مقالہ جات

سعودیہ اور امارات سردمہری سے کشیدگی کی جانب (انکشافات پر مبنی ایک رپورٹ اور تجزیہ )

سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے تعلقات میں ان دنوں ہلکی سے سردمہری کو عام آدمی بھی محسوس کرسکتا یے
ہوسکتا ہے کہ اس سردمہری میں آگے جاکر اس قدر اضافہ ہو کہ بات کشیدگی کی جانب چلی جائے اور متحدہ عرب امارات ،سعودی قیادت میں یمن کیخلاف بنائے گئے اتحاد سے الگ ہوجائے
آن لائن اخبار رای الیوم کا کہنا ہے کہ گلف میں موجود ان کے زرائع اس بات کو خارج از امکان قرارنہیں دے رہے ہیں کہ بات اس حد تک چلی جائے ۔
اخبار کے مطابق سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات میں موجود اختلافات کی وجہ یمن کی جنگ ،سعودی ترکی قربتیں اور اخوان المسلمون ہیں ۔
کہا جارہا ہے کہ گذشتہ چند ماہ میں شیخ زائد اور محمد بن سلمان کے درمیان کسی قسم کی براہ راست کوئی ملاقات انجام نہ پانے کی وجہ بھی یہی مسائل ہیں ۔
دوسری جانب ترکی اور سعودی عرب کی قربتیں بھی متحدہ عرب امارات کی پریشیانی میں اضافہ کررہی ہیں
واضح رہے کہ ابھی حال ہی میں ترک وزیر اعظم بن علی یلدرم کا دورہ سعودی عرب اور طرفین میں ہونے والی غیر معمولی ملاقاتیں کہ جس میں بن علی یلدرم اور سعودی بادشاہ کے درمیان دو مرتبہ ملاقاتیں ہوئیں جس میں ایک ملاقات بند کمروں میں انجام پائی تھی اور اس ملاقات کے بعد بن علی یلدرم کا کہنا تھا کہ جلد شہزادہ محمدبن سلمان ترکی کا دورہ کرینگے اور شائد اس ملاقات کا ہی اثر تھا کہ اردگان نے ایک بار پھر شام میں صدر بشار الاسد کیخلاف تند و تیز بیانات دینا شروع کردیا ۔
ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ سعودی ترکی یہ ملاقات اور خیر سگالی و بردارانہ جملوں کا تبادلہ ایک ایسے وقت میں ہورہا ہے کہ ترکی اور متحدہ عرب امارات کے درمیان تعلقات کی نوعیت سرد مہری سے نکل کرڈیپلومیٹک کشیدگی کی جانب چل پڑی ہے اور طرفین میں سخت زبان کا استعمال ہوررہا ہے
ایک جانب جہاں ابوظبی کے ولی عہد بن زائد نے ترک عثمانی دور کے سپہ سالار خیرالدین باشا پر الزام لگایا کہ اس نے مدینہ منورہ سے اسلامی اہم آثار کو چرا کر ترکی شفٹ کیا تھااور مدینہ منورہ میں قتل عام کیا تھاتو دوسری جانب اردگان نے جوابا انتہائی سخت الفاظ میں کہا تھا کہ او مایوس انسان جو ہم پر تمہت لگاتے ہو، تمہارے باپ دادا اس وقت کہا ںتھے جس وقت سلطان باشا مدینہ منورہ کا دفاع کررہا تھا ،تمہیں اپنی حد میں رہنا چاہیے ‘‘۔
اردگان دو اہم پیغام سعودیوں اور اماراتیوں کو دے چکاہے
الف:افریقی ممالک کا دورہ اور اہم عسکری و اقتصادی معاہدے کہ جس میں ایک اہم معاہدہ سوڈانی جزیرے سوکین Swakin Islandمیں ترک فوجی اڈہ قائم کرنا ہے جو کہ بحیرہ احمر پر ٹھیک یمن اور سعودی عرب کے ساحلوںکے آمنے سامنے واقعہ ہے ،اس معاہدے نے جہاں دوسرے افریقی عرب ملک یعنی مصر کو سخت چراغ پا کردیا اور مصر نے اس مسئلے کو لیکر سوڈان پر کڑی تنقید کی تو دوسری جانب سعودی عرب نے کسی بھی قسم کا تحفظات کا نہ صرف اظہار نہیں کیا بلکہ اس معاہدے کے ساتھ ساتھ بن علی یلدرم کا ریاض میں پرتپاک استقبال بھی کیاگیا ۔
