مقالہ جات

پاکستانی سپہ سالار کا دورہ ایران

آرمی چیف جنرل قمر باجوہ کا حالیہ دورہ ایران اور دورہ کے دوران ایران کی عسکری و سیاسی قیادت سے مختلف امور پر ہوئے مزاکرات کے حوالے سے آئی ایس پی آر کے جاری کردہ بیانات سے یہ امید پیدا ہوگئی ہے کہ بالآخر ہمارے پالیسی سازوں کو اس سچائی کا ادراک ہو ہی گیا ہے کہ جغرافیائی پڑوسی تبدیل نہیں ہوتے اور دور کے تعلق داروں کی خوشی کے لئے اپنی سرحدوں پر آگ کے الاؤ بھڑ کاتے رہنا دانشمندی ہر گز نہیں۔ دفاعی تعاون کی طویل دوستی بھری تاریخ رکھنے والے دونوں ممالک کے عوام صدیوں سے محبت و اخوت کے رشتوں میں بندھے ہوئے ہیں۔ قیام پاکستان کے بعد ایران وہ پہلا ملک تھا جس نے پاکستان کو تسلیم کیا اور اقوام متحدہ کی رکنیت کے لئے بڑھ چڑھ کر مدد کی 1965ء اور 1971ء کی پاک بھارت جنگوں کے دوران ایران کا برادر ملک پاکستان سے تعاون ہمیشہ یاد رکھے جانے والا ہے۔ ہمارے جو ارباب دانش ایران پر بھارت سے قربت اور تجارتی روابط بڑھانے کا اٹھتے بیٹھتے رونا روتے رہتے ہیں وہ اس امر سے نجانے کیوں انکار کرتے ہیں کہ امریکی پابندیوں کے ماہ و سال کے دوران ایران سے تجارت کے جتنے مواقع پاکستان کو حاصل تھے اتنے ہی بھارت کو پاکستان نے امریکہ کی خوشنودی کو اور بھارتی قیادت نے اپنے ملکی مفادات کو مقدم سمجھا اگران برسوں میں تیل کے بدلے مال کی ایران تجارتی سکیم کو پاکستان بھی کسی خوف میں آئے بغیر اپنا لیتا تو اربوں ڈالر کی بچت ہوسکتی تھی مگر ہمارے یہاں تو حالت یہ رہی کہ حکمران اپنی خواب گاہ میں جانے کے لئے بھی امریکی اجازت کے منتظر رہتے تھے۔ پیپلزپارٹی کے پچھلے دور میں جب صدر مملکت آصف علی زرداری نے پاک ایران تعلقات پر جمی برف بگھلاتے ہوئے ایران سے گیس اور گوادر میں آئل ریفائنری لگانے کے ساتھ تجارت بڑھانے کے معاہدے کئے تو بدقسمتی سے اس وقت کی عسکری قیادت کے ساتھ حزب اختلاف کے بعض حصوں نے بھی امریکہ اور چند دوسرے ممالک کی خوشنودی کے حصول کے لئے ان معاہدوں میں مین میخ نکالنا شروع کردی۔ حالانکہ یہ معاہدے وقت پر مکمل ہوجاتے تو گیس اور مہنگی پٹرولیم مصنوعات کے جس بحران سے آج ہم دوچار ہیں اس کا وجود نہ ہوتا۔
بہر طور دیر آئیددرست آئید اب اگر پاک ایران تعلقات کو ایک بار پھر 1960ء اور 1970ء کی سطح پر واپس لانے کی شروعات ہوئی ہیں تو اس پالیسی میں سے کیڑے نکالنے کی بجائے سیاسی حلقوں کو اپنے ملکی مفاد میں اس کی تائید کرنی چاہیئے بہت مناسب ہوتا اگر اس دورہ میں وزیر خارجہ بھی موجود ہوتے چلیں اگلے قدم پر سہی ہمارے دیگر ارباب اختیار اپنی وطنی ذمہ داریوں کا احساس کرتے ہوئے معاملات کو آگے بڑھائیں گے۔ یہ عرض کرنے میں کوئی امر مانع نہیں کہ پاک ایران دوستی، بہتر تعلقات کار اور مختلف شعبوں میں پرجوش روابط ہماری بھی ضرورت ہیں۔ ممالک سے تعلقات دو طرفہ مفادات پر استوار ہوتے ہیں ایران ہمارا پڑوسی ہے ہزاروں سالوں سے ایک دوسرے کے پڑوس میں رہنے والے نہ صرف ایک دوسرے کے جذبات بلکہ ترجیحات کو بھی بہتر انداز میں سمجھتے ہیں۔ ہم امید کرتے ہیں کہ پچھلے چند برسوں سے جو یہ تاثر بن رہا تھا کہ پڑوسیوں کے ہوتے ہوئے تنہائی کا شکار پاکستان کی قیادت بعض ایسے معاملات میں گردن پھنسا رہی ہے جن کے تباہ کن اثرات پاکستانی سماج کی بنیادیں ہلا کر رکھ دیں اب اگر انہیں زائل کرنے کی شروعات ہوئی ہیں تو اگلے قدم پر افغانستان کو بھی اسی نرم خوئی اور محبت بھرے جوش سے قریب لانے کی کوشیش ہوں گی۔ یہاں اس امر کا تذکرہ ازبس ضروری ہے کہ روس، چین اور ایران کے بنتے ہوئے موثر بلاک سے ہمارا عملی تعاون خود ہماری معشیت کے لئے سود مند ثابت ہوگا دور کے ڈھول کتنے سہانے ہوتے ہیں70
برسوں سے بجاتے سنتے یہاں تک آن پہنچے ہیں۔ اب وقت آگیا ہے کہ امریکی سامراج کے ساتھ ساتھ ان دوسرے اتحادوں سے بیس کوس کے فاصلے پر رہا جائے جو مسلم دنیا میں تصادم و نفرت اور بحرانوں کا دروازہ کھولنے کا سبب بنتے جارہے ہیں۔ اقوام کی برادری کے ارکان سے تعلقات میں اعتدال اور توازن کے ساتھ اگر اپنے ملکی مفاد کو مقدم سمجھا جائے تو خیر کے پہلو زیادہ برآمد ہوں گے۔ ہمیں امید ہے کہ آرمی چیف کا دورہ ایران، پاک ایران تعلقات کے نئے اور عملیت پسند دور کا آغاز ثابت ہوگا اور دونوں ممالک باہمی تعاون سے خطے میں دیرپا امن کے قیام اور ہمہ قسم کے تشدد کے خاتمے کے لئے موثر کردار ادا کریں گے۔

بشکریہ:حیدر جاوید سید

متعلقہ مضامین

Back to top button