کربلا صرف تاریخ نہیں، بلکہ سچائی اور استقامت کا عالمی پیغام ہے، مولانا معروفی
انہوں نے مزید بیان کیا کہ جنگِ کربلا میں امام حسین علیہ السلام کے اصحاب کی تعداد مختلف روایات کے مطابق ۷۲ سے ۱۴۵ کے درمیان بیان ہوئی ہے

شیعیت نیوز : امام بارگاہ قرآن و عترت سیوان میں عشرۂ ماہ صفر کی مجالس اپنے آخری مراحل میں داخل ہو چکی ہیں۔ یکم صفر سے شروع ہونے والی ان مجالس میں امسال حسبِ روایت مومنین نے بھرپور شرکت کی اور حضرت امام حسین علیہ السلام و شہدائے کربلا کا غم نہایت عقیدت و احترام سے منایا۔
سیوان، جو کہ اٹھارہ مومنین کی بستیوں کا مرکز سمجھا جاتا ہے، یہاں کی فضائیں ان دنوں ذکرِ امام مظلوم سے معطر رہیں۔ سوز خوانی، نوحہ خوانی، سلام اور پیش خوانی کے ذریعے مختلف افراد نے اپنی عقیدت کا اظہار کیا۔ سوز خوانی کرنے والوں میں سید رضا صفدر رضا کٹکھری، ماسٹر اصغر صاحب، اور رہبر حسین شامل رہے۔ نظامت کے فرائض سید انتظار علی رضوی نے انجام دیے، جبکہ پیش خوانی سید ثمر رضوی نے کی۔ شاعر اہلِ بیتؑ جناب ریحان مصطفی آبادی، سید ندیم رضوی، اور محترم ریاض بھیک پوری نے منظوم خراجِ عقیدت پیش کیا۔ امام بارگاہ کی تزئین و آرائش میں شبر حسین صاحب، وجاہت حسین صاحب، شبر رضا صاحب اور احمد نگر کے مومنین پیش پیش رہے۔
یہ بھی پڑھیں : اربعین: ظلم کے خلاف بیدار ضمیر کی عالمی تحریک
کربلا صرف ایک تاریخی واقعہ نہیں بلکہ انسانیت، قربانی اور حق کی بیداری کا عالمگیر پیغام ہے؛ مولانا محمد رضا معروفی
ان مجالس سے مولانا محمد رضا معروفی نے خطاب کرتے ہوئے کربلا کے تاریخی واقعات، امام حسین علیہ السلام کے اہداف، یزیدی ظلم و ستم، اور اہلِ حق کے صبر و استقامت پر مفصل روشنی ڈالی۔
مولانا معروفی نے مجلس میں واقعۂ کربلا کی ابتدا بیان کرتے ہوئے کہا کہ جب امام حسین علیہ السلام کا قافلہ حر بن یزید کے ساتھ چل رہا تھا، تو ابن زیاد کے قاصد نے حر کو حکم نامہ پہنچایا کہ حسینؑ کو ایسی جگہ روکو جہاں نہ سبزہ ہو، نہ پانی، اور ان کی نقل و حرکت محدود کر دی جائے۔ اس حکم پر عمل کرتے ہوئے امام حسین علیہ السلام کا قافلہ ۲ محرم ۶۱ ہجری کو کربلا میں خیمہ زن ہوا۔
انہوں نے مزید بیان کیا کہ جنگِ کربلا میں امام حسین علیہ السلام کے اصحاب کی تعداد مختلف روایات کے مطابق ۷۲ سے ۱۴۵ کے درمیان بیان ہوئی ہے۔ ایک روایت کے مطابق امام کے لشکر میں ۳۲ سوار اور ۴۰ پیادہ، اور امام محمد باقر علیہ السلام سے منقول روایت کے مطابق ۴۵ سوار اور ۱۰۰ پیادہ شامل تھے۔ سپاہ کی ترتیب یوں تھی کہ حضرت زہیر بن قین کو دایاں بازو، حضرت حبیب بن مظاہر کو بایاں بازو، اور حضرت عباس علمدار علیہ السلام کو لشکر کا مرکز سونپا گیا تھا۔
دوسری طرف ابن زیاد نے کوفہ میں ایک منظم سازش کے تحت امام حسین علیہ السلام کے خلاف لشکر اکٹھا کرنا شروع کیا۔ اس نے کوفیوں میں مال و دولت تقسیم کی، ان کے دلوں میں خوف بٹھایا، اور نخیلہ میں لشکر جمع کرنے کا حکم دیا۔ کوفہ کے پل پر پہرہ بٹھا کر امام حسینؑ سے ملنے والوں کو روکا گیا، اور ہر روز فوجی دستے کربلا بھیجے گئے۔ ۶ محرم تک عمر بن سعد کے لشکر کی تعداد بیس ہزار سے تجاوز کر گئی، جس میں شمر بن ذی الجوشن، حصین بن نمیر، حجار بن ابجر، شبث بن ربعی، محمد بن اشعث، اور دیگر ظالم کمانڈر شامل تھے۔ ان سب کو کربلا بھیج کر امام حسین علیہ السلام کو بیعت پر مجبور کرنے یا جنگ پر آمادہ کرنے کا حکم دیا گیا۔
مولانا معروفی نے نوجوانوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ وہ کربلا کے پیغام کو سمجھیں، سچائی اور استقامت کا راستہ اپنائیں اور اہل بیتؑ کے مشن کو اپنی زندگی کا حصہ بنائیں۔ انہوں نے زور دیا کہ کربلا فقط ایک تاریخی واقعہ نہیں بلکہ انسانیت، قربانی اور حق کی بیداری کا عالمگیر پیغام ہے۔