پاکستان

سیہون دھماکا ، لال مسجد کے خطیب کے قریبی رشتے دار ملوث تھے

شیعیت نیوز: سندھ کے صوفی بزرگ لعل شہباز قلندر کے مزار پر خودکش حملے میں لال مسجد اسلام آباد کے خطیب مولانا عبدالعزیز اور مولانا غازی عبدالرشید کے قریبی رشتے دار ملوث تھے۔ کاؤنٹر ٹیررازم پولیس کے مطابق غلام مصطفیٰ مزاری ماسٹر مائنڈ جبکہ صفی اللہ مزاری سہولت کار تھے۔ قلندر شہباز کے مزار پر خودکش بم حملے میں محکمۂ صحت کے حکام کے مطابق 87 افراد ہلاک جبکہ 329 زخمی ہوگئے تھے، چھ افراد کی شناخت نہ ہونے کی وجہ سے انھیں لاوارث قرار دیکر ایدھی حکام نے دفنا دیا۔ قلندر شہباز پر حملے کی منصوبہ بندی کے الزام میں پولیس اس وقت تک صرف ایک ملزم نادر جکھرانی کو گرفتار کرسکی ہے، جس کے بیان اور سی ٹی ڈی کی تحقیقات میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ غلام مصطفیٰ مزاری اور صفی اللہ مزاری کا اس دھماکے میں کلیدی کردار تھا۔ ڈاکٹرغلام مصطفیٰ کا تعلق کالعدم تنظیم لشکر جھنگوی سے تعلق تھا بعد میں انھوں نے دولتِ اسلامیہ میں شمولیت اختیار کی اور اسے دولتِ اسلامیہ پنجاب، سندھ اور بلوچستان کا آپریشنل سربراہ بنایا گیا۔رپورٹ کے مطابق بستی عبداللہ روجہان مزاری کے رہائشی غلام مصطفیٰ مزاری اور صفی اللہ مزاری لال مسجد کے متنازع خطیب مولانا عبدالعزیز اور مولانا عبدالرشید کے قریبی رشتے دار ہیں۔خودکش بمبار برار کو غلام مصطفیٰ مزاری اپنے ساتھ لایا تھا، قلندر شہباز کے مزار پر حملے سے قبل بمبار نے نادر جکھرانی کے ہمراہ بستی عبداللہ میں صفی اللہ کے گھر قیام کیا تھا، صبح کو صفی اللہ، نادر جکھرانی اور بمبار برار سیہون کے لیے روانہ ہوئے جہاں دھماکے کے بعد نادر جکھرانی اور صفی اللہ واپس بستی عبداللہ آئے جہاں نادر نے صفی اللہ کے گھر قیام کیا۔کاؤنٹر ٹیررازم ڈپارٹمنٹ کی رپورٹ کے مطابق نادر جکھرانی کا تعلق کشمور کے گاؤں سعید خان جکھرانی سے ہے۔ اس کا تعارف غلام مصطفیٰ عرف ڈاکٹر عرف سائیں عرف شاہ صاحب سے اس وقت ہوا جب وہ گاؤں میں تھریشر مشین کرائے پر دینے آیا تھا۔ سی ٹی ڈی کی رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ نادر جکھرانی غلام مصطفیٰ مزاری کے شدت پسندانہ خیالات سے متاثر ہوا اور اس نے بستی عبداللہ جانا شروع کردیا جہاں غلام مصطفیٰ مزاری کے ذریعے اس نے غازی عبدالرشید کے بیٹوں ہارون اور حارث سے قریبی تعلقات قائم کیے۔ غلام مصطفیٰ مزاری مستونگ میں ایک فوجی آپریشن میں ہلاک ہوگیا، صفی اللہ کے بارے میں ڈی آئی جی سی ٹی ڈی عامر فاروقی نے برطانوی میڈیا کو بتایا کہ صفی اللہ کی گرفتاری کے لیے بستی عبداللہ میں چھاپا مارا گیا تھا لیکن وہ گھر پر نہیں تھا۔ خودکش بمبار کو غلام مصطفیٰ مزاری اپنے ساتھ لایا اور نادر جکھرانی نے صفی اللہ کے ہمراہ سیہون پہنچایا۔ ایس ایس پی کاؤنٹر ٹیرر ازم عرفان سموں کا کہنا ہے کہ یہ ابھی واضح نہیں ہے کہ وہ بروہی تھا یا افغانی۔ تاہم نادر جکھرانی نے پولیس کو بتایا ہے کہ برار کی زبان اور لہجہ مستونگ میں بولی جانے والی براہوی زبان سے مماثلت رکھتا تھا۔ نادر نے تحقیقات میں اس کے بارے میں مزید معلومات سے لاعلمی کا اظہار کیا ہے۔ قلندر شہباز کے مزار پر دھماکے کے لیے استعمال کی گئی جیکٹ وہاں کس طرح پہنچی یہ واضح نہیں ہوسکا۔ سی ٹی ڈی حکام کو شبہ ہے کہ یہ جیکٹ مقامی طور پر دستیاب تھی جو پہلے ہی منتقل کردی گئی تھی۔ گرفتار ملزم نادر جکھرانی کے بیان کے مطابق ڈاکٹر غلام مصطفیٰ مزاری نے جیکٹ پہنچانے کی ذمہ داری اٹھائی تھی اور دھماکے سے ایک روز قبل انھیں سیہون میں اس نے یہ جیکٹ فراہم کی۔ تفتیشی حکام نے تین سے زائد مقامی افراد کو شبہ کی بنیاد پر حراست میں لیا تھا لیکن بعد میں انھیں رہا کر دیا گیا۔ ایس ایس پی عرفان سموں کا کہنا ہے کہ قلندر شہباز کی مزار پر حملے سمیت ہر دھماکے میں مقامی معاونت ثابت ہوئی ہے کیونکہ اس کے بغیر مشن پورا نہیں ہوسکتا۔ قلندر پر حملے کے مقدمے میں صفی اللہ مزاری کے ساتھ ڈاکٹر غلام مصطفیٰ مزاری کا بھائی عبدالستار مزاری( رہائشی بستی عبداللہ روجھان مزاری) اعجاز بنگلزئی، فاروق بنگلزئی ، تنویر احمد اور عمران عرف ذوالقرنین (رہائشی ڈیرہ الہ یار، بلوچستان) مفرور ہیں۔ ڈی آئی جی عامر فاروقی کے مطابق اس حملے میں داعش ملوث ہے۔ یہ مطلوب ملزم اپنے گھروں پر نہیں بلکہ فرار ہو چکے ہیں۔ امکان ہے کہ انھوں نے افغانستان میں کہیں پناہ حاصل کرلی ہے۔ کاؤنٹر ٹیررازم محکمے کی تفتیش ابھی تک نادر جکھرانی کے بیان کے گرد گھوم رہی ہے، استغاثہ کی جانب سے گذشتہ سال دسمبر کے دوسرے ہفتے میں انسداد دہشت گردی عدالت میں حتمی چارج شیٹ پیش کی گئی تھی جس میں 30 گواہوں کے نام دیے گئے ہیں جن میں پولیس اہلکار، ڈاکٹر اور ریوینیو افسر شامل ہیں۔ ڈی آئی جی سی ٹی ڈی عامر فاروقی پرامید ہیں کہ استغاثہ الزام ثابت کرنے میں کامیاب رہے گی کیونکہ پولیس کے پاس سی سی ٹی وی فوٹیج، جے آئی ٹی کی رپورٹ اور ملزم نادر جکھرانی کا اعترافی بیان موجود ہے۔

متعلقہ مضامین

Back to top button