دیکھیے حرم میں داخل ہوتے وقت جو اذن دخول پڑھا جاتا ہے جیسا کہ تمام روضوں میں داخل ہونے سے پہلے پڑھا جاتا ہے تو یہ اذن دخول جو امیر المومنین (ع) کے حرم میں داخل ہونے سے پہلے وارد ہوا ہے یہ در حقیقت ویسا ہی اذن دخول ہے جو حرم نبوی میں داخل ہونے سے پہلے پڑھتے ہیں۔ اس میں حضرت علی علیہ السلام کا بالکل تذکرہ نہیں ہوا ہے بلکہ حضرت علی علیہ السلام کے حرم میں داخل ہونے کے لیے رسول اسلام سے اجازت طلب کرتے ہیں۔
قابل توجہ بات یہ ہے کہ ہم زیارت امیر المومنین (ع) کے لیے گئے ہیں لیکن اذن دخول میں کہتے ہیں: اے وہ ذات جو مدینہ میں دفن ہے مجھے داخل ہونے کی اجازت دے۔ کیا حضرت علی (ع) ہمارے سامنے دفن نہیں ہیں؟ کیوں ہم حرم امیر المومنین (ع) پر کھڑے ہو کر اذن پیغمبر اکرم (ص) سے مانگتے ہیں؟ کیا یہ اس بات پر دلالت نہیں کرتا کہ رسول اسلام (ص) اور علی(ع) کے درمیان کس حد تک قربت پائی جاتی ہے؟
اس طرح کے متعدد موارد کے باوجود کیا یہ کہا جا سکتا ہے کہ حدیث غدیر میں مولا کے معنی دوست کے ہیں؟
سوال: آپ مفسر قرآن ہیں اور کئی سالوں سے قرآن کریم کا درس دے رہے ہیں۔ قرآن کریم کی کس آیت سے ہم علی علیہ السلام کی ولایت اور امامت کو ثابت کر سکتے ہیں؟
۔ امیر المومنین علی علیہ السلام کی ولایت کو ثابت کرنے کے لیے بہت ساری آیتیں پائی جاتی ہیں لیکن میں اس گفتگو میں صرف ایک کی طرف اشارہ کرتا ہوں، لیکن اس سے پہلے ایک مقدمہ بیان کرتا ہوں:
خداوند عالم کے تمام کام کسی حکمت کے تحت اور کسی مقصد کے لیے ہوتے ہیں۔ خدا کے کاموں میں سے ایک کام قرآن کریم اور اس کے اندر تمام مطالب منجملہ گزشتہ انبیاء کے قصے ہیں۔ خدا نے قرآن کریم میں حضرت یوسف کا قصہ بیان کیا ہے اور اس کے آخر میں کہا ہے: ہم اس طرح سے نیکی کرنے والوں کو اجر و ثواب دیتے ہیں۔(۳) یعنی یہ نہ سوچنا کہ یہ قصہ صرف ایک داستان ہے بلکہ جو شخص بھی اپنے آپ کو اس طرح گناہ سے بچائے گا ہم اس کو اسی طرح کی جزا دیں گے۔ اس طرح کی عبارتیں قرآن کریم میں بہت کم ہیں۔ اور قانون یہ ہے کہ قرآن سے ہم عموم کا استفادہ کریں۔
خداوند عالم سورہ بقرہ جو سب سے بڑا سورہ ہے اس میں طالوت اور جالوت کا قصہ بیان کرتا ہے اس واقعہ میں دو طاقتیں حق و باطل ایک دوسرے کے مد مقابل قرار پاتی ہیں۔ حق کی جانب سے ایک نوجوان ہوتا ہے داوود نام کا جو اپنی تمام شجاعت کے ساتھ باطل کے نمائندے اور رہبر کو قتل کر دیتا ہے۔ خدا کہتا ہے کہ اب جب تو نے اپنی شجاعت کا مظاہرہ کیا ہے اور باطل کے رہبر کو نابود کر دیا ہے تو میں تمہیں تین چیزیں دیتا ہوں: ۱: حکومت، ۲: حکمت، ۳: علم (۴)
داوود کے اس عظیم کام کے بعد آپ کا نام ہو گیا جناب داوود۔ اس کے بعد حضرت داوود(ع) یعنی نبی ہو گئے اور پھر ان کی اولاد میں بھی نبیوں کا سلسلہ چلا۔
اب یہاں پر میں عرض کروں۔ کیا جنگ احزاب یا جنگ خندق جو بھی کہیں اس میں حضرت علی (ع) عمرو بن عبدود کے مد مقابل نہیں آئے؟ اب کیسے وہاں خداوند عالم اس داوود نامی جوان کو جس نے کفر کے رہبر کو قتل کیا حکومت، حکمت اور علم عطا کر دے لیکن علی کو نہ دے؟ کیا یہ اللہ کی سنت کے خلاف نہیں ہے؟ لہذا خدا تو بے انصاف نہیں ہے اس نے جو کچھ داوود (ع) کو وہاں دیا وہ سب کچھ آج یہاں علی (ع) کو بھی عطا کرنا چاہیے۔
اگر قانون الہی یہ ہے کہ داوود اگر جالوت کو قتل کرے تو اسے حکومت، حکمت اور علم عطا کیا جائے تو پھر اگر علی(ع) بھی عمر بن عبدود کو جو کل کفر ہے جنگ خندق میں واصل جہنم کریں تو انہیں بھی یہ تین چیزیں ملنا چاہیے۔
یہ قرآن کریم کی ایک محکم دلیل ہے امیر المومنین علی علیہ السلام کی ولایت کے اثبات پر۔ قرآن سے اوپر اور کیا دلیل ہو سکتی ہے؟
سوال: ہم آپ کے بہت شکرگزار ہیں کہ آپ نے اپنی کثرت مصروفیات کے باوجود ہمیں وقت دیا۔

حوالہ جات
۱: سورہ آل عمران آیت ۶۱
۲: مباہلہ میں صرف پنجتن پاک نصارای نجراں کے مد مقابل گئے تھے اہل سنت کی کتابوں میں یہ بات تواتر سے ثابت ہے: تفسیر طبری، مستدرک حاکم نیشاپوری، دلائل ابو نعیم اور تفسیر کشاف میں دیکھا جا سکتا ہے۔
۳: و كذَلِكَ مَكَّنِّا لِيُوسُفَ فِي الأَرْضِ يَتَبَوَّأُ مِنْهَا حَيْثُ يَشَاءُ نُصِيبُ برَحْمَتِنَا مَن نَّشَاء وَلاَ نُضيعُ أَجْرَ المُحسنِين (سوره یوسف، آیه ۵۶﴾.
۴: وَ قتَلَ دَاوُودُ جَالُوتَ وَآتَاهُ اللَّهُ الْمُلْكَ وَالْحِكْمَةَ وَعَلَّمَهُ مِمَّا يَشَاءُ” (بقره ـ 251).

متعلقہ مضامین

Back to top button