مقالہ جات

شہید مقاومت ،شہید عماد مغنیہ کے فراق کے چار برس

imadmoghiab۱۲ جولائی سنہ ۱۹۶۲ء تاریخ کا کوئی عام دن نہ تھا بلکہ اس دن جنوبی لبنان کے ایک علاقے دبہ میں فیض مغنیہ کے گھرانے میں ایک عظیم فرزند نے آنکھیں کھولیں جس کا نام ’’عماد مغنیہ ‘‘ تھا۔عماد مغنیہ مقاومت اسلامی حزب اللہ لبنان کا وہ عظیم سپوت ہے کہ جس نے اپنی تمام زندگی جہاد و مقاومت اور اسلام کی سر بلندی کے لئے صرف کی حتیٰ کہ

۱۲ فروری سنہ ۲۰۰۸ء کو صیہونی دہشت گردوں کی دہشت گردی کے نتیجہ میں شہادت نصیب کی اور اپنے خالق حقیقی سے ملاقات کی۔شہادت کے وقت عماد مغنیہ کی عمر ۴۵ برس تھی۔

شہید عماد مغنیہ کے والدین اہل بیت علیہم السلام سے بے پناہ محبت و عقیدت رکھتے تھے تاہم یہی وجہ تھی کہ عماد مغنیہ کے دل میں محبتِ اہل بیت علیہم السلام کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی اور وہ شرعی احکامات کی پابندی کا اپنا اولین فریضہ سمجھتے تھے۔شہید عماد مغنیہ نے ہزاروں مجاہدین اسلام کی تربیت کی جو رہتی دنیا تک اسلام کی سربلندی کے لئے سرگرم عمل رہیں گے۔

شہید عماد مغنیہ اپنے زمانہ بچپن اور جوانی سے لے کر شہادت کے ایام تک ایک خصوصی شخصیت کے حامل تھے اور انتہائی طلسماتی شخصیت کے حامل تھے۔شہید عماد مغنیہ کی تمام زندگی اللہ کے دشمنوں اور اللہ کے پیغمبر صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے دشمنوں سے جہاد کرنے میں گزری اور آپ نے ہمیشہ اللہ کے دشمنوں سے جنگ و جہاد کرنے کو ترجیح دی اور مظلوم قوم کے حقوق حاصل کرنے کے لئے جد و جہد کرتے رہے۔

بہت سی مشکلات اور دشواریوں کے باعث شہید عماد مغنیہ کے والد فیض مغنیہ نے اپنے گھر انے کو بیروت کے ایک علاقے ساحیہ میں منتقل کر لیا جو کہ شہیدوں کا عظیم مرکز سمجھا جاتا ہے ۔

شہید عماد مغنیہ نے سنہ ۱۹۷۵ء میں پہلی مرتبہ ساحیہ کے اسکول میں تدریس کے لئے جانا شروع کیا اور نوجوانی کے ایام میں غاصب صیہونیوں سے مزاحمت کرنے والی اور فلسطینیوں کے حقوق کے لئے لڑنے والی ایک تنظیم ’’فتح موومنٹ‘‘ میں شرکت کی ۔شہید عماد مغنیہ نے ’’فتح موومنٹ ‘‘ میں کمانڈو اور گوریلا تربیت حاصل کی اور جہادی مہارتیں سیکھنے کے ساتھ ساتھ جنگی مہارتیں بھی سیکھیں۔شہید عماد مغنیہ نے ’’فتح موومنٹ‘‘ میں نوجوانوں کو جنگی تربیت دینا بھی شروع کر دی اور بہت سے نوجوانوں کی تربیت کی۔

یہ اس وقت کی بات ہے کہ جب سنہ ۱۹۷۵ء میں لبنان پر صیہونی فورسز نے حملہ کر دیا تھا ،تاہم شہید عماد مغنیہ اپنی جنگی مصروفیات کے باوجود اپنی روحانی تربیت پر پوری توجہ دیتے تھے اور مشرقی بیروت میں واقع مسجد میں ہونے والے آیت اللہ فضل اللہ کے دروس میں باقاعدگی سے شرکت کیا کرتے تھے۔

جنوبی لبنان پر غاصب صیہونیوں کے محاصرے کے بعد شہید عماد مغنیہ وہ شخصیت اور مرد مجاہد تھے جو لبنان سے صیہونی محاصرے کو ختم کرنے کے لئے ان نوجوانوں کی قیادت کر رہے تھے جو صیہونیوں فوجیوں پر چھاپہ مار کاروائیاں کرتے تھے اور درجنوں صیہونیوں کو ہلاکت کے گھاٹ اتار کر نقصان پہنچایا کرتے تھے۔

