سعودی عرب

سعودی عرب .سفارتی تعلقات منقطع، کرنسی کی گراوٹ

صحافی کے مبینہ قتل کے بارے میں سعودی حکومت پر دباو میں مسلسل اضافہ ہوتا جارہا ہے لیکن اب سعودی عرب بھی اس دباو کو کم کرنے کی کوشش میں دیکھائی دیتا ہے
سعودی عرب میں ہونے والی سرمایہ کاری کی کانفرنس بے یقینی کی صورتحال سے دوچار ہے کہ جہاں بہت سی اہم کمپنیوں نے بائیکاٹ کا اعلان کردیا ہے ۔
ادھر سعودی کرنسی میں گراوٹ دیکھائی دے رہی ہے اور عالمی سطح پر سعودی جاری کردہ بانڈز کی قیمت بھی کم ہوئی ہےجبکہ اسٹاک مارکیٹ بھی 7پوائنٹ سے زیادہ گرچکی ہے ۔
البتہ سعودی عرب اس قسم کی صورتحال کا پہلی با رسامنا نہیں کررہا بادشاہ سلمان اور بیٹا ولی عہد محمدبن سلمان کے اقتدار میں آنے کے بعد سے اس انتہائی قدامت پسند مسلم ملک کے کئی دوسرے ممالک کے ساتھ مسائل چلے آرہے ہیں ۔
مارچ سن 2015 میں سویڈن کی وزیر داخلہ نے سعودی عرب میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر تنقید کی اور سعودی پالیسیوں کو ’قرون وسطیٰ دور کے ہتھکنڈے‘ کہا جس کے بعد سعودی عرب نے سٹاک ہوم سے اپنا سفیر واپس بلا لیا تھا۔
سن 2016 میں مصر اور سعودی عرب کے تعلقات اقوام متحدہ میں ایک روسی قرار داد کی وجہ سے کشیدہ ہو گئے پھر بحیرہ احمر میں مصری جزیرے تیران اور صنافیر سعودی عرب دیے جانے پر مصر میں مظاہرے شروع ہو گئےجس کے ردعمل میں سعودی عرب نے مصر کو تیل کی مصنوعات کی فراہمی روک دی۔
شہزادہ محمد بن سلمان کے ایک بیان ’سعودی عرب کا مقابلہ ایران، ترکی اور دہشت گرد گروہوں‘ سے ہےنے ترکی اور سعودی عرب میں دراڑ ایجاد کردی جو پہلے سے ہی ترکی میں گولن بغاوت کے پچھے سعودی و اماراتی ہاتھ ہونے پر اپنا شک ظاہر کرچکا تھا ۔
سعودی حکومت کی جانب سے سعودی شیعہ رہنما آیت اللہ نمر باقر النمر کو سزائے موت دیے جانے کے بعد تہران میں مظاہرین کی جانب سے سعودی سفارت خانےپر آگ لگانے کے بعد تہران حکومت نے سفارت خانے پر حملہ کرنے اور کچھ حصوں میں آگ لگانے والے پچاس سے زائد افراد کو گرفتار بھی کر لیا۔ تاہم سعودی عرب نے ایران کے ساتھ سفارتی تعلقات منقطع کر دیےجو ابھی تک مقطع ہی ہیں ۔
سعودی عرب اور لبنان کے مابین سفارتی تنازعہ اس وقت شروع ہوا جب لبنانی وزیر اعظم سعد الحریری نے دورہ ریاض کے دوران اچانک استعفیٰ دینے کا اعلان کر دیا۔ سعودی عرب نے مبینہ طور پر الحریری کو حراست میں بھی لے لیا تھا۔ فرانس اور عالمی برادری کی مداخلت کے بعد سعد الحریری وطن واپس چلے گئے اور بعد ازاں مستعفی ہونے کا فیصلہ بھی واپس لے لیا۔
گزشتہ برس قطری تنازعے کا آغاز اس وقت ہوا جب سعودی اور اماراتی چینلوں نے قطر پر دہشت گردوں کی معاونت کرنے اور اخوان المسلمون کی حمایت کا الزام عائدکرتے ہوئے قطر کے ساتھ سفارتی تعلقات منقطع کرنے کے علاوہ اس کی ناکہ بندی بھی کر دی جو اب تک جاری ہے ۔
جرمنی کے ساتھ سعودی سفارتی تعلقات بھی اب تک بحال نہیں ہوئے
نومبر سن 2017 میں سعودی عرب نے اس وقت کے جرمن وزیر خارجہ زیگمار گابریئل کی جانب سے یمن اور لبنان میں سعودی پالیسیوں پر کی گئی تنقید کے جواب میں برلن سے اپنا سفیر واپس بلا لیا۔
شہزادہ محمد بن سلمان کے دور میں تازہ ترین سفارتی تنازعہ کینیڈا کے ساتھ جاری ہے۔ اس سفارتی تنازعے کی وجہ کینیڈا کی جانب سے سعودی عرب میں انسانی حقوق کے کارکنوں کی رہائی کے لیے کی گئی ایک ٹویٹ بنی۔ سعودی عرب نے اس بیان کو ملکی داخلی معاملات میں مداخلت قرار دیتے ہوئے کینیڈا کے ساتھ سفارتی اور اقتصادی روابط ختم کر دیے۔
اور اب خود اپنے ہی قونصل خانے سے اپنے ملک کے شہری اور مشہور صحافی کی گمشدگی کا معاملہ سامنا آیا ہے تو نہ جانے سعودی عرب کن کن سے سفارتی تعلقات ختم کرنے جارہا ہے
لیکن لگتاہے کہ اس بار سعودی عرب ختم شدہ تعلقات کی بحالی کی جانب متوجہ ہورہا ہے کہ جس کی اس وقت اسے انتہائی ضرورت ہے ۔

متعلقہ مضامین

Back to top button