مقالہ جات

امریکی، سعودی اتحاد کا ’’یادگار تحفہ‘‘ برائے پاکستان

سعودی حکمرانوں کو پاکستان کا دوست، اتحادی و شراکت دار کہنے والے حکمران طبقے اور دیگر سعودی نواز حلقوں نے ایک اہم ترین مسئلے پر چپ سادھ رکھی ہے۔ پچھلے مہینے کے آخری عشرے میں فرانسیسی دارالحکومت پیرس میں بین الاقوامی اور بین الحکومتی ادارے فائنانشل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) کے اجلاس میں امریکہ و برطانیہ نے فرانس و جرمنی و دیگر ہم خیال ممالک کی تائید سے پاکستان کے خلاف ایک قرارداد پیش کی، جہاں سعودی عرب نے امریکہ کے کہنے پر پاکستان کے خلاف ووٹ دیا، جس کی وجہ سے فیصلہ صادر کر دیا گیا کہ پاکستان کو اس ادارے کی جانب سے ایسے ممالک میں شمار کیا جائے گا کہ جہاں دہشت گرد گروہوں اور شخصیات کو مالیاتی آزادی ہے۔ اصطلاحاً ایسے ممالک کا نام جس فہرست میں ڈالا جاتا ہے اسے "ٹیرر واچ لسٹ‘‘ کہا جاتا ہے۔ باوجود اس کے کہ یہ فہرست پاکستان کی حکومت و ریاست کو مجرم قرار نہیں دیتی، لیکن ساتھ ہی یہ ریاست و حکومت کو بری الذمہ بھی قرار نہیں دیتی۔ یعنی نہ سفید نہ سیاہ بلکہ سرمئی رنگ۔ اسی لئے اس فہرست کو انگریزی میں گرے لسٹ کہا جاتا ہے۔ ایف اے ٹی ایف سینتیس اراکین پر مشتمل ادارہ ہے، جو 1989ء میں قائم کیا گیا تھا۔ اس کا کام بین الاقوامی مالیاتی نظام کی ساکھ کو محفوظ رکھنا اور اسے خطرات سے بچانا ہے اور اس کی تمام تر توجہ کا مرکز یہ ہے کہ پیسوں کی غیر قانونی ترسیل (منی لانڈرنگ) سمیت دہشت گرد اس عالمی مالیاتی نظام سے کسی بھی قسم کا کوئی فیض حاصل نہ کرسکیں اور اسی نوعیت کے دیگر کام یعنی اس مالیاتی نظام کے ذریعے بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے اسلحہ کا کاروبار نہ ہوسکے، مافیاز اور اسمگلرز کے خلاف کارروائی وغیرہ۔ اس ہدف کے حصول کے لئے یہ ادارہ ضروری قانون سازی اور عملی اقدامات کی تاکید کرتا ہے اور یہ جائزہ لیتا رہتا ہے کہ اس پر عمل ہو رہا ہے یا نہیں۔

