اسرائیلی جارحیت کے بعد قطر کا دوحہ میں ہنگامی عرب و اسلامی اجلاس طلب
قطر: خطے کے نمائندے اتوار و پیر کو اجلاس میں شریک ہوں گے، اسرائیلی حملے کے خلاف مشترکہ حکمتِ عملی پر غور ہوگا

شیعیت نیوز : قطر نے اعلان کیا ہے کہ اسرائیل کی جانب سے دارالحکومت دوحہ پر کیے گئے فضائی حملے کے بعد ایک ہنگامی عربی و اسلامی اجلاس آئندہ اتوار اور پیر کو دوحہ میں منعقد ہوگا، جس میں خطے کے مختلف ممالک کے نمائندے شرکت کریں گے تاکہ اس جارحیت کے خلاف مشترکہ ردعمل پر غور کیا جا سکے۔
قطری خبر رساں ایجنسی قنا کے مطابق یہ اجلاس قطر کی حاکمیت کے خلاف اسرائیلی حملے کے بعد طلب کیا گیا ہے جو منگل کو پیش آیا اور جسے عالمی سطح پر کھلی خلاف ورزی اور دہشت گردی قرار دیا جا رہا ہے۔
ایک اعلیٰ سفارتی ذریعے نے الجزیرہ کو بتایا کہ اس اجلاس کا مقصد "اسرائیل کی جارحیت کے خلاف مربوط اور علاقائی حکمتِ عملی مرتب کرنا” ہے۔
یہ بھی پڑھیں : فلسطین امتِ مسلمہ کے اتحاد کی سب سے بڑی علامت ہے، شیخ نعیم قاسم
قطر کے وزیر اعظم و وزیر خارجہ شیخ محمد بن عبدالرحمن آل ثانی نے سی این این سے گفتگو میں کہا: "یہ اجلاس آئندہ دنوں میں دوحہ میں ہوگا اور شریک ممالک مشترکہ ردعمل کی راہ طے کریں گے، ہم کسی خاص طرزِ عمل پر زور نہیں دیتے بلکہ یہ چاہتے ہیں کہ خطے کی سطح پر ایک مؤثر اور حقیقی جواب دیا جائے تاکہ اسرائیلی غنڈہ گردی کو روکا جا سکے۔”
انہوں نے اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو کے حالیہ دھمکی آمیز بیانات کو مسترد کرتے ہوئے کہا: "نیتن یاہو بین الاقوامی قوانین کی دھجیاں اڑا رہا ہے، اہلِ غزہ کو بھوکا مار رہا ہے اور ساتھ ہی خود کو قانونی تقاریر کے ذریعے درست ثابت کرنے کی کوشش کرتا ہے، وہ عالمی فوجداری عدالت میں مطلوب ہے اور اسے انصاف کے کٹہرے میں لایا جانا چاہیے۔”
آل ثانی نے مزید کہا کہ انہیں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے اسرائیلی حملے کے خلاف "سخت پیغام” موصول ہوا ہے جس کی وہ قدردانی کرتے ہیں، لیکن یہ مؤقف اب عملی اقدامات میں ڈھلنا چاہیے۔
انہوں نے واضح کیا کہ اسرائیل نے حماس کے وفد پر حملہ کر کے جنگ بندی مذاکرات کو سبوتاژ کر دیا اور یرغمال بنائے گئے اسرائیلی قیدیوں کی رہائی کی تمام امیدیں ختم کر دیں۔
قابل ذکر ہے کہ اسرائیل کا یہ حملہ، جو دوحہ میں حماس کی قیادت کو نشانہ بنانے کے لیے کیا گیا مگر ناکام رہا، عرب و اسلامی دنیا کے ساتھ ساتھ عالمی سطح پر بھی شدید مذمت کا باعث بنا اور قطر اپنی ثالثی کے کردار پر ازسرنو غور کر رہا ہے۔