مقالہ جات

مشرقی غوطہ کے پس پردہ حقائق

مشرقی غوطہ دارالحکومت سے تقریبا 120کلومیٹر کے فاصلے پر واقعہ مضافاتی علاقہ ہے کہ جس کی جغرافیائی پوزیشن اور علاقہ کی ساخت دونوں براہ راست دارالحکومت پر اثر انداز ہوتی ہے۔
غوطہ دشام کے دارالحکومت کی کمر کو مضبوط کرنے یا توڑدینے کی پوزیشن رکھتا ہے کہ جس سے شام کی حکومت اور دہشتگرد گروہ اور ان کے آپریٹرز بخوبی واقف ہیں ۔
غوطہ کی جغرافیائی پوزیشن ایسی ہے کہ اس مضافاتی علاقے نے تین سمتوں مشرق ،مغرب اور جنوب سے دارالحکومت دمشق کو اپنے حصار میں لیا ہوا ہے ۔
زخیز زمین ،اور پھل دار درختوں کے باغات ،شفاف پانی کی نہروں سے بھرا ہوا یہ علاقہ دارالحکومت کے اطراف اپنی مثال آپ ہے ۔
لیکن غوطہ کی اہمیت صرف اس بات سے نہیں بلکہ اس علاقے کے ایک حصے میں رسول گرامی اسلام ص کی نواسی حضرت زینب ؑ سلام اور بہت سے صحابہ کرام اور اہم اسلامی شخصیات کے مزارات بھی واقعہ ہیں
گرچہ حضرت زینب ؑ کا روضہ غوطہ کے اس حصے میں ہے کہ جہاں عوامی اور شام کی سرکاری کی کوششوں کے سبب قدرے امن و امان قائم ہے لیکن اس کے باوجود شدید خطرات موجود ہیں ۔
دہشتگرد وقتا فوقتا رسول گرامی اسلام کی نواسی کے مزار کی جانب راکٹ فائر کرتے رہتے ہیں اور بعض اوقات مختلف شدت پسند گروہ حملوں کی کوشش بھی کرتے ہیں لیکن روضہ کی حفاظت پر تعینات عوامی رضاکار کی ہشیاری اور بر وقت اقدام کے سبب اب تک دہشتگرد سیدہ زینب کہلانے والے غوطہ کے اس علاقے میں داخل ہونے کی جرات نہیں کرپائے ۔
دو سے اڑھائی لاکھ آبادی پر مشتمل مشرقی غوطہ چند آبادیوں اور حصوں پر مشتمل ہے اور گذشتہ تقریبا دو سے ڈھائی سال کے عرصے سے غوطہ شرقیہ یا مشرقی غوطہ کے ایک حصے پر دہشتگردوں نے اپنے ٹھکانے بنائے ہوئے ہیں ۔
یہ دہشتگرد وقتا فوقتا دارالحکومت دمشق پر راکٹوں سے حملے کرتے رہتے ہیں ۔
شام کی افواج اور اتحادی جو کہ اب تک غوطہ شرقیہ کے اس علاقے میں موجود دہشتگردوں کیخلاف آپریشن میں اس لئے جلدی نہیں دیکھا رہے تھے کیونکہ ایک تو وہ بڑے شہروں جیسے حلب ادلب لاذقیہ جیسے اہم شہروں میں موجود دہشتگردوں کیخلاف آپریشن میں مصروف تھے ۔
دوسری بات ان کی کوشش رہی تھی کہ غوطہ شرقیہ کے دہشتگردوں کے ساتھ مذاکرات کے زریعے معاملات حل کئے جائیں تاکہ وہاں وموجود آبادی کو کسی قسم کا کوئی نقصان نہ پہنچے ۔
تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ غوطہ کو اب تک نظر انداز کرکے شام کی سرکارنے بڑی غلطی کی ہے کیونکہ مشرقی غوطہ گذشتہ ان چند سالوں میں دہشتگردوں کی ایک ایسی فیکٹری میں تبدیل ہوگیا ہے کہ جہاں اب طیارہ شکن توپوں اور جدید ترین اسلحہ یہاں تک کہ ابتدائی نوعیت کا کیمکل اسلحہ تک موجود ہے ۔