پاکستان ماضی میں دو مرتبہ اس ادارے کی اس فہرست میں شامل رکھا گیا ہے۔ ایک اور مرتبہ دہرا دوں کہ پاکستان کو جس فہرست میں اسی سال جون میں شامل کیا جائے گا، یہ ایسی فہرست ہے جو سیاہ و سفید کے درمیان تصور کئے جاتے ہیں یا آسان الفاظ میں مشکوک ممالک کی فہرست۔ یعنی مجرم (سیاہ) بھی نہیں تو کلیئر (سفید) بھی نہیں بلکہ ان دونوں کے درمیان یعنی گرے رنگ۔ امریکہ کی نظر میں بھارت کی اہمیت زیادہ ہے، اس لئے امریکہ نے یہ قرارداد بھارت کو خوش کرنے کے لئے پیش کی تھی اور برطانیہ، فرانس و جرمنی کی نظر میں امریکہ کی حیثیت زیادہ ہے، اس لئے انہوں نے بھی امریکی قرارداد کا ساتھ دیا۔ بھارت کا الزام ہے کہ پاکستان میں دہشت گرد اور ان کی تنظیمیں آزادانہ کام کر رہے ہیں اور مالیاتی نظام کو بھی بلا روک ٹوک استعمال کر رہے ہیں، یعنی بینک اکاؤنٹس، اثاثے، دیگر ممالک سے چندے یا خیرات کے نام پر رقوم کی ترسیل وغیرہ وغیرہ، لیکن بھارتی سرکار کی تمام تر توجہ کا مرکز حافظ سعید اور انکی تنظیم ہے یا پھر مسعود اظہر اور کالعدم جیش محمد۔ اس مرتبہ بھی بھارت نے امریکہ اور برطانیہ کے کاندھے پر بندوق رکھ کر پاکستان کو نشانے پر لیا ہے۔ پاکستان کی سابق سفیر برائے امریکہ شیری رحمان کے مطابق پاکستان کے خلاف نومبر 2017ء سے ہی یہ قدم اٹھانے کے لئے کارروائی کا آغاز کر دیا گیا تھا، لیکن پاکستانی حکومت نے بروقت مطلوبہ اقدامات نہیں کئے، ورنہ اس صورتحال سے بچا جاسکتا تھا۔ پاکستان نے بالکل آخر میں جلدی جلدی اقدامات کئے، جیسا کہ صدر مملکت نے ایک آرڈیننس جاری کرکے انسداد دہشت گردی ایکٹ میں ترمیم کر دی۔ جماعت الدعوہ اور اس سے منسلک ذیلی تنظیموں اور اداوں خاص طور پر فلاح انسانیت پر کریک ڈاؤن شروع کر دیا، اس کے مدارس، اسکول و دیگر اداروں کو حکومت نے اپنی تحویل میں لینا شروع کر دیا۔ وجہ یہ بیان کی کہ پاکستان ان سارے گروہوں اور شخصیات کے خلاف کارروائی کر رہا ہے اور کرے گا، جن پر اقوام متحدہ نے پابندی لگائی ہے، حالانکہ یہ پابندی ایک طویل عرصے سے لگی ہوئی ہے۔

یہ نکتہ یاد رہے کہ سعودی عرب اور جعلی ریاست اسرائیل دونوں اس ادارے میں مبصر کی حیثیت سے شامل ہیں جبکہ ترکی، چین سمیت دیگر سینتیس ممالک باقاعدہ رکن ہیں۔ البتہ اس ٹاسک فورس میں خلیجی تعاون کاؤنسل کی تنظیم کو بھی ووٹنگ کا حق ہے اور اس کاؤنسل کی جانب سے سعودی عرب کو ووٹ دینا تھا، اس لئے پاکستانی حکمرانوں نے سعودی حکومت کو راضی کرنے کے لئے پارلیمنٹ کو اعتماد میں لئے بغیر، کسی کو آگاہی دیئے بغیر بالا ہی بالا مزید پاکستانی فوجی سعودی عرب بھیجنے کا فیصلہ کر لیا۔ پارلیمنٹ اور خاص طور پر سینیٹ میں جب اراکین نے اعتراضات کئے تو جواب ملا کہ پاکستانی فوجی سعودی افواج کو تربیت و مشاورت کے لئے بھیجے جا رہے ہیں، کسی ملک کے خلاف جنگ کا حصہ بننے نہیں جا رہے۔ سعودی عرب نے وقتی طور پر ترکی اور چین کے ساتھ مل کر امریکی قرارداد کے خلاف لابنگ کی اور فیصلہ کیا کہ امریکی قرارداد کی مخالفت کرے گا۔ امریکہ نے یہ صورتحال دیکھی تو اس پر رائے دہی موخر کرنے کو ترجیح دی۔ اس درمیان وزیر خارجہ خواجہ آصف نے بھانڈا پھوڑ دیا کہ پاکستان کو تین ماہ کی رعایت مل گئی ہے، جس پر بھارتی حکومت نے راتوں رات اپنے سفارتی ذرائع کو کامیابی سے استعمال کرکے امریکہ کے ذریعے دوبارہ اس معاملے کو ٹاسک فورس اجلاس میں پیش کروا دیا، حالانکہ اس سے قبل تاریخ میں اس کی نظیر نہیں ملتی کہ موخر شدہ معاملے پر دوبارہ بحث کی جائے۔ امریکہ نے بھارت کی محبت میں پاکستان کے بارے میں فیصلہ کر لیا تھا کہ جون میں اسے گرے فہرست میں شامل کر دیں گے۔ امریکہ نے دوسری مرتبہ اسی مسئلے پر اجلاس بلوایا، امریکی حکام نے سعودی حکام سے بات چیت کی اور انہیں پیشکش کی کہ اگر وہ پاکستان کے خلاف امریکی قرارداد کی حمایت کریں اور پاکستان کی حمایت سے دستبردار ہو جائیں تو سعودی عرب کو فائنانشل ایکشن ٹاسک فورس کی مکمل رکنیت مل سکتی ہے، جس پر سعودی حکام راضی ہوگئے اور پاکستان جیسے بے لوث اور وفادار اتحادی کی پیٹھ میں چھرا گھونپ دیا۔