واضح رہے کہ ترک فوجی اڈہ ایریٹریا اور یمن موجود اماراتی اڈوں کے انتہائی قریب بھی واقعہ ہے بات صرف یہاں پر ختم نہیں ہوتی بلکہ اسی اثنا میں ترک نئے فوجی دستوں کی ایک کھیپ قطر کے دارالحکومت دوحہ بھی پہنچ گئی تھی کہ جن کا رخ قطر میں موجود ترک عسکری اڈہ تھا ۔
ب:اسی دوران اردگان نے اچانک شام کے صدر بشارالاسد کیخلاف ایک بار پھر انتہائی سخت زبان کا استعمال کرتے ہوئے کڑی تنقید کا نشانہ بنایا اور کہا کہ شام میں امن بشارالاسد کے جانے سے ہی ہوگا
اردگان کا یہ بیان بن علی یلدرم کے دورہ سعودیہ کے ساتھ ساتھ سامنے آیا ہے اور ان دونوں میں ایک قسم کی مکمل ہم آہنگی پائی جاتی ہے
متحدہ عرب امارات کے وزیر برائے خارجہ امور انور قرقاش نے کھلے لفظوں اپنی ایک ٹیویٹ کے زریعے سعودی ترکی نزدیکیوں پر تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے اضافہ کیا کہ عرب ممالک کو عربی مرکز و محور کی جانب توجہ دینی چاہیے کہ جس کی اہم ستون ریاض اور قاہرہ ہیں ،مسلکی اور جماعتی گروہ کوئی اچھے نعم البدل نہیں ہوسکتے،دنیا ئے عرب کو انقرہ اور تہران یا کوئی بھی دارالحکومت نہیں چلاسکتا ۔
یہ بات واضح ہے کہ متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب میں کم ازکم خارجہ پالیسی کو لیکر اختلافات پیدا ہوچکے ہیں
سعودی عرب اپنی خارجہ پالیسی میں مسلکی اور فرقہ وارانہ عنصر کو نمایاں جگہ دے رہا ہے اور وہ یمن سمیت خطے میں مسلکی و فرقہ وارانہ بنیادوں پر اتحاد بنانے کو ترجیح دے رہا ہے جیساکہ یمن میں اس نے منصور ہادی اور اخوان المسلمون کی جماعت الاصلاح کے ساتھ اتحاد بنالیا ہے تو متحدہ عرب امارات یمن میں سیکولر اور لبرل گروہ کو اہمیت دیتا ہے یہی وجہ ہے کہ امارات شام کے صدر بشار الاسد کو ہٹانے میں مطلوبہ توانائی خرچ نہیں کررہا اور مصر میں صدر سیسی کو اس کی مکمل مدد حاصل ہے ۔
ترک سعودی قربتیں آگے جاکر خطے میں جاری بہت سے بحرانوں اور مسائل پر گہرے اثرات مرتب کرسکتی ہیں کہ جس میں اہم ترین ایشو شام کا ایشو ہے
بہت سے خلیجی تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ ترک سعودی قربتیں آگے جاکر قطر اور سعودی عرب کے درمیان جاری کشیدگی کے خاتمے کا بھی سبب بن سکتیں ہیں اگر ایسا ہوجاتا ہے تو اس کا نتیجہ متحدہ عرب امارات کی مکمل تنہائی کی شکل میں نکل آئے گا
ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ قطر بحران کے آغاز سے ہی قطر نے اپنے بچاو اور جوابی حملے دونوں میں زیادہ ترفوکس امارات کو ہی بنائے رکھا ہواتھایہاں تک کہ سعودی عرب اور امارات نے امن وامان اور فوجی تعاون کے لئےمشترکہ کمیٹی اماراتی – سعودی تعاون کمیٹی بنا ڈالی کہ جو درحقیقت خلیج تعاون کونسل کا نعم البدل سمجھی گئی اور یہاں سے قطر کے بیانات نے سعودیہ کی جانب بھی رخ کرنا شروع کردیا ۔
عرب زرائع ابلاغ کا کہناہے کہ امارات کی حاکم خاندان میں ایسی آوازیں مسلسل سنے کو مل رہی ہیں کہ سعودی عرب کے ساتھ اپنے تعاون کو کم کیا جائے اور یمن جنگ سے بھی باہر نکل آیا جائے اور مصرکے ساتھ تعاون کو بڑھادیا جائے ۔
تمام تر صورتحال اس بات کو واضح کرتی ہے کہ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات میں سرد مہری کشیدگی کی جانب جارہی ہے جو آگے جاکرمشرق وسطی میں موجود بحران میں مزید اضافہ کرسکتی ہے۔

متعلقہ مضامین

Back to top button