بات صرف یہاں تک محدود نہیں بلکہ اب ان دہشتگردوں کو براہ راست مختلف ممالک اور طاقتوں کی سرپرستی اور مدد بھی حاصل ہوچکی ہے جو شام میں اپنی شکست اور ڈوبتے منصوبوں کو بچانے کی آخری امید کے طور پر غوطہ کی جانب دیکھ رہے ہیں اور اپنی پوری توانائی غوطہ میں لگا رہے ہیں ۔
عرب و عالمی زرائع ابلاغ اور اہم تجزیہ کاروں نے انکشاف کیا ہے کہ امریکہ ،اسرائیل اوربعض عرب ممالک لیبیا کے پلان کو مشرقی غوطہ اور وہاں موجود دہشتگردوں کے زریعے شام میں نافذ کرنے کی کوشش میں ہیں ۔
اس پلان کے مطابق مشرقی غوطہ سے دارالحکومت کے دیگر مضاتی حصوں کی جانب یلغار کی جائے گی اور غوطہ کے وسیع علاقے پر قبضہ کرنے کے بعد وہاں متبادل حکومت کا اعلان کردیا جائے گا بالکل اسی طرح جیسے داعش اب تک کرتی آئی ہے ۔
اگر قارئین کو یاد ہو تو لیبیا میں معمر قذافی کو ہٹانے کے بعد سے اب تک دو حکومتیں چلتی آئی ہیں ایک لیبیا کے مغرب میں طرابلس شہر میں تو دوسری بن غازی شہر میں ۔
زرائع ابلاغ خاص sputniknews نیوز کے مطابق اردن کے دارالحکومت عمان میں ترتیب دیا گیا چند ملکی اس پلان کے شُد بُد جوں ہی شام اور اس کے اتحادیوں کے کانوں تک پہنچی تو انہوں نے فورا مشرقی غوطہ میں آپریشن لانچ کردیا ۔
کہا جارہا ہے کہ عمان میں ہونے والی میٹنگ میں امریکہ ،اسرائیل اور سعودی عرب کی اہم شخصیات شامل تھیں ۔
مشرقی غوطہ میں موجود دہشتگرد گروہوں کیخلاف جو ں ہی آپریشن لانج ہوا توعالمی سطح پر فورا اسے ایک انسانی مسئلہ بناکر شور اٹھایا گیا یہاں تک سیکوریٹی کونسل کا اجلاس تک بلایا گیا ۔
اس جلد بازی کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ غوطہ میں موجود آٹھ سے دس کے قریب شدت پسند گروہ ابھی پلان کے مطابق ایک بڑی یلغار کے لئے پوری طرح تیار نہیں ہوتے تھے ۔
جیسا کہ سلامتی کونسل کے اجلاس میں شام اور روسی مندوب نے بھی کہا کہ آپریشن سے پہلے وہاں موجود عوام کو نکلنے کا پورا موقع دیا گیا اور فضاسے پمفلٹ گرا کر انہیں نکلنے کے راستے دیکھائی گئے اور پورا وقت دیا گیا کہ وہ خود کودہشتگردوں سے الگ کریں ۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ سیکوریٹی کونسل کے اجلاس میں فائر بندی پر زور کا مقصد دہشتگردوں کو اتنا وقت فراہم کرنا ہے کہ وہ غیر متوقع طور پر شروع ہونے والے آپریشن کی صورتحال کے لئے خود کو تیار کرسکیں ۔