چین اس صورتحال سے مایوس ہوا، چین نے پاکستان کے حق میں لابنگ کی تھی اور سنگاپور جیسے ملک کو پاکستان کے حق میں ووٹ ڈالنے پر راضی کیا تھا، خود چین سعودی منافقت کی وجہ سے دل ہار گیا کہ اس کے ووٹ کی اہمیت ہی نہیں رہی اور وہ ایک ناکام ووٹ ڈالنے سے گریزاں رہا۔ یوں سعودی عرب نے پاکستان کے خلاف امریکہ کا کام آسان کر دیا۔ دلچسپ حقیقت یہ ہے کہ مسعود اظہر اور انکی جیش محمد تنظیم اور حافظ سعید اور انکی جماعت الدعوہ یا دیگر تنظیموں کے خلاف بھارت نے ایسی زبردست لابنگ کر رکھی ہے کہ اگر اقوام متحدہ میں چین ویٹو پاور(حق استرداد) استعمال نہ کرتا رہتا تو پاکستان پر بدترین الزامات اور پابندیاں لگ چکی ہوتیں۔ یعنی پاکستان کو دہشت گرد ریاست قرار دیا جا چکا ہوتا۔ البتہ پیرس اجلاس میں چین کا یہ فیصلہ بھی پاکستانی حکمرانوں کے لئے ایک سبق سے کم نہیں۔ امریکہ، برطانیہ، دیگر یورپی ممالک، سبھی اس ایشو پر بھارت کے ہمنوا ہیں اور پیرس اجلاس نے ثابت کر دیا کہ سعودی عرب بھی پاکستان کے خلاف امریکہ اور بھارت کا ساتھی ہے۔ کچھ دنوں تک پاکستانی حکام قوم سے یہ حقیقت چھپاتے رہے کہ پیرس اجلاس میں کیا طے پایا ہے، لیکن وزیراعظم کے مشیر مفتاح اسماعیل اور دفتر خارجہ کے ترجمان ڈاکٹر فیصل نے بعد ازاں یہ راز فاش کر دیا کہ جون میں گرے فہرست میں پاکستان کو شامل کر دیا جائے گا، یعنی واچ لسٹ برائے ٹیرر فائنانسنگ! مفتاح اسماعیل نے ایک نجی چینل پر گفتگو میں انکشاف کیا کہ امریکہ کے دباؤ پر خلیجی تعاون کاؤنسل کے ممالک پاکستان کے خلاف ہوگئے، جبکہ سابق وزیر خارجہ خورشید محمود قصوری نے کہا کہ سعودی عرب نے پاکستان کی حمایت اس لئے نہیں کی کہ اس پر امریکی دباؤ تھا۔ حالانکہ دیگر سرکاری ذرایع نے یہ حقیقت لیک کر دی کہ دباؤ نہیں بلکہ مکمل رکنیت کی لالچ کی وجہ سے سعودی عرب نے پاکستان کے خلاف ووٹ دیا۔

