اہم ترین خبریںمقالہ جات

کیا پاکستان امریکہ سے نجات پا جائے گا؟؟ | تصور حسین شہزاد

ماضی میں بھارت کے باعث روسی کیمپ میں پاکستان کو خاطر خواہ جگہ نہیں ملی، اب جبکہ بھارت مغربی بلاک کا حصہ بن گیا ہے اور روس کیساتھ اس کے تعلقات پہلے جیسے نہیں رہے تو پاکستان نے اس خلا سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنی جگہ بنا لی ہے

شیعیت نیوز: پاکستان کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے انکشاف کیا ہے کہ دورہ روس سے پہلے امریکی انتظامیہ نے ہم سے اعلیٰ سطح پر رابطہ کیا تھا اور ہمیں روس جانے سے پہلے خاص پیغام دیا گیا، مگر ہم جُوں کے تُوں رہے اور کوئی دباؤ قبول نہیں کیا۔

شاہ محمود قریشی نے کہا کہ ہم نے امریکا کو دورہ کرنے سے متعلق مطلع کر دیا تھا، امریکہ نے ’’معصومانہ‘‘ سوال کیا اور ہم نے ’’مؤدبانہ‘‘ جواب دیا۔ جانے سے پہلے ہی امریکا کو سمجھا دیا تھا کہ ہم روس کیوں جا رہے ہیں۔ شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ پاکستان کسی کیمپ پالیٹکس کا حصہ نہیں بنے گا، ہم نے معاشی اور انسانی طور پر گروہی سیاست کی بڑی قیمت ادا کی ہے، لیکن اب پاکستان کے مفادات کو مقدم رکھا جائے گا۔

انہوں نے مزید کہا کہ روس گوادر میں ایل این جی ٹرمینل قائم کرنے کا خواہاں ہے، پاکستان کے یورپی یونین، امریکا سمیت دنیا کی تمام طاقتوں کیساتھ بہترین تعلقات ہیں۔ عمران خان ملک کا مقدمہ لڑنے گئے تھے، اپنے ذاتی مفاد کا نہیں۔ شاہ محمود قریشی نے کہا کہ وزیراعظم نے مناسب وقت اور جگہ پر یوکرین کے حوالہ سے بھی بات کی۔ وزیراعظم کے دورہ روس سے قبل وزیراعظم ہائوس میں ایک اعلیٰ سطح کا مشاورتی اجلاس طلب کیا تھا، جس میں منجھے ہوئے سابق سفارتکاروں سمیت وزرات خارجہ کے سینیئر افسران نے بھی شرکت کی تھی اور روس یوکرین تنازعہ کے پس منظر میں وزیراعظم کے دورہ روس کا تفصیلی جائزہ لیا گیا تھا۔ مشاورت کے بعد وزیراعظم اور دیگر حکام اس نتیجے پر پہنچے کہ روس کیساتھ تعلقات میں پیشرفت کا یہ بہترین موقع ہاتھ سے نہیں جانے دینا چاہیئے۔

یہ بھی پڑھیں: کراچی میں بین الاقوامی نمائش، ایرانی اسٹالوں میں شہریوں کی بھرپوردلچسپی

میرے خیال میں حکومت کا یہ فیصلہ سو فیصد درست تھا، اس دورے سے پاکستان کی ڈپلومیٹی سپیس میں اضافہ ہوا ہے اور پاکستان کی خارجہ پالیسی میں ایک جدت آئی ہے۔ دوسری جانب امریکہ پاکستان کے ہر معاملے میں ایسے ٹانگ اڑاتا ہے، جیسے پاکستان اس کی کالونی ہو، یہ بھی حقیقیت ہے کہ پاکستانی معاملات میں امریکی مداخلت بہت زیادہ ہے۔ یہاں تک کہ جنرل حمید گل مرحوم کے بقول امریکہ کی مرضی کے بغیر ہمارا کوئی افسر آرمی چیف نہیں بن سکتا۔ سیاست میں بھی امریکی مداخلت کسی سے ڈھکی چھپی نہیں، یہی وجہ ہے کہ مولانا فضل الرحمان جیسے زیرک سیاستدان کو بھی امریکی حکام کو یقین دہانی کروانا پڑی کہ ’’مجھے وزیراعظم بنوا دیں، میں آپ کے ہر مفاد کا خیال رکھوں گا۔‘‘ پاکستان اگر ترکی اور ملائیشیا کو ساتھ ملا کر اسلامو فوبیا کیخلاف کوئی لائحہ عمل بنانے کیلئے کوئی میٹنگ کر لیتا ہے تو امریکہ اپنے ذرائع استعمال کرکے ہمیں کوالالمپور جانے سے رکوا دیتا ہے اور ہم تیل اور ریالوں کی مجبوری کا شکار ہو کر لیٹ جاتے ہیں۔

