سعودی عرب

سعودی عرب میں اپوزیشن کے وجود کی ایک عوامی کوشش ہے کمال خلف

سعودی عرب میں عوامی احتجاج کے لئے سوشل میڈیا میں غیر معمولی کمپئن جاری ہے لیکن کیا یہ کمپئن عملی شکل میں ڈھل سکتی ہے اور کیا عوام سڑکوں میں نکل احتجاج کرپائے گی ؟تو اس کا جواب اگر مکمل نفی سے نہ بھی دیا جائے تو کہا جاسکتا ہے کہ بہت مشکل ہے
احتجاج کی کال دینے والوں اور کمپئن چلانے والوں کے مطالبات کو اگر دیکھا جائے تو اس میں بھی کچھ اختلاف پایا جاتا ہے جہاں بہت سے لوگ سیاسی قیدیوں کی رہائی،سیاسی آزادی ،بے روزگاری،غربت و مہنگائی اور بے گھر افراد کے مسائل کا بیان کررہے ہیں
وہیں بہت سے دیگر پورے سسٹم اور نظام بادشاہت کو بدلنے کی بات کررہے ہیں
احتجاج کی یہ کال ایک ایسی صورتحال میں دی گئی ہے کہ ہاؤس آف سعود اس وقت سخت اندرونی بے چینی اور کشمکش میں مبتلا ہے
ہوسکتا ہے کہ احتجاج کی اس کال کا اثر ولی عہد کی جانب سے کی جانے والی تیز رفتار اٹھک پٹھک کو سست کرنے میں کامیاب ہو جو سابق ولی عہد بن نایف کو اقتدار سے ہٹا کر نظر بند کرنے اور نیشنل گارڈز کے سربراہ متعب کو ہٹانے کی کوشش کے بعد سے مسلسل جاری ہے
ماضی میں جتنی بھی احتجاجی کالز دی گئی ہیں وہ سوشل میڈیا اس آگے بڑھ نہ سکی ہیں
دوسری جانب ان تمام احتجاجی کال اور مومنٹ میں قیادت کا فقدان بھی واضح دیکھائی دیا ہے
جبکہ سعودی عرب جیسے قدامت پسند اور سخت گیر دینی ادارے کے اثرورسوخ رکھنے والے معاشرے میں اس قسم کی ہرکوشش کخلاف فورا فتوئے دیے جاتے ہیں کہ احتجاج ولی امر کی اطاعت کے دائرے سے خارج ہونا ہے اور ایک حرام و بدعت عمل ہے
اندرونی اور بیرونی خاص کر قطر کے ساتھ جاری مسائل نے احتجاج کرنے والوں نادر موقع ضرور فراہم کیا ہے لیکن کس قدر وہ اس موقعے سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں اس کا مشاہدہ 15ستمبر کو ہی کیا جاسکتا ہے
سعودی عوام کو شام عراق لیبیا یمن اور مصر کی مثالیں دیکر ڈرا جاتا ہے کہ بادشاہی نظام کے خاتمے کا نتیجہ تباہی بدامنی قتل و غارت گری کے سوا کچھ نہیں
کمپئن چلانے والوں کا پاس نہ تو خود اپنا موثر میڈیا ہے اور نہ ہی حامی میڈیا جو ان کی آواز کو اٹھا سکے جبکہ بادشاہ سینکڑوں چینلز عالمی و علاقائی سطح پر رکھتا ہے جو رائی کو پہاڑ اور رات کو دن کرنے میں سکنڈ نہیں لگاتے
کمال خلف ایک فلسطینی صحافی ہے جو المیادین چینل کے پروگرام المسائیہ سمیت رای الیوم سے وابستہ ہیں

متعلقہ مضامین

Back to top button