شہید عماد مغنیہ سنہ ۱۹۸۲ء میں بیروت پر صیہونی قبضہ کو ختم کروانے میں پیش پیش رہے اور شہید عماد مغنیہ ایک کمانڈر،مجاہد اور بہادر مرد کے طور پر اپنے دوستوں میں جانے جاتے تھے اور بیروت سے اسرائیلی قبضہ کو ختم کروانے کے لئے حملوں کے ماسٹر مائینڈ تصور کئے جاتے تھے۔

شہید عماد مغنیہ لبنان میں تمام بھائیوں اور مجاہدوں کے درمیان مرکزی شخصیت رکھتے تھے اور شہید عماد مغنییہ نے ہمیشہ دشمن کو کاری ضرب لگانے کے لئے منصوبہ بندیا ں کاری رکھیں اور یہی نتیجہ تھا کہ بیروت میں اسرائیلی افواج پسپا ہوئیں ۔شہید عماد مغنیہ اسرائیلی افواج سے ہونے والے معرکوں میں متعدد بار خود میدان میں وارد رہے اور اپنے بھائیوں کے ساتھ مل کر اسرائیلوں کو پسپا کر دیا۔

شہید حاج رضوان عماد مغنیہ کی کامیابی کی ایک مثال یہ ہے کہ خود امریکی سامراج نے اس بات کا اعتراف کیا کہ سنہ ۱۹۸۳ء میں امریکی و فرانسیسوں فوجوں کے خلاف ہونے والی مقاومت کی سربراہی خود عماد مغنیہ کر رہے تھے جس کے نتیجہ میں ۲۴۱ امریکی و فرانسیسوی فوجی واصل جہنم ہوئے تھے تاہم امریکیوں نے الزام عائد کیا تھا کہ اس پوری کاروائی اور امریکی و فراسیسوی فوجیوں کو قتل کرنے اور فوجوں کے انخلا کی سب سے بڑی وجہ شہید عماد مغنیہ کی مقاومت ہے۔

دوسرا اہم کارنامہ اس وقت سامنے آیا جب لبنان سے سنہ ۲۰۰۰ء میں صیہونی فوجیں بھاگنے پر مجبور ہوئیں اس کاروائیوں میں بھی شہید عماد مغنیہ نے کلیدی کردار ادا کیا اور صیہونیوں کو لبنان سے بھاگنے پر مجبور کیا۔

شہید عماد مغنیہ نے سنہ ۲۰۰۶ء کی اسرائیل اور حزب اللہ کی ۳۳ روزہ جنگ کی کمانڈ کی اور ۳۳ روز تک اسرائیل کو لبنان میں داخل ہونے سے روکے رکھا اور حزب اللہ کے سربراہ سید حسن نصر اللہ نے اس بات کا اعلان اس وقت کیا جب عماد مغنیہ شہید ہوئے ،حزب اللہ کے سربراہ سید حسن نصر اللہ کاکہنا تھا کہ حزب اللہ کی اسرائیل کے ساتھ ہونے والی ۳۳ روزہ جنگ میں کامیابی کا سہرا شہید عماد مغنیہ کے سر ہے کہ جنہوں نے اپنی بصیرت اور جہادی مہارتوں اور اللہ سے قربت کے سبب اسرائیلی دشمن کو لبنان کی سرحدوں میں داخل ہونے سے نہ صرف روکا بلکہ بھاری نقصان بھی پہنچایا۔

شہید عماد مغنیہ کا قتل:

شہید عماد مغنیہ کو ۱۲ فروری سنہ ۲۰۰۸ کو شام میں صیہونی دہشت گردوں نے ایک بم حملہ میں شہید کر دیا ،شہید عماد مغنیہ کا امریکہ اور اسرائیل کے دہشت گردوں نے ۲۵ سال تک پیچھا کیا اور سنہ ۲۰۰۸ ء میں شہید کر دیا۔

شہید عماد مغنیہ شام میں شہید کئے گئے اور مقامی وقت کے مطابق رات کے ۱۱ بجے ہوئے تھے ،شہید عماد مغنیہ کے قتل میں اسرائیلی ایجنسی موساد اور امریکن سی آئی ملوث ہے ۔

متعلقہ مضامین

Back to top button