مشرق وسطی

یمن میں ویسا ہی کرو جیسا ہم نے افغانستان میں کیا ہے، عرب تجزیہ نگار

شیعیت نیوز: عرب اخبار البناء کے چیف ایڈیٹر اور معروف عرب تجزیہ نگار نے اعلان کیا ہے کہ امریکہ کی جانب سے عملی طور پر سعودی عرب کو یہی نصیحت کی جا رہی ہے کہ تم بھی یمن میں وہی کرو جو ہم نے افغانستان میں کیا ہے۔

عرب تجزیہ نگار ناصر قندیل نے اپنے تازہ ادایئے میں لکھا ہے کہ امریکہ کی جانب سے اختیار کئے گئے متعدد حالیہ موقف یہ ظاہر کرتے ہیں کہ وہ سعودی عرب کو بھی افغانستان میں اختیار کی گئی اپنی پالیسی جیسی پالیسی اختیار کرنے کا مشورہ دیتے ہوئے نصیحت کر رہا ہے کہ سعودی عرب بھی ویسے ہی یمن سے نکل جائے جیسا کہ وہ خود افغانستان سے نکل گیا ہے۔

ناصر قندیل نے لکھا کہ سعودی عرب کو امریکی نصیحت کا مفہوم یہ ہے کہ وہی کام جو ہم نے افغانستان میں انجام دیا ہے؛ تم یمن میں انجام دو کیونکہ نہ تو تم ہم سے زیادہ طاقتور ہو اور نہ ہی وہ (انصاراللہ) طالبان سے زیادہ کمزور!

اس اداریئے میں امریکی تھنک ٹینکس کی حالیہ تحقیق کے بارے اشارہ کرتے ہوئے لکھا گیا ہے کہ متعدد امریکی تھنک ٹینکس نے وہاں (یمن میں) رونما ہونے والی اُن حالیہ تبدیلیوں کے تناظر میں کہ جنہیں مزید چھپانا اب ممکن نہیں؛ یمن کی حقیقی صورتحال کو جانچنے کے لئے اپنے محققین بٹھا رکھے ہیں جن کی تازہ رپورٹیں یک زبان ہو کر کہہ رہی ہیں کہ جلد یا بدیر، شہر مأرب انصاراللہ فورسز کی جھولی میں جا گرے گا۔

یہ بھی پڑھیں : محمد بن سلمان کی رہائش گاہ پر یمنی فوج کی مشترکہ فضائی کارروائی

عرب تجزیہ نگار کا لکھنا ہے کہ مشرق وسطیٰ کے لئے امریکہ کے سابق سیکرٹری وزیر خارجہ ڈیوڈ شنکر نے بھی ان تھنک ٹینکس میں سے ایک کے ساتھ خطاب میں اعتراف کیا ہے کہ مآرب پر انصاراللہ فورسز کا کنٹرول حتمی ہے جبکہ امریکی ڈپٹی وزیر خارجہ نے مأرب پر امریکی کنٹرول کو واشنگٹن و ریاض کے لئے ایک ’’بدترین منظر‘‘ قرار دیتے ہوئے یہ بھی کہا ہے کہ یمنی جنگ میں شکست "ایک عظیم نقصان” ہے۔

عرب تجزیہ نگار کے مطابق مآرب کی نئی صورتحال کے بارے محققین کے درمیان وجود میں آنے والا اتفاق رائے؛ امریکیوں، سعودیوں اور یمنیوں سب پر اپنا اثر چھوڑے گا جبکہ مأرب کی اس صورتحال سے ایک دوسری علامت بھی ظاہر ہوتی ہے اور وہ انصاراللہ یمن کے خلاف (سعودی عرب کے) بنائے گئے ’’فوجی اتحاد‘‘ کے ٹوٹنے سے متعلق ہے درحالیکہ وہ کچھ جو صوبہ الحدیدہ میں رونما ہوا ہے؛ ایک ایسا حادثہ ہے جو نہ صرف سعودی فوجی اتحاد کا شیرازہ بکھر جانے کا منہ بولتا ثبوت ہے بلکہ مآرب پر بغیر کسی پشت پناہی کے قابض سعودی فورسز کے درمیان ناہمآہنگی اور ان کے ڈر و خوف کا نتیجہ بھی ہے۔

ناصر قندیل نے لکھا کہ بہرحال یہ نتائج یونہی نمودار ہوتے رہیں گے خصوصا جب یمنی پیشقدمی کے باعث اماراتیوں و سعودیوں کے درمیان وجود میں آتے فرق بھی واضح ہونا شروع ہو جائیں گے؛ جو یمن کے جنوبی حصے سمیت خطے کی تازہ تبدیلیوں کے دوران بآسانی دیکھے جا سکتے ہیں جبکہ ان میں سے ایک متحدہ عرب امارات کی جانب سے ایران کے ساتھ اعلی سطحی ٹیلیفونک رابطے کی بحالی اور مستقبل قریب میں اعلی اماراتی سفارت کار کا ممکنہ دورۂ ایران ہے۔

