مقالہ جات

غوطہ کےغوغا میں خاموشی ۔۔کیا کسی طوفان کا پیش خیمہ ہے ؟

جوں جوں شام کے دارالحکومت دمشق کے مضافاتی انتہائی اہمیت کے حامل علاقے میں دہشتگردوں کیخلاف آپریشن مکمل ہوتا جارہا ہے کچھ عالمی قوتوں کی بے چینی میں اضافہ دیکھائی دیتا ہے ۔
خطے میں موجود بہت سے ممالک کا بڑا مسئلہ یہ ہے کہ وہ سمجھتے آئے ہیں اور اب بھی ان کا خیال ہے کہ امریکہ جیسی طاقت کے ہاتھ میں سب کچھ ہے اور وہ کن فیکون کا مالک ہے ،جب جہاں جو چاہے کرسکتا ہے ،بس امریکہ جیسی اس قوت کی حمایت حاصل ہو اور سہارا ملے تو گویا سب مرادیں پوری ہونگی اور زمین پر ان کی مرضی کے مطابق بدلاو آئے گا ۔
یہ ہماری آج کی تاریخ کا انتہائی کڑوا سچ ہے کہ بہت سے ممالک کے سربراہ تو یقین رکھتے تھے اور اب کم و بیش رکھتے ہیں لیکن اب بہت سی اقوام بھی ایسا سوچنے لگی ہیں کہ کامیابی کا زینہ وائٹ ہاوس سے گذرتا ہے کہ جس کی قبضے میں دنیا کی بھاگ ڈور ہے ۔
وہ سمجھتے ہیں کہ اگر کامیابی کے اس زینہ تک بہتر انداز سے رسائی کرنی ہے تو انہیں صیہونی اسرائیلی زریعے کا استعمال کرنا ہوگا یا کم ازکم صیہونی لابیز سے رجوع کرنا ہوگا ۔
اوباما دور میں مشرق وسطی میں بہت سوں کی فریاد یہ تھی کہ’’ امریکہ نے ہمیں چھوڑدیا ‘‘امریکہ نے ہماری سرپرستی چھوڑ دی ‘‘وغیرہ ۔
اسی لئے ٹرمپ کے اقتدار میں آتے ہیں انہوں نے جی حضوری کے ساتھ اربوں ڈالر بمع اسرائیلی خشنودی ادا کئے تاکہ ان کی سب مرادیں پوری ہوں۔
عراق سے لیکر شام تک اور قطر سے لیکر یمن تک یک بعد دیگر تمام ایشو امریکی کنٹرول سے نکلتے جارہے ہیں ۔
شام میں متعدد بار امریکیوں نے ظاہر کیا کہ وہ بس اب یہ کرنے والے ہیں اب وہ کرنے جارہے ہیں ان کے بیانات اور سیکوریٹی کونسل کے ہنگامہ خیز ہنگامی اجلاس ہربار مشرق وسطی کے ان احمقوں کو یہ امید دلاتے رہے کہ اب بس منزل ملنے والی ہے اور اب وہ ہونے جارہا ہے جس کا انہیں انتظارہے ۔
ان قوتوں کو اس وقت ہی سمجھ لینا چاہیے تھا کہ امریکہ مہنگے داموں اسلحہ تو فروخت کرسکتا ہے لیکن ان کے لئے لڑنے کا دم اس میں بھی نہیں وہ کبھی بھی مشرق وسطی کی آگ کا ایندھن خودکو نہیں بناسکتا بلکہ اس کے لئے جذباتی نعروں میں بیوقوف بنے والوں کی عالم اسلام میں کمی نہیں ہے جو جہاد اور امارت اسلامیہ کے خوبصورت عناوین میں آرام سے ڈھل کر خود اپنوں میں پھٹتے بالکل بھی جھجک محسوس نہیں کرینگے ۔
غوطہ شرقیہ اب امریکہ کے ہاتھ سے نکل چکا ہے یہی وجہ ہے کہ اب ان کی دلچسبی کم ہوتی جارہی ہے امریکی کم ہوتی دلچسپی کی جگہ برطانیہ اور فرانس جیسے ممالک شائد لینے کی کوشش میں ہیں تاکہ کچھ غوغا یعنی شور شرابے سے بچے کچے مفادات حاصل کرسکیں اسلحے کے معاہدوں کی شکل میں یا پھر پروٹیکشن فنڈ و بھتے کی شکل میں ۔