پاکستان کے حکمرانوں نے طول تاریخ میں امریکہ، برطانیہ اور سعودی عرب کا جتنا ساتھ دیا ہے اور اس کی جتنی بھاری قیمت ادا کی ہے، اس کے باوجود ان ممالک کی جانب سے پاکستان کے خلاف اقدامات کرنا، ہر پاکستانی کی آنکھیں کھولنے کے لئے کافی ہے کہ یہ ممالک بے وفا اور مطلبی ہیں اور برے وقت میں یہ پاکستان سے بے رخی و بے وفائی ہی کریں گے۔ امریکہ نے افغانستان کے ایشو پر بھی یہی پالیسی اپنا لی ہے۔ اس کے باوجود پاکستانی حکام سعودی بادشاہت اور امریکی حکومت کے تلوے چاٹنے سے باز نہیں آرہے۔ سعودی عرب فوج بھیج رہے ہیں اور امریکہ سے خفیہ مذاکرات کا سلسلہ کبھی بھی ختم نہیں کیا اور اب سیکرٹری خارجہ تہمینہ درانی کی سربراہی میں پاکستانی وفد ایک اور مرتبہ واشنگٹن میں مذاکرات کرنے پہنچا ہے۔ امریکی حکام تاحال پاکستان سے مطمئن نہیں۔ امریکی وزارت خارجہ و دفاع کے حکام ہوں یا انٹیلی جنس اداروں کے حکام، سبھی پاکستان کے رویئے سے شاکی ہیں اور تو اور اب خطرات کی تشخیص پر مبنی رپورٹ میں دفاعی انٹیلی ادارے نے پاکستان کے بڑھتے ہوئے نیوکلیئر ہتھیاروں اور بیلسٹک میزائل تجربات، ابابیل وغیرہ کا بھی تذکرہ کیا ہے۔ پاکستان پر امریکہ دباؤ ڈال کر اسے پھر سے اپنے مفاد میں استعمال کرنا چاہتا ہے۔ سال 2018ء میں پاکستان بیک وقت مختلف اقسام کی مشکلات کا شکار ہے۔ اقتصادی بحران کی انتہاء ہے کہ دسمبر 2017ء کے اختتام پر پاکستان پر تقریباً 89 ارب ڈالر کا بیرونی قرضہ واجب الادا تھا۔ پچھلے دو عام انتخابات کے سال یعنی 2008ء اور 2013ء میں بھی پاکستان ایسی ہی مشکل صورتحال میں تھا کہ اس کے قومی خزانے میں واجب الادا بیرونی قرض کی قسط ادا کرنے جتنی رقم بھی موجود نہیں تھی اور قسط کی ادائیگی کے لئے بھی پاکستان کو ایک اور قرضہ درکار تھا اور امریکہ کے کہنے پر بین الاقوامی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) نے پاکستان کو قرضہ فراہم کر دیا تھا۔

