اہم ترین خبریںمقالہ جات

اہل تشیع کون ہیں؟نسل در نسل پروپیگنڈہ کیسے کیا گیا؟

نبوّت کے بعد اہلِ تشیع امامت کے قائل ہیں۔ بہت سارے لوگوں کا دعویٰ ہے کہ وہ شیعہ کے عقیدہ امامت کو جانتے ہیں، حالانکہ وہ نہیں جانتے۔

شیعیت نیوز: مولانا نذر حافی نے اپنے کالم میں لکھا ہے کہ گذشتہ چودہ سو سالوں میں حضرت علیؑ اور اہلِ تشیع کے خلاف پروپیگنڈے میں گالیوں سے لے کر غلط عقائد، مغالطوں اور فتووں تک کا استعمال کیا گیا۔

اسی طرح ان کے خلاف تلوار کا استعمال، گرفتاریوں اور ٹارچر سیلوں، بہمیت۔۔۔ ہر طرح کا جبر روا رکھا گیا۔

مغالطوں کا اندازہ اس سے لگائیے کہ حضرت عمار یاسر ؓ کے بارے میں کہا گیا کہ ان کے قاتل خود حضرت علیؑ ہیں، چونکہ وہی انہیں میدان میں لے کر آئے ہیں اور شیعیانِ علی کے بارے میں کہا گیا کہ یہ اس لئے روتے اور ماتم کرتے ہیں،

چونکہ انہوں نے خود امام حسین ؑ کو شہید کیا ہے۔ آج بھی آپ سروے کر لیں۔ کسی دور دراز کے ایسے گاوں میں چلے جائیں، جہاں پرائمری سکول بھی نہ ہو، وہاں لوگوں سے پوچھیں کہ شیعہ کون ہوتے ہیں اور کیا کرتے ہیں؟

وہاں بھی لوگوں کو یہ پتہ ہوگا کہ شیعہ کافر ہیں، یہ دس محرم کو خون پیتے ہیں، شامِ غریباں میں۔۔۔  آپ کو اندازہ ہو جائے گا کہ کس طرح نسل در نسل ان کے خلاف پروپیگنڈہ جاری ہے۔

اہلِ تشیع کے خلاف پروپیگنڈوں اور مغالطات سے کئی پڑھے لکھے اور باشعور افراد بھی متاثر ہیں۔

یہ بھی پڑھیں:شانِ اہل بیتؑ میں بدترین گستاخی کے خلاف شیعہ علماء، ذاکرین اور اکابرین سراپا احتجاج

چنانچہ اِتمام حجّت کیلئے ضروری ہے کہ اہلِ تشیع کے عقائد و نظریات کے بارے میں حقائق کو بیان کیا جائے۔ اہلِ تشیع غلط ہیں یا درست، یہ فیصلہ کرنے میں ہر شخص آزاد ہے۔

کوئی بھی شخص جس بھی نتیجے پر پہنچے وہ حقیقت کی روشنی میں پہنچے نہ کہ مغالطوں، غلط بیانیوں اور الزامات و جھوٹ پر مبنی مفروضات پر اپنی رائے قائم کرے۔ اس حوالے سے آئیے شیعہ عقائد کا ایک جائزہ لیتے ہیں: اہلِ تشیع کے ہاں پانچ اصول دین ہیں: ۱۔ توحید  ۲۔ عدل ۳۔ نبوّت ۴۔ امامت ۵۔ قیامت

توحید:
توحید سے مراد یہ ہے کہ صرف خداوند عالم ہی معبود، خالق، مالک، رازق ہے۔

اس کی ذات اور صفات میں کسی بھی طور پر کوئی شریک نہیں۔ اُس کی صفات عین ذات ہیں۔ یعنی اگر آپ اُس کی کسی ایک صفت کا انکار کرتے ہیں تو گویا آپ نے اُس کی ساری ذات کا انکار کر دیا۔ مثلاً اگر کسی نے اُسے معبد تو سمجھا لیکن رازق یا رب کسی اور کو کہا تو اُس نے خدا کا ہی انکار کر دیا ہے۔
عدل:
عدل سے مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ تمام جہتوں سے عادل ہے۔ وہ خود عادل ہے، اُس نے جتنے انبیا بھیجے، وہ بھی عادل ہیں، اس نے جتنی کتابیں نازل کیں، وہ بھی نفاذِ عدل کیلئے ہیں اور وہ اپنے بندوں کو جو بھی حکم دیتا ہے، وہ بھی عدل پر مبنی ہوتا ہے۔