غوطہ شرقیہ سے جنوب و شمال کی جانب
غوطہ شرقیہ ہاتھ سے نکل چکا ہے اور اب امریکی توجہ شام کے جنوبی حصے کی جانب ہوچکی ہے ،امریکہ نے ایک بار پھراپنے اتحادیوں کو اردن میں اجلاس کی کال دی ہے کہ جنوبی شام کے بارے میں بات چیت کی جائے ۔
بے یقینی کے شکار ہوتے اتحادیوں کو یقین دلانے کی کوشش کرتے ہوئے امریکہ نے یہ بھی کہا ہے کہ دمشق کو سزا دینے (بمباری)کے بارے میں بھی بات چیت ہوگی جبکہ روس نے پھر سے خبردار کیا ہے کہ دمشق پر جارحیت کا جواب دیا جائے گا ۔
امریکہ اور اس کے اتحاد ی شام کی تقسیم چاہتے تھے کہ جس کے مطابق
جنوبی مغربی ،مغربی شمال،اور شمالی شام وہ ممکنہ تین ملک یا آزاد ریاستیں ہوتیں جس کا وہ خواب دیکھ رہے تھےلیکن یہ خواب ایک بھیانک خواب بن کر رہ گیا ۔
بہت سے تجزیہ کاراں کا خیال ہے کہ شام کی صورتحال اب امریکی پراکسی وار سے نکل کر براہ راست تصادم کی جانب جارہی ہے اور ہر گذرتا لمحہ اس تصادم کو قریب کئے جارہا ہے ۔
شائد ان تجزیہ کاروں کی توجہ غوطہ شرقیہ میں کیمکل گیسوں کے استعمال کا وہ باربار دہرایا جانے والا الزام ہے جو گذشتہ سات سالوں میں درجنوں بار دہرایا جاچکا ہے ۔
ہوسکتا کہ امریکہ اور اس کے اتحادی سیکوریٹی کونسل کے ایک ہنگامی اجلاس میں پھر اس ایشو کو لیکر شور مچائیں اور پھر یکطرفہ کاروائی کی جانب بڑھنے کی ہمت کریں ۔
تازہ بدلتی صورتحال اور امریکی بے بسی ۔
ہوسکتا ہے کہ ماضی کی طرح کسی ایک ہدف کو شام کے اندر کروز یا ٹام ہاک میزائلوں سے نشانہ بنائیں اور کہانی یہاں پر ختم ہوجائے ۔
بعض کا خیال ہے کہ ہوسکتا ہے کہ اس باروہ شام میں درجنوں سے زیادہ اہداف پر میزائل داغیں
لیکن روس پہلے ہی ایسے کسی اقدام کے بارے میں خبردار کرچکا ہے کہ سخت اور بڑے پیمانے پر روسی ردعمل کا سامنا کرنا ہوگا ۔
امریکہ اور اس کے اتحادی بری طرح پھنس چکے ہیں وہ نہ تو مشرق وسطی کو ہاتھ سے جاتے دیکھ سکتے ہیں اور نہ ہی ان کے ہاتھ میں کچھ آرہا ہے ،ایسے میں یقینا انہیں کچھ تو ایسا کرنا ہی پڑے گا کہ کم ازکم اپنی بالادستی کو قائم نہ رکھ سکیں تو دوسروں کے ہاتھوں بھی جانے نہ دیں ۔
امریکہ کبھی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ اس کی تاریخ میں ایسا دن بھی آسکتا ہے کہ اسے اس قدر بے بسی اور مجبوری کا سامنا کرنا پڑے گا جیسا اسے اس وقت مشرق وسطی خاص کر شام میں کرنا پڑرہا ہے
لیکن امریکہ کے کن فیکن پر اب بھی بہت سوں کا یقین غیر متزلزل ہے شائد ان کا یقین اس وقت بدل جائے گا کہ جب سب کچھ ڈوب چکا ہوگا ۔

متعلقہ مضامین

Back to top button