سال 2018ء بھی عام انتخابات کا سال ہے اور پاکستان پر وہی تلوار ایک اور مرتبہ لٹک رہی ہے۔ پاکستان کی آمدنی کم اور اخراجات زیادہ ہیں، پاکستان کی فروخت کم ہے، اس لئے اس کی قوت خرید بھی کم ہے، لیکن قرضے کی وجہ سے قوت خرید کم ہونے کے باوجود پاکستان زیادہ خریداری کر لیتا ہے۔ قصہ مختصر ایک مالیاتی بحران کی تلوار ملک پر لٹک رہی ہے، جو موجودہ حکومت زیادہ سے زیادہ انتخابات تک ٹال سکتی ہے اور وہ بھی بڑی مشکل سے اور نئی حکومت پھر کشکول لئے قرضہ کی بھیک مانگتی پھر رہی ہوگی۔ مفتاح اسماعیل کا دعویٰ ہے کہ ایف اے ٹی ایف کے فیصلے کے بعد بھی پاکستان پر کوئی برا اثر نہیں پڑے گا، حالانکہ یہ بہت واضح ہے اور سامنے کی بات ہے کہ دیگر ممالک اور غیر ملکی سرمایہ کاراس فیصلے کی وجہ سے پاکستان کے ساتھ تجارتی تعلقات و سرمایہ کاری کرنے سے گریز کریں گے، کیونکہ بین الاقوامی مالیاتی نظام چلانے والوں کی نظر میں پاکستان ایک مشکوک ملک قرار دیا جاچکا ہوگا۔ مالی سال 2017-18ء کے آغاز یعنی جولائی 2017ء سے جنوری 2018ء تک پہلے سات ماہ میں پاکستان 1.78 ارب ڈالر کا کمرشل قرضہ لے چکا ہے، حالانکہ حکومت نے فیصلہ کیا تھا کہ پورے مالی سال یعنی 30 جون 2018ء تک ایک ارب ڈالر کمرشل قرضہ لیا جائے گا۔ اکنامک افیئرز ڈویژن کے مطابق مذکورہ سات ماہ میں کل 6.88 ارب ڈالر کی غیر ملکی (مالیاتی) معاونت حاصل کی گئی ہے۔ یعنی کل غیر ملکی قرضہ پونے سات ارب ڈالر سے بھی تجاوز کرچکا ہے۔ حکومت نے اس مالی سال کے لئے کل 1.917 ارب ڈالر کے قلیل المدت کمرشل قرضوں کے معاہدوں پر دستخط کر رکھے ہیں، جس میں سے 1.78 ارب ڈالر مل چکے ہیں، جو زیادہ تر دو بڑے ذرائع سے حاصل ہوئے ہیں، یعنی انڈسٹریل ایند کمرشل بینک آف چائنا اور اسٹینڈرڈ چارٹرڈ بینک لندن۔ اس کے علاوہ البتہ عالمی بینک اور ایشیائی ترقیاتی بینک کی جانب سے قرضے ضرور ملے ہیں۔۱ٹلی، کوریا، ناروے اور اقوام متحدہ کے ترقیاتی ادارے (UNDP) نے رواں مالی سال پاکستان کو کوئی ترقیاتی قرضہ نہیں دیا ہے۔

گرے فہرست میں نام آنے کے بعد اسٹینڈڑد چارٹرڈ لندن سمیت دیگر غیر ملکی بینکوں اور اداروں کی جانب سے بھی قرضہ ملنے کی امید کم ہو جائے گی۔ حکومت نے موجودہ مالی سال میں 7.692 ارب ڈالر غیر ملکی قرضے اور 40 کروڑ 17 لاکھ ڈالر سے کچھ زائد غیر ملکی گرانٹ کو بجٹ اعداد و شمار میں شامل رکھا تھا۔ غیر ملکی مالی معاونت یعنی قرضے یا گرانٹ کی مد میں ایشیائی انفراسٹرکچر سرمایہ کاری بورڈ، جاپان، اسلامی ترقیاتی بورڈ اور برطانیہ نے بھی پاکستان کو کچھ نہ کچھ دیا ہے۔ سعودی عرب نے دو کروڑ پچیس لاکھ ڈالر دیئے ہیں، لیکن جب یہ ملک خود پاکستان کو مشکوک ملک کی فہرست میں ڈال رہے ہیں تو یہ مونگ پھلی جتنا قرض بھی جو دے رہے ہیں، دیں گے؟ حالانکہ یہ قرضے سود سمیت واپس ادا کئے جاتے ہیں! وزارت خزانہ کے اعلٰی حکام نے قومی اسمبلی کی مجلس قائمہ برائے مالیات کو بریفنگ میں بتایا تھا کہ کرنٹ اکاؤنٹ خسارے کو کم کرنے کے لئے موجودہ مالی سال کے دوران یعنی 30 جون 2018ء تک موجودہ حکومت مزید سات ارب ڈالر قرضہ لے گی۔ جولائی تا دسمبر 2017ء بجٹ خسارے میں 826 فیصد اضافہ ہوچکا ہے۔ ایسی صورتحال میں کہ جب ملک کی اقتصادی صورتحال دگرگوں ہے اور بین الاقوامی مالیاتی ادارے آئی ایم ایف نے بھی ایگزیکیٹو بورڈ اجلاس کے بعد رپورٹ میں پاکستان کے اقتصادی منظر نامے میں خطرات میں اضافے کی پیشن گوئی کی ہے۔ آئی ایم ایف کے مطابق قرضوں کی وسط مدتی ادائیگی کی پاکستانی صلاحیت بھی کمزور ہوچکی ہے۔

