مقالہ جات

صاحب عمامہ سید غلام رضا نقوی 16 سال سے انصاف کا منتظر!

ghulam raza naqviسرزمین پاکستان عرصہ دراز سے مکتب اہل بیت (ع) کے پیروکاروں کے خون سے رنگین ہو رہی ہے، اسلام اور وطن عزیز سے والہانہ محبت ہی اس مکتب کے ماننے والوں کا بظاہر سب سے بڑا جرم نظر آتا ہے، سابق ڈکٹیٹر جنرل ضیاءالحق کے دور حکومت سے مکتب تشیع کے خلاف منظم کارروائیوں کا آغاز ہوا، اور پھر ایک خاص مائنڈ سیٹ کو فرقہ پرست گروہوں سپاہ صحابہ اور پھر لشکر جھنگوی کی شکل میں مکتب تشیع کے سامنے لاکھڑا کیا گیا، جس کے بعد پاکستان کی سرزمین محب وطن تشیع کے لہو سے رنگین ہونا شروع ہوگئی، عزادار محفوظ رہے نہ عزاداری، آئے روز بے گناہ شہریوں کو قتل کرنے کا سلسلہ شروع ہو گیا، جو بدقسمتی سے آج بھی جاری ہے۔ حتیٰ کہ اہلبیت (ع) کی شان اقدس میں بھی گستاخیاں کی گئیں، مگر حکمران ٹس سے مس ہوئے نہ سیاسی و مذہبی رہنمائوں نے اس حساس مسئلہ پر لب کشائی کی زحمت کی۔

ایک وقت ایسا آیا کہ اس ملت کو اپنے محبوب ترین قائد شہید علامہ عارف حسین الحسینی سے بھی محروم ہونا پڑا، عزاداروں اور عزاداری کے تحفظ کیلئے درد دل رکھنے والے مکتب تشیع کے بعض افراد نے سپاہ محمد کی بنیاد ڈالی، اس تنظیم کے رہنمائوں کو وہ حکمران جنہوں نے دہشتگردوں اور تکفیری گروہوں کو مکمل آزادی دے رکھی تھی، کی جانب سے بلاجواز اور یک طرفہ کارروائیوں کا سامنا کرنا پڑا، انہی مخلص شیعیان علی (ع) میں ایک نام علامہ سید غلام رضا نقوی کا بھی ہے، جو سپاہ محمد کے سربراہ ہیں، گزشتہ 16 برس سے اپنے ناکردہ گناہوں اور محبت اہلبیت (ع) کی سزاء کاٹ رہے ہیں، علامہ غلام رضا نقوی کا آبائی علاقہ چک نمبر 463 حسن شاہ ضلع جھنگ ہے۔

علامہ غلام رضا نقوی پر قتل، اقدام قتل، ناجائز اسلحہ وغیرہ کے کل 79 جھوٹے مقدمات قائم کیے گئے، 1994ء میں کالعدم تنظیم سپاہ صحابہ کے رہنماء اعظم طارق پر ضلع سرگودھا میں ہونے والے حملے کا کیس علامہ غلام رضا نقوی کے خلاف درج کیا گیا۔ اس کیس میں انسداد دہشتگردی کی عدالت نے علامہ غلام رضا کو سزائے موت سنائی، صرف یہی ایک کیس اس وقت لاہور ہائیکورٹ میں چل رہا ہے اور باقی تمام یعنی 78 کیسز ختم ہو چکے ہیں، اور اس ایک بے بنیاد کیس میں علامہ صاحب لاہور جیل میں اسیری کی سزاء کاٹ رہے ہیں۔

آپ کے تین بیٹے اور تین بیٹیاں ہیں، آپ نے جب سنت آئمہ (اسیری) کا آغاز کیا تو آپ کے سب سے بڑے فرزند ابو تراب نقوی کی عمر محض 8 برس تھی، اور اس بچے کو انتہائی کم عمری میں ہی اپنے بہن بھائیوں اور ماں کی کفالت کا فرض ادا کرنا پڑا۔ والد کی قید شروع ہونے کے بعد ابو تراب نقوی نے ایک دکان کھول کر اپنے گھر والوں کا پیٹ پالنے کا سلسلہ شروع کیا اور آج تک یہ سلسلہ کسی نہ کسی صورت کسمپرسی کے عالم میں جاری ہے۔

غلام رضا نقوی کا خانوادہ آج کل ٹھوکر نیاز بیگ لاہور کے ایک سات مرلہ کے مکان میں رہائش پذیر ہے، جبکہ آپ خود کیمپ جیل لاہور میں انتہائی بیماری اور کمزوری کی حالت میں ایام اسیری گزار رہے ہیں، دو سال قبل علامہ صاحب کے جسم کے دائیں حصے پر فالج کا حملہ ہوا تھا، تاہم جیل انتظامیہ کی جانب سے مناسب طبی امداد کی عدم فراہمی کی وجہ سے آپ کی طبی حالت بگڑتی گئی اور آج آپ انتہائی مشکل حالات میں سلاخوں کے پیچھے موجود ہیں، عرصہ دراز کے بعد رواں ماہ علامہ صاحب کی لاہور ہائیکورٹ میں پیشی کی تاریخ لگی، تاہم عدالت کا وقت ختم ہو جانے کے باعث سماعت نہ ہوسکی۔

