سعودی عرب

محمد بن سلمان کے قاتلانہ حملے میں شدید زخمی ہونے کی اب عالمی میڈیا بھی تائید کر رہی ہے

سعودی ولیعہد بن سلمان چند ہفتوں سے منظر عام پر نہیں تھے جس کی وجہ سے عوام میں ان کے حوالے سے چہ مگوئیوں کا سلسلہ جاری تھا۔ اسلامک ریوائیول پارٹی کے سیکرٹری جنرل محمد الماساری نے المیادین ٹی وی چینل سے گفتگو کے دوران کہا کہ محمد بن سلمان پر حملہ اپریل کے مہینے میں کیا گیا تھا اور ان کے زخمی ہونے کی خبر بھی شاہی خاندان کے ایک فرد کے ذریعے ہی سوشل میڈیا تک پہنچی تھی۔

ریاض میں گولہ باری کی کوریج پر موجود ایک صحافی کا کہنا تھا کہ 21 اپریل کو شاہی محل کے باہر گولہ باری کی گئی تھی جس کے بعد سعودی عرب کی سرکاری نیوز ایجنسی کی جانب سے بیان جاری کیا گیا کہ یہ فائرنگ ایک کھلونا ڈرون کو تباہ کرنے کیلئے کی گئی تھی جو شاہی محل کی حدود میں گھس آیا تھا لیکن اس خبر میں صداقت نہیں تھی اس لئے کہ اس واقعے کے بعد سعودی شہزادہ سلمان محل کے قریب ہی زخمی حالت میں ایک بینکر میں پناہ لینے پر مجبور ہوگئے تھے جو ان کی حفاظت کے لئے فوج کی جانب سے پہلے ہی قائم کر لیا گیا تھا ۔

واضح رہے کہ سعودی ولیعہد محمد بن سلمان گذشتہ اکیس اپریل سے جب ریاض میں شاہی محل کے قریب الخزامی محلے میں فائرنگ کا واقعہ پیش آیا تھا منظرعام پر نہیں آئےہیں اور انہیں کسی بھی پبلک مقام یا میڈیا کے سامنے نہیں دیکھا گیا ہے اور نہ ہی کسی کو یہ خبر ہے کہ وہ کہاں اور کس حال میں ہیں – یہاں تک کہ امریکا کے نئے وزیرخارجہ مائیک پمپیئو کے حالیہ دورہ ریاض میں بھی وہ میڈیا کے سامنے نہیں آئے ۔

اکیس اپریل کو ریاض میں شاہی محل کے قریب ہونے والی فائرنگ کے واقعے کے فورا بعد کچھ ذرائع ابلاغ نے یہ خبردی تھی کہ متعدد سعودی شہزادوں نے بغاوت کردی ہے اور وہ بن سلمان کو قتل کرنا چاہتے تھے –

اس درمیان آل سعود خاندان کے اندر کی معلومات اور خفیہ رازوں کو فاش کرنے والے سوشل میڈیا پر انتہائی سرگرم سعودی عرب کے سماجی اور سیاسی کارکن مجتہد نے ریاض میں فائرنگ کے واقعےکے بارے میں سعودی حکومت کی ان باتوں کو کہ ایک ٹوائے ڈرون شاہی محل کے احاطے کی فضا میں داخل ہوگیا تھا اور اس کو مار گرانے کے لئے فائرنگ کی گئی تھی مسترد کرتے ہوئے باخبر ذرائع کے حوالے سے لکھا ہے کہ اس حملے اور فائرنگ کا اصل نشانہ محمد بن سلمان تھے اور اس لڑائی میں دونوں طرف سے سات افراد ہلاک ہوئے ہیں۔

متعلقہ مضامین

Back to top button