اس اداریئے میں لکھا گیا ہے کہ متحدہ عرب امارات نے اب تک سعودی عرب کے برخلاف، یمنی شہری آبادیوں اور انصاراللہ کی کشتیوں کو براہ راست نشانہ بنانے سے گریز کیا ہے جبکہ یہی بات (ایران کے ساتھ امارات کی ممکنہ) ’’بیک ڈور پالیسی‘‘ کے شک کے باعث سعودی عرب کے لئے سوء ظن کا سبب بھی بنی ہے۔

عرب تجزیہ نگار کا لکھنا ہے کہ اکثر امریکی تجزیہ نگار و محققین موجودہ یمنی موجودہ صورتحال کا، امریکی انخلاء کے دوران افغان صورتحال کے ساتھ تقابل کرتے اور کہتے ہیں کہ (مستعفی یمنی صدر) عبدربہ منصور ہادی فورسز کی صورتحال اشرف غنی فورسز سے زیادہ بہتر ہے اور نہ ہی انصاراللہ یمن کا عزم، مزاحمت اور طاقت طالبان سے کمتر جبکہ افغانستان کا سرحدی محاصرہ یمن کے محاصرے سے کم نہ تھا درحالیکہ امریکیوں کے درمیان مکمل عقب نشینی کے حالات کے بارے اختلاف موجود ہے تاہم ان سب کا موقف یہی ہے کہ یہ ایک تلخ لیکن ناقابل گریز فیصلہ تھا کیونکہ موجودہ مایوسانہ صورتحال میں 20 سال مزید بھی باقی رہنے سے منظر تبدیل ہونے والا نہ تھا سوائے اس کے کہ اس دوران مزید اخراجات کئے جاتے اور مزید انسانوں کی جانیں لی جاتیں۔

یہ بھی پڑھیں : بھارتی فورسز کی ریاستی دہشت گردی، مزید پانچ کشمیری نوجوان شہید، وادی میں ہڑتال

لبنانی تجزیہ نگار کے مطابق بعض محققین کا کہنا ہے کہ شاید لبنانی وزیر اطلاعات ’’جارج قرداحی‘‘ وہ آخری شخص ہو گا جس نے یمنی جنگ کو ’’ہار یا جیت کے بغیر قرار‘‘ دیا اور اس کے لئے ایک بیہودہ جنگ کا عنوان استعمال کیا کیونکہ آج یہ جنگ ’’ضمانت شدہ خسارے کی جنگ‘‘ میں بدل چکی ہے جبکہ اب سعودیوں کے پاس عقب نشینی کا فیصلہ کرنے کی فرصت بھی باقی نہیں بچی اور درحقیقت اس جنگ نے ایک عظیم تزویراتی تبدیلی پیدا کی ہے۔

ناصر قندیل نے اپنے اداریئے کے دوسرے حصے میں لکھا کہ اس تمام صورتحال میں سعودی میڈیا سرے سے غائب ہے تاہم اس دوران العربیہ الحدث نامی سعودی چینل نے غلطی سے، بحیرۂ احمر میں اُس دوسرے افغانستان کے ظہور میں آنے کے بارے واشنگٹن پوچھ لیا تھا جس کے اختیار میں آبنائے باب المندب بھی ہے! جبکہ افغانستان و یمن کا تزویراتی تقابل؛ ایک ایسی صورت میں اس سوال کے جواب میں شامل ہو گا کہ جب یمن اپنی روز افزوں طاقت کے ہمراہ عالمی توانائی و کشتیرانی کی سکیورٹی میں شامل ہو گا درحالیکہ ’’باب المندب‘‘ نہ صرف آبنائے ہرمز اور جبل الطارق سے زیادہ اہم ہے بلکہ دنیا کی وہ اہم ترین آبناء ہے جو بحیرۂ احمر، بحر الکاہل، خلیج فارس اور بحر اوقیانوس کو باہم ملاتی ہے۔

عرب تجزیہ نگار نے لکھا کہ "سعودی” ایسے سوالات بناتے ہیں کہ جن کے ذریعے "اسرائیلی”؛ یمن میں شکست تسلیم کرنے کے باعث، اُس انصاراللہ یمن کے مقابلے میں وجود میں آنے والے تزویراتی دفاعی عدم توازن کو سمجھ سکیں جس کے رہبر (سید عبدالملک بدر الدین الحوثی) متحدہ اسلامی مزاحمتی محاذ کے ساتھ اپنی ہمآہنگی کو کسی طور نہیں چھپاتے!

ناصر قندیل نے اپنے ادایئے کے آخر میں یہ سوال اٹھاتے ہوئے کہ (یمنی فتح الفتوح کے بعد) درحقیقت امریکی و اسرائیلی کیا کریں گے اور سعودی کیسا ردعمل ظاہر کریں گے؟

عرب تجزیہ نگار نے لکھا کہ انصاراللہ یمن کا کہنا ہے کہ وہ ہر قسم کی صورتحال کے لئے تیار ہے جبکہ کامیابی کے علاوہ کوئی دوسرا رستہ موجود نہیں درحالیکہ دوسری جانب سے پورے کے پورے خطے کو آگ میں نہ جھونکنے کا واحد رستہ بھی یمن کی مکمل فتح کو قبول کر لینا ہی ہے، تاہم یہ ایک ایسی فتح ہو گی جو یمن کے جلنے سے حاصل ہوئی ہے تاہم یمنی حدود میں ہرگز باقی نہ رہے گی!

متعلقہ مضامین

Back to top button