نبوّت:
عقیدہ نبوّت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے بنی نوعِ انسان کی ہدایت کیلئے ایک مشہور روایت کی بنیاد پر ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیا و رسول بھیجے۔ نبی اور رسول میں فرق یہ ہے کہ نبی احکامِ الہیٰ اور وحی الہیٰ کا حامل ہوتا ہے اور وہ اپنے سے گذشتہ نبی کی تعلیمات کی ہی تبلیغ کرتا ہے،

جبکہ رسول ایسا نبی ہوتا ہے، جو صاحبِ شریعت ہوتا ہے۔ روایات میں رسولوں کی تعداد تین سو تیرہ ہے۔

اس طرح ہر  رسول خدا کا نبی بھی ہے، لیکن ہر نبی خدا کا رسول نہیں ہے۔

ان میں سے پانچ  رسول حضرت نوحؑ،  حضرت ابراہیم ؑ ، حضرت موسیٰؑ، حضرت عیسیٰؑ اور  حضرت محمد ﷺ اولوالعزم [7]ہیں۔ ان سب انبیاء و مرسلین کے سردار ختم الانبیاء حضرت محمد رسول اللہﷺ ہیں۔ شیعہ حضرات ان سب انبیاء و مرسلین اور ان پر نازل ہونے والی ساری کتابوں، صحیفوں، ان کی تعلیمات، نیز ان پر وحی لانے والے فرشتے پر ایمان رکھتے ہیں۔

نبوّت کے ساتھ ہی شیعہ ختمِ نبوّت کے قائل ہیں۔ ”عقیدہ ختم نبوت“ کا مطلب یہ ہے کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر نبوت اور رسالت کا سلسلہ ختم کر دیا گیا ہے۔ آپ سلسلہ نبوت کی آخری کڑی ہیں۔

آپ کے بعد کسی شخص کو اس منصب پر فائز نہیں کیا جائے گا۔ قرآن کریم کی متعدد آیات اور آنحضرت ؐکی کئی احادیثِ مبارکہ  اس عقیدے کی نشان دہی کرتی ہیں۔ اہل بیت، تمام صحابہ کرام  ؓ تابعین عظام، تبع تابعین، ائمہ مجتہدین اور چودہ صدیوں کے مفسرین، محدثین، متکلمین، علماء اور صوفیاء (اللہ ان سب پر رحمت کرے) کا اس پر اجماع ہے۔ چنانچہ قرآن کریم میں ہے:

ماکان محمد ابا احد من رجالکم ولکن رسول الله وخاتم النبیین۔“(الاحزاب:40) ترجمہ: ”حضرت محمد تمہارے مردوں میں سے کسی کے باپ نہیں، لیکن اللہ کے رسول اور خاتم النبیین ہیں۔“ تمام شیعہ متکلمین، محدثین اور مفسرین کا اس پر اتفاق ہے کہ ”خاتم النبیین“ کے معنیٰ ہیں کہ: آپ آخری نبی ہیں، آپ کے بعد کوئی ”منصب نبوت“ پر فائز نہیں ہوگا۔

امامت:
نبوّت کے بعد اہلِ تشیع امامت کے قائل ہیں۔ بہت سارے لوگوں کا دعویٰ ہے کہ وہ شیعہ کے عقیدہ امامت کو جانتے ہیں، حالانکہ وہ نہیں جانتے۔

چنانچہ ہم بیان کئے دیتے ہیں۔ شیعہ عقیدے کے مطابق پیغمبرِ اسلام کے بعد قیامت تک نہ ہی کسی پر وحی آئے گی اور نہ ہی کتاب نازل ہوگی اور نہ کوئی شریعت آئے گی۔

پس کسی امام پر فرشتہ وحی نازل نہیں ہوتا۔ نہ ہی کسی امام پر کوئی کتاب یا شریعت نازل ہوتی ہے۔

امام اس دنیا میں اللہ کے آخری نبی حضرت محمد رسول اللہﷺ کے دین کا ہی محافظ اور مبلغ ہوتا ہے۔

اس سے یہ بات سمجھ میں آنی چاہیئے کہ اہل تشیع کے ہاں عقیدہ امامت دراصل ختم نبوّت کی مہر ہے۔ یہ عقیدہ ایک مسلمان کو محکم کرتا ہے کہ اب کوئی وحی اور شریعت نہیں آئے گی،

اب دین کی تبلیغ اور امت کی ہدایت قرآن و سنّت کے مطابق امام معصوم کرے گا۔ اسی لئے امامت ضروریاتِ دین میں سے ہے۔

 امام معصوم سے مراد یہ ہے کہ ایسا امام جو قرآن و سنّت بیان کرنے یا اُس پر عمل کرنے میں کسی قسم کی سستی، غلطی، معصیت، نسیان یا بھول چوک کا مرکب نہیں ہوتا۔

متعلقہ مضامین

Back to top button