گزشتہ برس ’’اسلام ٹائمز‘‘ کیساتھ انٹرویو میں علامہ صاحب کے فرزند سید ابوتراب نقوی کا کہنا تھا کہ ’’مالی حالات بہتر نہ ہونے کی وجہ سے والد صاحب کے کیسز کی پیروی بھی بہتر طریقہ سے نہیں ہو سکی اور تاریخیں بھی بہت تاخیر سے ملیں۔ والد صاحب کی اسیری کے بعد بہت مشکل حالات کا سامنا کرنا پڑا، ان پر جو مقدمات درج ہوئے، اُن میں اکثر جھوٹے ثابت ہوئے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ عدالتوں میں کیس کی عدم پیروی، عدالتی نظام کے نقائص اور کچھ مومنین میں خوف و ہراس کے باعث مقدمات تاخیر سے ختم ہوئے۔ کیس کی پیروی کی جاتی تو اب تک رضا نقوی صاحب کب کے جیل سے رہائی پا چکے ہوتے، بذات خود کم عمری کے باعث عدالتی نظام کو سمجھنے کا کوئی تجربہ نہیں تھا، جس کے باعث کافی سارے مسائل کا سامنا کرنا پڑا‘‘۔

اعلٰی عدلیہ کے ججز کی بحالی کے بعد قوم توقع کر رہی تھی کہ پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ انصاف کے تقاضے پورے ہوں گے اور معاشرے کے ہر طبقہ کو انصاف ملے گا، لیکن افسوس کہ نظریہ ضرورت دفن نہیں ہو سکا، اور وہ چیف جسٹس آف پاکستان جنہوں نے قوم کو عدل و انصاف کی امیدیں دلائی تھیں، ایک شیعہ رہنماء اور عالم دین کیساتھ ہونے والی غیر رسمی ملاقات میں یہ کہتے ہوئے بے بس نظر آئے کہ ’’شیعہ نسل کشی پر میں خود سے نوٹس نہیں لے سکتا، آپ درخواست دائر کریں پھر دیکھیں گے۔‘‘ جہاں منصف انصاف کی فراہمی میں کسی قسم کی بھی بے بسی ظاہر کرے، وہاں دہشتگردوں کا آئے روز عدالتوں سے رہا ہونا پوری قوم کیلئے باعث تشویش ہے۔

یہاں کالعدم دہشتگرد جماعت لشکر جھنگوی کے سربراہ ملک اسحاق کی رہائی کا تعلق علامہ غلام رضا نقوی کی اسیری سے جوڑنا ممکن تو نہیں، البتہ انصاف کے تقاضوں پر نظر ڈالنے کیلئے یہ بیان کرنا ضروری ہے کہ ملک اسحاق وہ دہشتگرد ہے، جس نے سرعام سینکڑوں شیعہ افراد کے قتل کا اعتراف کیا، جو بعض بم دھماکوں اور سری لنکن کرکٹ ٹیم پر ہونے والے حملے میں بھی نامزد ملزم رہا ہے، ایسے شخص کی عدالتوں سے رہائی، ملک کے مختلف شہروں میں بلاروک ٹوک آمدورفت اور فرقہ وارانہ اور زہر آلود تقریروں کی آزادی ملک میں قانون کی عمل داری اور انصاف کے تقاضوں پر بہت بڑا سوالیہ نشان ہے، اور اس ملک میں رائج دوسرا نظام پھر علامہ غلام رضا نقوی جیسے صاحب عمامہ عالم دین کیلئے بھی، جسے گزشتہ 16 برس سے ناکردہ گناہوں کی سزاء بھگتنا پڑ رہی ہے۔

علامہ غلام رضا نقوی کی آئندہ پیشی 22 اکتوبر کو لاہور ہائیکورٹ میں ہے، ملک میں انصاف اور عدل کی موجود صورتحال میں کسی قسم کی امیدیں باندھنا تکلیف دہ ہو سکتا ہے، تاہم اگر ملت تشیع اپنے اس مخلص عالم دین اور رہنماء کی رہائی کیلئے دعا کیساتھ ساتھ اظہار یکجہتی اور ہمدری ظاہر کرے اور شیعہ حقوق کیلئے سرگرم تنظیمیں کیس کی پیروی میں معاونت کریں تو یقیناً علامہ غلام رضا نقوی کو جلد رہائی نصیب ہو سکتی ہے، اس وقت سب سے پہلا کام 22 اکتوبر کو لاہور ہائیکورٹ میں ہونے والی پیشی کے موقع پر اسیر امامیہ کیساتھ اظہار یکجہتی ہو سکتا ہے، علاوہ ازیں ان کے خانوادے کی خبر گیری اور پھر کیس کی بہترانداز میں پیروی میں مدد فراہم کرنے سے ملت اپنے اسیر رہنماء کو رہائی دلوانے میں کامیاب ہو سکتی ہے۔

متعلقہ مضامین

Back to top button