پاکستان کو خود انحصاری کی پالیسی اپنانے کی شدید ضرورت ہے اور اس پالیسی پر عمل کرنے کے لئے ایک مخلص اور خالص پاکستانی غیرت مند قیادت کی ضرورت ہے، جو پاکستانی قومی و اسلامی غیرت پر کوئی سودے بازی نہ کرے اور پاکستان کو غیر ملکی قرضوں سے بھی نجات دلائے اور حقیقی معنوں میں پاکستان کو اپنے پیروں پر کھڑا کرکے ایک خوددار آزاد اور باوقار ملک بنائے۔ ایسی قیادت جو ملکی پیداوار اور قومی آمدنی میں اضافہ کرے، بدعنوانیوں اور اسراف کا خاتمہ کرے، برآمدات میں اضافہ کرے، در آمدات میں کمی کرے۔ ایسی غیرت مند قیادت جو داخلی سلامتی پر کوئی سودے بازی نہ کرے۔ ایسی قیادت جو امریکہ اور سعودی عرب کے دباؤ پر نہیں بلکہ پاکستانیوں کے اتحاد و یکجہتی اور خالصتاً پاکستان کے اپنے قومی مفاد میں ہر دہشت گرد گروہ کو صفحہ ہستی سے مٹا کر رکھ دے۔ ایسی قیادت جو کالعدم گروہوں کے سرغنہ کو ایوان صدر میں باعزت مہمان کی حیثیت سے مدعو کرنے کی بجائے اسے چوراہے پر پھانسی پر لٹکائے، تاکہ کسی کو پاکستان میں دہشت گردی اور تکفیریت پھیلانے کی ہمت نہ ہو۔ ساتھ ہی ساتھ وہ تمام گروہ جو یمن پر سعودی جنگ کے بعد ان امریکی اتحادی بادشاہوں اور شہزادوں کی حمایت میں پاکستان کی شاہراہوں پر زندہ باد مردہ باد کھیل رہے تھے، انکے لئے بھی نوشتہ دیوار واضح ہے۔ 1982ء سے سعودی شاہی خاندان کی حفاظت کے لئے پاکستانی فوجی دستے بھیجنے والوں کے لئے بھی پیرس اجلاس آنکھیں کھولنے کے لئے کافی ہے کہ سعودی عرب کل بھی امریکہ کے ساتھ تھا اور آج بھی ہے اور اس نے کل بھی پاکستان کو افغانستان کی جنگ کی آگ میں جھونک کر دہشت گردی اور منشیات تحفے میں دی تھی اور فائنانشل ایکشن ٹاسک فورس کے اجلاس میں امریکی سعودی اتحاد نے جو تحفہ پاکستان اور پاکستانیوں کو دیا ہے، اس پر مجرمانہ خاموشی کی بجائے قومی غیرت پر مبنی ردعمل ظاہر کرنے کی ضرورت تھی۔ کہا جاسکتا ہے کہ حکمرانوں اور سعودی نواز نام نہاد مذہبی طبقے کی چاپلوسی نے پاکستان کو یہ دن دکھائے ہیں۔!

متعلقہ مضامین

Back to top button