اجلاس میں روس کا کہنا تھا کہ اگر شام میں فائر بندی کرنی ہے تو پھر پورے شام میں فائربندی ہونی چاہیے نہ صرف مشرقی غوطہ میں،کیونکہ وہ چھوٹے سے علاقے کہ جہاں گذشتہ کئی سالوں سے عوام دہشتگردوں کے محاصرے میں جیسے نُبُل اور زہرا کا علاقہ کے بارے میں فائربندی کے لئے کبھی عالمی برداری نے توجہ دینے کی زحمت ہی نہیں کی ۔
واضح رہے کہ نُبُل اور زہرا دو ایسے علاقے ہیں کہ جو گذشتہ تین سالوں سے دہشتگردوں کے محاصرے میں ہیں اور آئے دن ان علاقوں کی آبادی پر راکٹوں کے حملے ہوتےہیں اور حکومت مخالف سیرین آبزرویٹی نامی گروہ کے مطابق نُبُل و زہرا میں اب تک بھوک بیماریوں اور شدت پسندوں کے راکٹوں تین سو سے زائد اموات ہوئی ہیں،واضح رہے کہ نُبُل و زہرا کہ آبادی چند ہزار پر مشتمل ہے ۔
یہاں اہم سوال یہ بھی ہے کہ کیا شام کے کرد نشین علاقے عفرین میں ترک افواج اپنی بمباری کو روکنے کے لئے تیار ہونگی کہ جنہوں نے کردوں کو دہشتگرد قراردیکر آپریشن شروع کیا ہواہے اور اب تک اس آپریشن میںتین درجن سے زائد کرد عوام ماری گئی ہے
سوال یہ بھی ہے کہ ترکی کے حمایت یافتہ شدت پسندوں کی جانب سے کرد جنگجوں لڑکی بارین کوبانی کے ساتھ جو بربریت کی گئی اور اس کی وڈیو نشر کی کئی اس کے بارے میں بھی سیکوریٹی کونسل اور عالمی ضمیرکو کچھ کہنا چاہیے یا نہیں ؟
دلچسب بات یہ ہے کہ سیکوریٹی کونسل کے اس اجلاس میںشرکا کو بادل نخواستہ شام کے مندوب کی اس بات کو مان لینا پڑا کہ غوطہ میں القاعدہ نواز گروہ اور داعش کیخلاف آپریشن جاری رہ سکتا ہے ۔
لیکن یہاں اہم سوال یہ ہے کہ ایک ہی علاقے کے مختلف حصوں پر کنٹرول رکھنے والے آٹھ سے زائد شدت پسند گروہ میں تفریق کیسے ممکن ہوسکتی ہے ۔
آپریشن کرنے والی فورسز کے لئے اچھے شدت پسند اور برے شدت پسند کی تفریق کیسے ممکن ہوگی ؟
واضح رہے کہ غوطہ میں موجود ہرگروہ کسی نہ کسی بیرونی طاقت کے ساتھ وابستہ ہے کہ جس میں اخوان المسلمون سے وابستہ گروہ کو قطر اور ترکی کی مدد حاصل ہے تو کسی دوسرے کی وابستگی شام میں موجود امریکی فورسز اور اسرائیل سے تو کوئی گروہ سعودی عرب کے زیادہ قریب ہے ۔
سیکوریٹی کونسل کے اجلاس کے بعد گرچہ شام اور اس کے اتحادیوں کی جانب سے روس نے اعلان کردیا کہ مشرق غوطہ میں روزانہ پانچ گھنٹوں کے آپریشن روک دیا جائے گا تاکہ سویلین خود کو شدت پسندوں سے الگ کردیں لیکن ہمارا نہیں خیال کہ شدت پسند سویلین آبادی کو آسانی کے ساتھ وہاں سے نکلنے دے سکتے ہیں ۔
غوطہ کو لیکر عالمی سطح پر ہونے والے شور شرابے کے بارے میں انڈیپنڈنٹ اخبار میں معروف تجزیہ کار رابٹ فسک نے یہ سوال اٹھایا تھا کہ غوطہ میں دہشتگرد بھی رہتے ہیں ؟ان کے بارے میں کوئی کیوں نہیں کہتا ؟
