مقالہ جات

میں محب وطن پاکستانی ہوں،سید اسد عباس کا چشم کشا کالم

شیعیت نیوز:میں ریاست پاکستان کا دشمن نہیں، میرا گاؤں، میرا گھر، میرے اجداد کی قبریں، میری برادری، میرے اہل خانہ میرا سب کچھ پاکستان میں ہے۔ میں ریاست پاکستان کی نظریاتی و جغرافیائی سرحدوں کا احترام کرتا ہوں، میں ملکی اداروں سے اختلاف رکھتا ہوں لیکن ان کو اپنا سمجھتا ہوں، میرا پاکستان کے سیاسی مسائل اور خارجہ پالیسی کے حوالے سے ایک اصولی موقف ہے، جسے میں سیاسی انداز سے ہی حل کرنا چاہتا ہوں اور اس سلسلے میں مناسب انداز سے اپنے موقف کا اظہار کرتا ہوں۔ میرا کسی دہشت گرد گروہ، کسی عسکری تنظیم، کسی ریاست مخالف دھڑے سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ میں پاکستانی شناختی کارڈ کو اپنی واحد شناخت سمجھتا ہوں۔ خود کو ملک کے آئین و قانون کا پابند سمجھتا ہوں اور کبھی عمداً اس کی خلاف ورزی کی کوشش نہیں کی۔ میں کسی بھی خارجی طاقت کا آلہ کار نہیں ہوں اور وطن عزیز کو دل و جان سے عزیز رکھتا ہوں۔

 

آپ کو یقیناً حیرت ہوئی ہوگی کہ میں اس عمرانی معاہدے کی تجدید کیوں کر رہا ہوں؟ ایسا کیا ہوا کہ مجھے یہ سب کہنے کی ضرورت پیش آئی۔ دراصل وطن عزیز پاکستان میں گذشتہ کچھ عرصے سے آزاد فکر انسانوں کی جبری گمشدگی کا سلسلہ جاری ہے۔ جبری طور پر گم کیے جانے والے اکثر احباب کو تو میں نہیں جانتا کہ ان کو کس جرم میں لاپتہ کیا گیا ہے، تاہم چند ایک افراد ایسے بھی ہیں، جن کو میں اچھی طرح سے جانتا ہوں کہ وہ میری طرح کے ہی عام پاکستانی تھے۔ ان کے آباؤ اجداد صدیوں سے پاکستان میں آباد ہیں، وہ ریاست پاکستان کو اپنی ماں تصور کرتے ہیں، ان کا کسی دشمن ریاست سے کوئی تعلق نہیں، وہ ملکی اداروں سے بعض معاملات میں اختلاف رکھنے کے باوجود ان کے دشمن نہیں ہیں۔

 

ان کا کسی دہشت گرد گروہ، عسکری تنظیم یا ریاست مخالف دھڑے سے کوئی تعلق نہیں، ہاں وہ ملک کے سیاسی امور اور خارجہ پالیسی کے حوالے سے ایک خاص موقف رکھتے ہیں، جس کا وہ ڈھکے چھپے اور مناسب انداز سے اظہار کرتے تھے۔ کبھی شعری زبان میں، کبھی نثر کی شکل میں، کبھی فیس بک پوسٹ کے ذریعے۔ ایسے افراد کا لاپتہ ہونا اس امکان کو تقویت بخشتا ہے کہ پاکستان میں کسی بھی آزاد فکر انسان کا لاپتہ ہونا ممکن ہے۔ ملک میں بعض قوتیں آئین و قانون کے تقاضوں کو بالائے طاق رکھتے ہوئے خوف و دہشت کے ذریعے ملکی معاملات کو چلانے کا ارادہ رکھتی ہیں۔ وہ اس بات پر یقین رکھتی ہیں کہ لوگوں کو لاپتہ کرکے وہ اپنے اہداف کو بہتر انداز سے حاصل کرسکتی ہیں۔

 

