ایران کا دو ٹوک مؤقف، یورپی شرائط قومی مفادات کے خلاف اور ناقابلِ قبول ہیں
ایرانی وزیر خارجہ نے کہا کہ اسنپ بیک میکانزم کی توسیع کا حق یورپی ممالک کو حاصل ہی نہیں، ایٹمی ایجنسی کے ساتھ تعاون نئے حالات کے مطابق طے ہوگا

شیعیت نیوز : تہران ایرانی وزیر خارجہ سید عباس عراقچی نے کہا ہے کہ تین یورپی ممالک کی جانب سے اسنپ بیک میکانزم کی توسیع کے لیے رکھی گئی شرائط ایران کے قومی مفادات کے خلاف اور حقیقت سے دور تھیں۔ یہ بات انہوں نے اپنے ایک بیان میں کہی۔
عراقچی نے کہا کہ ایران کی ان ممالک کے ساتھ بات چیت ہمیشہ جاری رہی ہے اور یہ ممالک اب بھی جوہری معاہدے کے رکن ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں۔ یورپی ممالک بارہا اسنپ بیک میکانزم کے استعمال کی دھمکی دیتے رہے، جبکہ ایران، روس اور چین کا موقف یہ رہا ہے کہ انہیں اس حوالے سے کوئی قانونی حق حاصل نہیں۔ یہ معاملہ ایک سیاسی اور قانونی تنازعہ ہے جو اب بھی جاری ہے۔ یہ بات انہوں نے مزید وضاحت کے ساتھ بیان کی۔
یہ بھی پڑھیں : یمن کا اسرائیل پر بڑا حملہ: ہائپر سونک میزائل “فلسطین2” اور ڈرونز سے النقب و رامون ایئرپورٹ نشانہ
عراقچی نے بتایا کہ یورپی ممالک نے کچھ شرائط رکھی تھیں جن پر عمل ہونے کی صورت میں وہ اس میکانزم کو بڑھانے پر تیار تھے، تاہم ایران نے انہیں مسترد کردیا۔ انہوں نے کہا کہ جب انہیں اس اقدام کا بنیادی حق ہی نہیں تو اس کی توسیع کا حق کیسے ہو سکتا ہے؟ ان کی شرائط غیر واقعی اور غیر عقلی تھیں، اور ہمارے قومی مفاد کے خلاف تھیں۔ یہ بات انہوں نے دو ٹوک انداز میں کہی۔
ایرانی وزیر خارجہ نے کہا کہ ایران کا بین الاقوامی ایٹمی توانائی ایجنسی کے ساتھ تعاون یورپی ممالک کے ساتھ مذاکرات سے الگ ہے۔ این پی ٹی کے رکن ہونے کی حیثیت سے ایران کی کچھ ذمہ داریاں ہیں جن پر عمل کرنا لازم ہے۔ تاہم، موجودہ حالات اور ایٹمی تنصیبات پر حملوں کے بعد ایران نے ایجنسی کے ساتھ تعاون کے طریقہ کار پر دوبارہ مذاکرات کیے ہیں۔ یہ بات انہوں نے زور دے کر کہی۔
انہوں نے کہا کہ اس سے قبل کہ یورپی ممالک ہمارے ایٹمی پروگرام کے حوالے سے اپنے کچھ مطالبات پیش کریں، ایران پہلے ہی ایٹمی ایجنسی کے ساتھ مذاکرات شروع کر چکا تھا۔ یہ بات انہوں نے اجلاس کے دوران کہی۔
عباس عراقچی نے واضح کیا کہ موجودہ حالات میں ایجنسی کے ساتھ ایران کا تعاون پہلے کی طرح جاری نہیں رہ سکتا۔ تعاون میں تبدیلی کی دو اہم وجوہات ہیں: پہلی یہ کہ کچھ ایٹمی تنصیبات پر حملے ہوئے ہیں اور زمینی حالات بدل گئے ہیں، اور دوسری یہ کہ ایران میں ایک قانون موجود ہے جس پر حکومت اور پارلیمنٹ عمل کرنے کے پابند ہیں۔ اسی بنیاد پر ایران نے ایجنسی کے ساتھ مذاکرات کا آغاز کیا تاکہ مستقبل میں تعاون کا طریقہ کار طے کیا جا سکے۔ یہ بات انہوں نے اپنے خطاب کے اختتام پر کہی۔