عرب اور عالمی زرائع ابلاغ نے روسی زرائع سے اطلاع دی ہے کہ ایک اندازے کے مطابق مشرقی غوطہ میں بیس سے پچیس ہزار کے قریب دہشتگرد رہتے ہیں جو اپنی کئی بیویوں اور خاندان کے ساتھ وہاں موجود ہیں جن کے پاس وافر مقدار میں جدید اسلحہ اور خوراک موجود ہے جسے انہوں نے گذشتہ چھ سالوں میں جمع کیا ہے ۔
ان علاقوں میں انڈرگرونڈخندقوں اور سرنگوں کا ایک جال بچا ہوا ہے جو تقریبا ان کے کنٹرول میں موجود پورے علاقے کو آپس میں جوڑ لیتا ہے ۔
یہ قریب ایک سال پہلے کا واقعہ ہے کہ ایک ایسی ہی سرنگ کے زریعے دہشتگردوں نے سیدہ زینب کے علاقے میں گھس آنے کی کوشش کی تھی کہ جس کے بعد سیدہ زینب کے علاقے کی جانب کھودی گئی بہت سی سرنگوں کو تباہ کردیا گیا تھا ۔
تازہ ترین اطلاعات کے مطابق غوطہ میں موجود دہشتگرد گروہوں میں اس بات کو لیکر مزید کشمکش شروع ہوچکی ہے کہ کس گروہ غوطہ چھوڑنا چاہیے اور کس کو رہنا چاہیے تاکہ آپریشن رک سکے
قطر اور ترکی سے وابستہ گروہ فیلق الرحمن اور سعودی عرب سے وابستہ گروہ جیش الاسلام کا کہنا ہے کہ القاعدہ نواز گروہ النصرہ فرنٹ اور داعش سے وابستہ گروہ ہیۃ التحریر الشام کو غوطہ چھوڑنا چاہیے
دوسری صورت میں وہ انہیں زبردستی نکال باہر کرینگے
واضح رہے کہ ہیتہ التحریر الشام اور جبھۃتحریر سوریہ نامی گروہوں میں قتل و قتال بھی جاری ہے اور بدلتی ہوئی اس صورتحال میں دوسرے گروہ ملکر ان گروہوں کے خلاف ایک نیامحاذ کھول سکتے ہیں
اس ساری صورتحال میں یہ بات واضح ہوتی جاری ہے کہ سیکوریٹی کونسل اور وہاں بیٹھے شام مخالف ملکوں کو غوطہ شرقیہ کی عوام سے زیادہ ان سے وابستہ شدت پسند گروہوں کی زیادہ فکر ہے
وہ دیکھ رہے ہیں کہ شام کی تقسیم کا منصوبہ ایک بار پھر عملی طور پر ناکام ہورہا ہے ۔
معروف تجزیہ کار اور مشرق وسطی پر گہری نگاہ رکھنے والے رائٹر محمد صادق یورپ کے عسکری زرائع کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ غوطہ میں اس وقت پندرہ سو کے قریب اہم غیر ملکی فوجی آفیسرز موجود ہیں ۔
ان کا کہنا ہے کہ انسانی بری حالت کی آڑ میں کئے جانے والےاس سارے شورشرابے اور مصنوعی ہنگامہ وہاں پر موجود ان غیر ملکیوں خاص کر امریکی موجودگی کو شلٹر فراہم کرنا ہے۔
تو کیا امریکہ دیگر علاقائی و عالمی قوتیں اس میں کامیاب ہونگی ؟ ہمیں نہیں دیکھائی دیتا کہ وہ اس میں کامیاب ہوسکتی ہیں کیونکہ ان کی ناکامی کا آغاز غوطہ آپریشن اور اس کے بعد سیکوریٹی کونسل میں من پسند قرارداد لانے میں ناکامی سے شروع ہوچکا ہے ۔

متعلقہ مضامین

Back to top button