وہ سمجھتی ہیں کہ ہر اٹھائے جانے والے شخص کو مجرم تصور کیا جائے گا اور لوگ ایسے شخص سے قطع تعلق کر لیں گے، اس کے خانوادے سے دور ہو جائیں گے، اسے ملک دشمن، دہشت گرد، پاکستان مخالف سمجھا جائے گا، اگر ایسا شخص بازیاب ہو جاتا ہے تو کوئی ادارہ اسے ملازمت نہیں دے گا، لاپتہ ہونے والے شخص کو صفائی کا کوئی موقع فراہم نہیں کیا جاتا کہ وہ اپنی حب الوطنی، وطن دوستی کو ثابت کرسکے۔ وہ بتا سکے کہ اس کے اجداد نے اس وطن کے حصول کے لیے کیا قربانیاں دی تھیں، اس کے خاندان کے کتنے افراد اس وطن کی خدمت کرتے ہوئے جام شہادت نوش کر گئے۔ اس کی نسلیں کتنے عرصے سے اپنی حلال کمائی میں سے اس ملک کے لیے ٹیکس دے رہی ہیں اور اس کی ترقی و پیش رفت کے لیےسرگرم عمل ہیں۔

یہ بھی پڑھیں:طلباء حصول علم میں درپیش مشکلات سے نہ گھبرائیں، علامہ حافظ ریاض نجفی

ہوتا یہ ہے کہ لاپتہ کرنے والے یا تو ایسے شخص کو ظاہر نہیں کرتے اور اگر کرتے بھی ہیں تو اس کے خلاف جھوٹے مقدمے ڈال ڈال دیئے جاتے ہیں، جن کی پیروی لاپتہ، بیروزگار اور معاشرے سے کٹے ہوئے انسان کے لیے ممکن نہیں ہوتی۔ ایسے میں راقم ضروری سمجھتا ہے کہ پاکستان کا ہر آزاد منش انسان پہلے سے ہی اپنے اس عمرانی معاہدے کی تجدید کرے، جو اس کا ریاست کے ساتھ موجود ہے اور اس کا واضح طور پر اظہار کرے۔ نہیں معلوم کب آپ کی آزادی اظہار اور آزاد فکری کسی ادارے کو گراں گزرے اور وہ ادارہ ملک کے آئین و قانون کو بالائے طاق رکھتے ہوئے آپ کو لاپتہ کر دے۔ آپ کو اہل محلہ ، ناآگاہ دوست دہشت گرد، عسکریت پسند اور ملک دشمن سمجھنا شروع کر دیں۔ آپ کے خلاف مقدمات درج کر دیئے جائیں اور آپ کے پاس اپنی صفائی میں کہنے کے لیے کچھ نہ ہو۔

 

پچھلے دنوں پاکستان میں ایک معروف شاعر احمد فرہاد کو جبری طور پر لاپتہ کیا گیا، جو اپنی نظم "یہ سوچتا ہے، اسے اٹھا لو” کے سبب معروف ہوئے۔ پاکستان میں اس مسئلے کے حوالے سے بہت کم لوگ لکھتے اور بولتے ہیں، کیونکہ ہر انسان جانتا ہے کہ اگر ہم نے اس اہم مسئلے پر بات کی تو قوی امکان ہے کہ ہم بھی اٹھا لیے جائیں گے۔ شریف انسان جو اپنے خاندان کا واحد کفیل ہو، اپنی بھرپور آزاد فکری کے باوجود یہ رسک نہیں لے سکتا۔ یہی سبب ہے کہ افراد کے لاپتہ ہونے کے باوجود کچھ بھی ٹس سے مس نہیں ہوتا۔ مجھے نہیں معلوم اب تک پاکستان میں کتنے افراد کو لاپتہ کیا گیا ہے، کتنوں کو عدالتوں میں پیش کیا گیا ہے، کتنوں کے خلاف مقدمات چلائے گئے ہیں، کتنے حقیقی مجرم ثابت ہوئے ہیں، تاہم اتنا جانتا ہوں کہ اس خوف کی فضا نے لوگوں کے اذہان کو مفلوج کرکے رکھ دیا ہے۔

 