پاکستان میں کوئی نیا منصوبہ شروع ہو تو امریکہ پہلے اس کے خدوخال کا جائزہ لیتا ہے، پھر وہ منصوبہ آگے بڑھتا ہے، لاہور کے ’’راوی اربن ڈویلپمنٹ منصوبہ‘‘ کی ہی تازہ مثال لے لیں کہ امریکی قونصل جنرل دو بار اس منصوبے کے حوالے سے تفصیلات لے چکے ہیں اور دو بار ہی موقع پر جا کر سائیٹ کا معائنہ کرچکے ہیں کہ پاکستان یہاں بنا کیا رہا ہے۔ دوسرے لفظوں میں پاکستان وہ ’’دولہا‘‘ ہے، جو گاوں کے چودھری کی اجازت کے بغیر اپنی ’’دلہن‘‘ کے پاس بھی نہیں جا سکتا۔ جب نوبت یہاں تک پہنچی ہوئی ہو، تو کوئی کس طرح کہہ سکتا ہے کہ ہم آزاد ملک ہیں۔ امریکہ تو امریکہ، کوئی برطانوی حکمران پاکستان آجائے، تو ہماری اشرفیہ کی ’’نیاز مندی‘‘ قابل دید ہوتی ہے، ایسے ہاتھ باندھے اور سر جھکائے، کھڑے ہوتے ہیں، گویا بادشاہ سلامت کی شانِ اقدس میں گستاخی ہی نہ ہو جائے۔ ہماری پوری معیشت کو قرضوں کی ہتھکڑیوں اور بیڑیوں میں جکڑ کر رکھا گیا ہے۔ یہاں تک کہ ہم امریکہ و برطانیہ کی مرضی کے بغیر سانس بھی نہیں لے سکتے، تو کیسے ممکن ہے کہ عمران خان سر اُٹھا کر روس چلے جائیں اور امریکہ کو فکر نہ ہو۔

یہ بھی پڑھیں: ہم نے ملک میں اتحاد امت کی بنیاد رکھی اور نصاب بھی مشترکات پر مبنی ہونا چاہیئے، علامہ ساجد نقوی

بہت سے دانشور اور مبصرین دورہ روس کے حوالے سے لکھ رہے ہیں کہ پاکستان نئے بلاک میں جا رہا ہے۔ لیکن کیسے؟؟ ایک قیدی جس کے پاوں میں بیڑیاں ہوں، وہ قرضوں کی بلند و بالا دیواریں کیسے پھلانگ کر باہر نکل سکتا ہے؟؟ ایک طرف ڈالر ہے، تو دوسری جانب ریال اور اہم ڈالر اور ریال کے چکر میں ایسے پھنسے ہوئے ہیں کہ اس بھنور سے نکلنا آسان نہیں۔ مبصرین پُرامید ہیں کہ اس چکر سے نکلنے کیلئے خوددار قیادت کی ضرورت ہے اور عمران خان ایک خودار شخصیت کے مالک ہیں۔ وہ امریکہ کو بھی ٹھینگا دکھانے کی جرات رکھتے ہیں۔ خدا کرے، ہمارے ان مبصرین کی یہ رائے درست ہو کہ عمران خان سٹینڈ لینے کی قوت رکھتے ہیں۔ اب اگر روس گئے ہیں تو یقیناً انہوں نے جرات مندی کا مظاہرہ کیا ہے۔ شاہ محمود قریشی کی گفتگو اور باڈی لینگوئج بھی بتا رہی ہے کہ ہم واقعی اب تبدیلی چاہ رہے ہیں۔

ماضی میں بھارت کے باعث روسی کیمپ میں پاکستان کو خاطر خواہ جگہ نہیں ملی، اب جبکہ بھارت مغربی بلاک کا حصہ بن گیا ہے اور روس کیساتھ اس کے تعلقات پہلے جیسے نہیں رہے تو پاکستان نے اس خلا سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنی جگہ بنا لی ہے۔ لیکن وہ خدشہ اب بھی موجود ہے کہ ہم ڈالر و ریال کی قید میں رہ کر کیسے آزادانہ فیصلے کرسکتے ہیں؟ عمران خان کے بارے میں بہت سے مبصرین کہتے ہیں کہ وہ بولڈ فیصلے لینے کی صلاحیت رکھتے ہیں، خدا کرے کہ عمران خان پاکستان کی تقدیر بدلنے میں کردار ادا کرسکیں۔ وزیراعظم عمران خان اگر پاکستان کو امریکی قید سے نکالنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو یہ پاکستان کے عوام کیلئے موجودہ مہنگائی سے بڑا ریلیف ہوگا۔

متعلقہ مضامین

Back to top button