مقبوضہ فلسطین

فلسطین دو ریاستی حل کی داستان

کیا وہ منصوبہ اب ہمیشہ کے لیے دفن ہو چکا ہے؟

شیعیت نیوز : فلسطین کی جدوجہدِ آزادی میں سب سے زیادہ متنازعہ نکتہ "دو ریاستی حل” رہا ہے۔ 1991ء کی میڈریڈ کانفرنس اور اس کے بعد طے پانے والے معاہدۂ اوسلو کے تحت یہ تصور سامنے آیا کہ مقبوضہ فلسطین میں ایک آزاد فلسطینی ریاست اور ایک صہیونی ریاست ساتھ ساتھ قائم ہوں گی۔ امریکہ کے مختلف صدور نے اس منصوبے کو کبھی کم اور کبھی زیادہ اہمیت دی — بل کلنٹن کے دور میں اسے آگے بڑھایا گیا، باراک اوباما نے بھی اس پر زور دیا، مگر عملی طور پر اسرائیلی توسیع پسندی اور بستیوں کی تعمیر نے اس منصوبے کو غیر مؤثر بنا دیا۔

ڈونلڈ ٹرمپ کے دورِ حکومت کے بعد یہ منصوبہ تقریباً ختم کر دیا گیا۔ ان کی انتظامیہ نے "ڈیل آف دی سنچری” پیش کی جس میں فلسطینی ریاست کے قیام کا کوئی عملی امکان باقی نہیں رہا۔ ٹرمپ نے یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کیا اور فلسطینی قیادت کو دبانے کی پالیسی اپنائی۔ اسی سلسلے کی تازہ کڑی امریکی اقدام ہے جس کے تحت محمود عباس اور فلسطینی اتھارٹی کے دیگر رہنماؤں پر امریکہ آمد کی پابندیاں لگائی گئیں۔

یہ بھی پڑھیں : کیا امت مسلمہ غفلت کی نیند سے جاگے گی؟ عبدالملک الحوثی

تفصیلات کے مطابق، امریکہ نے فلسطینی اتھارٹی کے سربراہ محمود عباس اور ان کے وفد کے لیے ویزے منسوخ کر دیے، جس سے واضح ہوا کہ بعض امریکی پالیسیاں فلسطینی موقف کے ساتھ سخت رویہ اختیار کر چکی ہیں۔ امریکہ کے مطابق چونکہ فلسطینی اتھارٹی نے 7 اکتوبر کی کارروائی کی مذمت نہیں کی اور اسے دہشت گردی قرار نہیں دیا، اس لیے یہ اقدام اٹھایا گیا۔

امریکی وزارتِ خارجہ نے یہ بھی کہا کہ فلسطینی اتھارٹی اور بعض تنظیمیں بین الاقوامی قانونی چارہ جوئی ترک کریں اور اسرائیل کے خلاف مقدمات واپس لیں؛ اسی طرح یکطرفہ طور پر فلسطینی ریاست کو تسلیم کروانے کی کوششیں بند کرنے کا مطالبہ بھی کیا گیا ہے۔

ان پابندیوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ ٹرمپ دورِ حکومت اور اس کے بعد بعض پالیسی ساز حلقوں نے دو ریاستی حل کے بجائے ایک مضبوط یہودی ریاست کے قیام کو ترجیح دی ہے۔ محمود عباس کی جنرل اسمبلی میں شرکت پر پابندی نے واشنگٹن کے بعض عرب اتحادیوں کو بھی کشمکش میں ڈال دیا ہے، کیونکہ وہ ایک طرف اسرائیل سے تعلقات برقرار رکھنے کے خواہاں ہیں اور دوسری طرف فلسطینی ریاست کے قیام کو بھی اہم سمجھتے ہیں۔

دو ریاستی حل کی بنیاد 1991ء میں رکھی گئی اور میڈرڈ کانفرنس کے بعد اوسلو معاہدہ نمودار ہوا۔ بل کلنٹن نے اسے آگے بڑھانے کی کوشش کی اور بعد ازاں باراک اوباما تک یہ پالیسی جاری رہی۔ مگر ٹرمپ نے "ڈیل آف دی سنچری” کے ذریعے اس تصور کو یکسر پسِ پشت ڈال دیا، جس پر امریکہ میں بھی دونوں بڑی جماعتوں کے اندر اختلافات پیدا ہوئے۔

حالیہ فیصلوں نے یورپی ممالک کے لیے بھی انتباہی پیغام بھیجا ہے؛ یورپ طویل عرصے سے فلسطینی ریاست کے قیام کے حق میں رہا، مگر اب یہ صورتِ حال یورپی موقف پر بھی سوالیہ نشان لگا رہی ہے۔ دوسری جانب اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو کے "گریٹر اسرائیل” منصوبے نے خطے میں مزید کشیدگی پیدا کی ہے اور عرب ممالک کی جانب سے سخت ردِ عمل سامنے آیا ہے۔

امریکہ میں مارکو روبیو کے فیصلوں نے مذاکراتی اور صلح پسند حلقوں کو مزید تنہا کر دیا ہے؛ وہ قوتیں جو مغربی طاقتوں کے ساتھ تعلقات کو حلِ مسئلہ سمجھتی تھیں، عوامی اعتماد کھو رہی ہیں۔ اس کے برعکس، تازہ صورتحال فلسطینی مزاحمتی محاذ کے حامی حلقوں کو تقویت پہنچا رہی ہے اور عوامی رائے اس جانب مائل ہوتی جا رہی ہے کہ اسرائیل کے خلاف واحد مؤثر راستہ مزاحمت ہے، نہ کہ امریکہ کے ساتھ مذاکرات اور ساز باز۔

متعلقہ مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button