کئی لوگ ملک سے فرار پر مجبور ہوچکے ہیں۔ ریاستی امور کو چلانے کا یہ انداز مقبوضہ کشمیر، فلسطین میں تو دیکھا تھا، تاہم مملکت عزیز پاکستان میں اس کی روایت بالکل نئی ہے، جس میں کسی طور پر بھی وطن دوستی نہیں کہہ سکتا۔ یہ تحریر لکھنے کا اصل سبب چند روز قبل میرے ایک قریبی دوست کا راولپنڈی سے جبری طور پر لاپتہ ہونا ہے۔ منیر الحسن جو قم سے فارغ التحصیل تھے، ان کو میں ایک عرصے سے جانتا ہوں۔ انتہائی خوش اخلاق، ملنسار، مہذب، محنتی اور بے ضرر انسان۔ علامہ منیر الحسن جامعہ المصطفیٰ العالمیہ میں شعبہ ثقافت میں خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔ ان کی زیادہ مصروفیات دینی و فرہنگی ہیں۔ وہ جوانی سے ہی دعا و مناجات سے خصوصی شغف رکھتے ہیں، ان کو ائمہ کی دعائیں تلاوت کرنے کا شوق ہے اور انھیں اکثر مقامات پر اسی مقصد کے لیے بلایا جاتا تھا۔

 

جہاں تک مجھے علم ہے اور یقین ہے، ان کا کسی بھی سیاسی، مذہبی جماعت سے کوئی تعلق نہ تھا۔ جامعہ المصطفی سے فارغ التحصیل ہونے کے سبب ان کا ایک خاص سیاسی نظریہ ہوسکتا ہے، تاہم وہ کبھی اپنے نظریئے کے نہ تو مبلغ بنے، نہ انھوں نے ریاستی قوانین کے خلاف کبھی کوئی اقدام کیا۔ منیر کے بارے میں وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ یہ ایسا شخص ہے، جس کے لیے کسی انسان کو ہاتھ سے تو دور کی بات ہے، زبان سے بھی ضرر پہنچانے کا امکان نہیں ہے۔ محنت مزدوری کے ذریعے گزر اوقات کرنے والے اس فرد کو لاپتہ کرنا انتہائی حیران کن ہے۔

 

میں سمجھتا ہوں کہ ملک کے مقتدر اداروں اور ذمہ داران کو جبری گمشدگی اور جھوٹے مقدمات کے اس حساس مسئلے کی جانب فوری توجہ دینی چاہیئے۔ ملک خداداد پاکستان میں مقبوضہ کشمیر، فلسطین، بحرین جیسے حالات پیدا کرکے نوجوانوں کے ذہنوں میں جو نفرت اور خوف کی فضا پیدا کی جا رہی ہے، اس سے ملک میں ترقی اور پیشرفت کا کوئی امکان نہیں ہے۔ ملک آزادی، انصاف، عدالت سے ترقی کرتے ہیں۔ دھونس، دھاندلی اور خوف ریاستوں کے لیے زہر قاتل ہوتا ہے۔ یہ روش اور حکمت عملی وطن دوستی نہیں ہے۔ ملک میں آئین و قانون کی بالادستی ہی ملک کی ترقی و پیشرفت کا واحد راستہ ہے۔ ہم نہیں کہتے کہ مجرموں کو گرفتار نہ کیا جائے، ضرور گرفتار کریں، تاہم قانون کے مطابق عدالت میں پیش کریں، جبری طور پر لاپتہ کرنا اس دیس کے حق میں نہیں ہے۔ ہم جبری گمشدگیوں کا خمیازہ مشرقی پاکستان میں بھگت چکے ہیں۔

 

بلوچستان میں جبری گمشدگان کے ورثاء کل اسلام آباد تک پہنچ گئے۔ یہ ریاستی امور کو چلانے کا کیا انداز ہے۔؟ کیا اس کو وطن دوستی قرار دیا جاسکتا ہے۔؟ جبری گمشدگی، جھوٹے مقدمات، آخر کب تک یہ کھیل کھیلا جاتا رہے گا۔ حیرت ہے کہ کیا مقتدر حلقوں اور ملک کے ذمہ داروں میں ایک بھی ایسا شخص نہیں، جو اس بات کو سمجھ سکے کہ یہ روش جمہوری ممالک میں درست نہیں ہوتی۔ ایسے اقدام فاشسٹ رژیم کرتے ہیں اور ان کے خلاف پھر آزادی کی تحریکیں اٹھتی ہیں۔ یہ روش نفرتوں کو جنم دیتی ہے، ہم دیکھتے ہیں کہ دنیا میں بڑے سے بڑا مسئلہ سیاسی گفت و شنید، قانون پر عمل درآمد سے حل کیا جاتا ہے۔ ہم وطن عزیز کو کس سمت میں لے جار ہے ہیں، یہ سوال ہر پاکستانی کے لیے لمحہ فکریہ ہے۔

متعلقہ مضامین

Back to top button