کون رخصت ہوگا۔۔۔بن نائف یا بن سلمان؟
امریکی اخبار ’’ وال سٹریٹ جورنال‘‘ ایک رپورٹ شائع ہوئی ہے جس میں کہا گیا ہےکہ سعودی ولی عہد محمد بن نایف پھر سے منظر عام پرآگئےہیں اوریوں لگ رہاہے کہ وہ اپنے ولایت عہدی سے دستبردار ہونے کوتیار نہیں اوربادشاہت کی گدی کواپنا حق سمجھتے ہیں۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ جس وقت سے سعودی فرمانروا شاہ سلمان بن عبدالعزیز سعودی تخت پربراجمان ہوئے ہیں(جنوری 2015ء) ان کا بیٹا اورولی عہد محمد بن سلمان نمایاں رہے، سعودی مملکت میں اقتصادی اصلاحات کی صورت بن گئے اوریمن پرجارحیت کی۔
مگر یہ دونوں کام (اقتصادی اصلاحات اوریمن کی جنگ) مشکلات سے دوچار ہیں، جس کی وجہ سےسعودی عرب میں فروغ پانےوالی باتیں(کہ محمد بن سلمان محمد بن نایف کو پیچھے چھوڑتے ہوئے نئے ولی عہد اوربعد میں سعودی فرمانروا بن جائیں گے)کمزور ہوگئی ہیں۔
وال سٹریٹ جورنال کےمطابق اس بات کو ہوا تب ملی جب سابق ولی عہد مقرن بن عبدالعزیز دستبردار ہوگئے جس کے بعد محمد بن سلمان کوموقع ملاکہ وہ سعودی گدی حاصل کرنے کی دوڑ میں شامل ہوجائیں۔علاوہ ازیں بن سلمان کی ولی عہدی اوربعد میںبادشاہت کے مواقع کو اس بات نے بھی تقویت دی جب موجودہ ولی عہد بن نایف ’’لمبی چھٹی‘‘ پررواں سال الجزائر چلے گئے تھے،سعودی عرب میں بھی جب بن نایف ہوتے تو وہ منظر عام سے دوررہے۔
مگر اب نہیں۔۔۔57ویں سالہ سعودی ولی عہد محمد بن نایف نے اقوام متحدہ یعنی ستمبر میں ترکی کادورہ بھی کیا جس میں شام اورایران کےحوالے سے ترک صدر رجب طیب اردگان سےبات چیت بھی ہوئی،علاوہ ازیں محمد بن نایف کی ملاقات امریکی فوجی عہدیداروں سے بھی ہوئی۔
اورحال ہی میں سعودی انٹیلی جنس کےسابق سربراہ ترکی الفیصل نےصاف طورپرواضح کردیا تھا کہ سعودی عرب میں گدی کی منتقلی منظم طریقے ہونے اوراس حوالے سےسعودی عرب کوکوئی پریشانی نہیں۔
شاہی محل کےایک عہدیدار کاکہنا ہےکہ ’’دونوں شہزادوں کےدرمیان اچھے تعلقات ہیں اورایک ساتھ مل کر کام کرتے ہیں۔ ان سب کے علاوہ حکمران خاندان کےایک اورفرد کاکہنا ہےکہ یہ بات درست ہےکہ بن سلمان کو کسی نہ کسی دن بادشاہ بننا ہےمگر یہ واضح ہےکہ سعودی بادشاہت کی اگلی باری محمد بن نایف کی ہی ہے۔آپ یہی دیکھ لیں کہ ولی عہد کےولی عہد کاسلوک کس طرح ہے جو پیسےخرچ کرنےپرفخر کرتے ہیں اورسعودی عوام کو کفایت شعاری برتنے کاحکم دے رہے ہیں،بن سلمان کا سلوک اورطریقہ کار آنے والے بادشاہ کا نہیں۔ امریکی اخبار کامزید کہنا ہےکہ سعودی عوام سعودی عرب میں حکمران خاندان کی سست روایات کےعادی ہوچکے ہیں،ان کے لیے 31 سالہ بن سلمان کا اس قدر تیزی سےآگے آنا فہم سےبالا تر ہے۔
مزید بران سعودی عوام شاہ سلمان کو 6 دہائیوں سے دیکھ رہی ہے اوربن نایف کو دودہائیوں سےمگر بن سلمان(جومنظر عام پر نئےکھلاڑی ہیں) کےحوالےسے کوئی فیصلہ نہیں کرپارہی۔
متعدد بار سعودی نظام پر تنقید کرنےکی وجہ سے جیل کاٹنے والے سعودی تجزیہ کار محسن العواجی کہتے ہیں ’’محمد بن سلمان میدان میں آنے والی ایک نئی شخصیت ہے اوراُن کےحوالے سے اس کم عرصے میں کوئی فیصلہ کرنا انتہائی مشکل ہے۔
وال سٹریٹ جورنال کامزید کہنا ہےکہ گذشتہ سال شروع ہونے والی یمن کی جنگ میں محمد بن سلمان نے علاقے میں اپنا زور دکھانے کی کوشش کی ،مگر اُن کو اس معاملے سخت شکست کاسامنا ہے کیونکہ حوثی ابھی انتہائی مضبوط پوزیشن میں ہے اورسعودی عرب کےاندرونی علاقوں تک ان کےمیزائل کی پہنچ ہے۔
سعودی عرب اقتصادی اصلاحات کا بھی اعلان محمدبن سلمان نےکیا تھا جس کےتحت سعودی عرب کا انحصار تیل کی آمد پر کم کرنےکی کوشش کادعوی کیاگیا تھا، اس پروگرام کو عوامی حلقوں میں کوئی پزیرائی نہیں ملی کیونکہ اس پروگرام کےتحت تنخواہیں کم کردی گئی۔
سعودی وکیل اوراکٹوسیٹ عبدالعزیز الجاسم کاکہنا ہےکہ ’’رواں سال کے شروع میں محمد بن سلمان کی یہ کوشش تھی کہ وہ مکمل طورپر محمدبن نایف کوہرا سکے مگر ان کوکئی مشکلات کاسامنا کرنا پڑا جن میں سے ایک یمن جنگ میں ناکامی ہے۔ علاوہ ازیں ملک ازسرنو اقتصادی بنیادوں کی تشکیل بھی مشکلات سے دوچار ہے جس کی سب سے بڑی وجہ عوام کا مسترد کرنا ہے،اوریہ وہ حالات ہیں جو محمد بن نایف کی منظر عام پ واپسی کےلیے بہترین تھے۔
آخر میں امریکی اخبار کا کہنا تھاکہ ’’محمد بن نایف بہت بڑی کوشش کی کہ سعودی عوام ان کو یمن جنگ سے مربوط نہ کریں اور نہ ہی اقتصادی اصلاحات سے، اوراس طرح اب یوں لگ رہا ہے کہ محمد بن سلمان ان ناکامیوں کا خمیازہ بھگتنا پڑےگا اوران ناکامیوں کےفوائد بن نایف کوحاصل ہوںگے۔بشکریہ: الوقت نیوز