ایران

تہران کی جنرل قاسم سلیمانی کے قتل پر مشترکہ تحقیقاتی کمیٹی کے مذاکرات کی میزبانی

شیعیت نیوز: ایرانی عدلیہ کے ڈپٹی سیکرٹری برائے بین الاقوامی امور اور کونسل برائے انسانی حقوق کے سربراہ نے کہا ہے کہ جنرل شہید سلیمانی اور ان کے ساتھیوں پر دہشت گردانہ حملے کی تحقیقات سے متعلق ایران عراق مشترکہ تحقیقاتی کمیٹی کے درمیان مذاکرات کا دوسرا دور، رواں ہفتے کے دوران منگل اور بدھ کو تہران میں انعقاد کیا جائے گا۔

کاظم غریب آبادی نے مزید کہا کہ مشترکہ تحقیقاتی کمیٹی کے دو روزہ اجلاس میں دونوں ممالک کے اعلی سطحی عدالتی وفود، شہید جنرل سلیمانی اور ان کے ساتھیوں کے قتل کے معاملے میں دونوں ممالک میں ہونے والی تحقیقات کے تازہ ترین نتائج، امریکی مدعا علیہان کے کردار سمیت دیگر امور کا جائزہ لیں گے۔

یہ بات قابل ذکر ہے کہ جنرل سلیمانی اور ابومہدی المہندس اور ان کے ساتھیوں کو 8 جنوری 2020ء کو امریکی دہشت گردانہ حملے میں بغداد ائیرپورٹ میں شہید کیا گیا۔

واضح رہے کہ سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے دہشت گردی کی اس کارروائی کا براہ راست حکم جاری کیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں : ایران کے جوہری اور فوجی تنصیبات کے خلاف کسی بھی مہم جوئی کا منہ توڑ جواب دیا جائے گا

دوسری جانب ایرانی عدلیہ کے انسانی حقوق کے ہیڈ کوارٹر کے سکریٹری نے فرانس کی حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ اپنے مسلم مخالف قوانین پر نظرثانی کرے۔

یہ بات کاظم غریب آبادی نے اپنے ٹوئٹر پیج میں فرانس کے انسداد انتہا پسندی اور علیحدگی پسند قوانین جن کے حالیہ نفاذ کے نتیجے میں 21 مساجد کو بند کر دیا گیا ہے اور چھ مزید بند کرنے کا منصوبہ ہے پر اپنے ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے کہی۔

انہوں نے کہا کہ مغربی نقطہ نظر میں دہشت گرد جو ایران میں جرائم کر رہے ہیں وہ آزادی پسند ہیں، لیکن مغرب میں مذہبی آزادی دہشت گردی کے برابر ہے۔

غریب آبادی نے کہا کہ ہم فرانسیسی حکومت سے مطالبہ کرتے ہیں کہ اپنے ان قوانین پر نظر ثانی کرے جو اسلام مخالف ہیں اور اس ملک کی 5.5 ملین مسلم اقلیت کے تعلیمی، نمازی مراکز اور دیگر عوامی مقامات کو نشانہ بناتے ہیں۔

یاد رہے کہ گزشتہ ہفتے فرانس کے وزیر داخلہ جیرالڈ درمنن نے اس ملک کے بی ایف ایم ٹی ٹیلی ویژن نیٹ ورک کو انٹرویو دیتے ہوئے اسلامو فوبیا ریمارکس میں کہا تھا کہ انتہا پسندانہ رجحانات کی حامل 99 مساجد میں سے 21 کو بند کر دیا گیا ہے اور چھ مزید مساجد کا معائنہ جاری ہے۔

ذرائع نے مزید کہا کہ جن مساجد نے حکومتی احکامات کو قبول کیا، ان مساجد کی فہرست سے نکال دیا گیا جن کا شبہ انتہا پسندی ہے۔

یہ پہلی بار نہیں ہے کہ فرانسیسی حکومت فرانسیسی مسلمانوں کے خلاف مخالفانہ اقدام کر رہی ہے اور ان کی مساجد کو بند کر رہی ہے۔

یہ پہلا موقع نہیں جب فرانسیسی حکومت نے اسلام کے خلاف اقدامات کیے، مسلمانوں کے معاملات میں مداخلت کی اور مساجد کو بند کر دیا۔

فرانسیسی حکومت کی طرف سے اسلامی مذاہب اور مساجد کے معاملات میں مداخلت کا بہانہ انتہا پسندی ہے۔

متعلقہ مضامین

Back to top button