مقالہ جات

نان سٹیٹ ایکٹرز کا ڈرامہ ختم ہونیوالا ہے؟

تحریر: تصور حسین شہزاد

وزیراعلٰی پنجاب شہباز شریف کی عسکری حکام کیساتھ ایپکس اجلاس کی کارروائی منظر عام پر آنے کے بعد ملک میں ایک نئی بحث چھڑ گئی ہے۔ اُدھر حکمران جماعت کے رانا محمد افضل نے حافظ سعید کا نام لے کر کہا "حافظ سعید کون سے انڈے دیتا ہے کہ جن کی وجہ سے ہم نے اسے پال رکھا ہے۔” انھوں نے مزید کہا کہ ملک کی خارجہ پالیسی کا یہ حال ہے کہ ہم آج تک حافظ سعید کو ختم نہیں کرسکے۔ کسی بھی ملک میں جائیں تو وہاں کے رہنما کہتے ہیں کہ حافظ سعید کی وجہ سے پاکستان اور بھارت کے درمیان تعلقات خراب ہیں۔ رانا افضل نے کہا کہ حافظ سعید ایسی شخصیت ہے، جو دنیا میں تو دندناتی پھر رہی ہے جبکہ پاکستان میں وہ کہیں نظر نہیں آتی۔ ایسی رکاوٹوں کو دُور کرنے کی ضرورت ہے، جس کی وجہ سے دنیا ہمیں تنہا کرکے شدت پسند ملک قرار دینے کی کوشش کرتی ہے۔ پارلیمانی کانفرنس کے دوران ایپکس کی اس خفیہ میٹنگ کا بھی پول کھول دیا گیا، جس میں شہباز شریف اور ڈی جی آئی ایس آئی کے درمیان نوک جھونک ہوئی۔ شہباز شریف نے ڈی جی آئی ایس آئی سے کہا کہ سول حکومت ان کیخلاف کوئی کارروائی کرتی ہے تو خفیہ ایجنسیاں دباؤ ڈالنا شروع کر دیتی ہیں۔ شہباز شریف نے یہ بھی کہا تھا کہ فوج کی زیر کنٹرول کام کرنیوالی خفیہ ایجنسیاں کالعدم تنظیموں کیخلاف قانون نافذ کرنیوالے اداروں کی کارروائیوں میں مداخلت نہ کریں۔

شہباز شریف کی یہ گفتگو اس بات کا مظہر ہے کہ مسلم لیگ نون اپنی پالیسی تبدیل کرچکی اور کالعدم لشکر جھنگوی کے سربراہ ملک اسحاق کی ساتھیوں سمیت ہلاکت بھی اس کا ثبوت ہے۔ سیکرٹری خارجہ اعزاز چودھری اس حوالے سے وزیراعظم ہاؤس میں سول اور عسکری قیادت کو الگ الگ بریفنگ بھی دے چکے ہیں۔ سیکرٹری خارجہ سے واضح کیا کہ دنیا میں جہاں بھی جاتے ہیں، ہمیں آئینہ دکھا دیا جاتا ہے کہ نان سٹیٹ ایکٹر پاکستان میں فعال ہیں۔ ان کیخلاف کارروائی کیوں نہیں ہوتی۔ پاکستان کی اسی پالیسی کے باعث عالمی سطح پر پاکستان کا امیج خراب ہو رہا ہے اور پاکستان سفارتی سطح پر تنہائی کا شکار ہو رہا ہے۔ پاکستان کے برعکس اگر بھارت کی بات کریں تو بھارت انتہائی چالاکی کیساتھ گیم کھیل رہا ہے۔ بھارت کشمیریوں پر مظالم بھی ڈھاتا ہے اور پھر خود اپنے فوجی بیس پر حملے کروا کر مظلوم بھی بن جاتا ہے۔ دنیا کی توجہ کشمیریوں سے ہٹ کر اس کے بیس پر مرکوز ہو جاتی ہے۔ اس موقع پر بھارت حافظ سعید اور مسعود اظہر کا نام لینا نہیں بھولتا۔ امریکہ حقانی نیٹ ورک کیخلاف کارروائی کا مطالبہ کر رہا ہے، بھارت کی جانب سے پٹھان کوٹ حملے کی تحقیقات اور کالعدم جیش محمد کیخلاف کارروائی کے مطالبات بھی سامنے آرہے ہیں۔ چین نے بھی حتیٰ پاکستان کو اپنی ترجیحات تبدیل کرنے کا اشارہ دیا ہے۔

آئی ایس آئی کے سربراہ نے بریفنگ میں یہ سوال اٹھا ہی دیا کہ پاکستان کو عالمی تنہائی سے بچانے کیلئے کیا کرنا ہوگا؟ جس پر اعزاز چودھری نے کہا کہ عالمی برادری کا سب سے اہم مطالبہ یہ ہے کہ جیش محمد، مسعود اظہر، حافظ سعید، لشکر طیبہ اور حقانی نیٹ ورک کیخلاف کارروائی کی جائے۔ جس پر ڈی جی آئی ایس آئی نے گرین سگنل دے دیا کہ حکومت جسے ضروری سمجھتی ہے اسے گرفتار کر لے، خفیہ ایجنسیاں مداخلت نہیں کریں گی۔ تاہم یہ واضح نہیں ہوا کہ انہوں نے یہ بات مذکورہ افراد اور تنظیموں کے حوالے سے کی ہے یا عمومی طور پر کالعدم جماعتوں کے ارکان سے متعلق، تاہم یہاں شہباز شریف نے مداخلت کی اور کہا ہم جب بھی کارروائی کرتے ہیں سکیورٹی اسٹیبلشمنٹ پس پردہ ان کی رہائی کی کوششیں شروع کر دیتی ہے۔ وزیراعظم نواز شریف نے مداخلت کی اور کہا کہ ماضی میں جو کچھ ہوتا رہا ہے، وہ حکومتی پالیسیاں تھیں، ڈی جی آئی ایس آئی کو موجودہ صورتحال کا ذمہ دار نہیں ٹھہرایا جا رہا۔

اجلاس میں یہ فیصلہ کیا گیا کہ کالعدم تنظیموں کیخلاف سخت کارروائی عمل میں لائی جائے گی اور جہادی تنظیموں نے (بہرحال) ملک کیلئے کام کیا ہے، اس لئے انہیں سیاسی دھارے میں لایا جائے گا۔ اگر جہادی قیادت سیاست میں آنا چاہے تو اسے یہ موقع بھی فراہم کیا جا سکتا ہے اور اگر وہ خاموشی سے گوشہ نشینی اختیار کرنا چاہے تو یہ بھی ان کی اپنی صوابدید ہوگی۔ دیکھا جائے تو ملک میں صورتحال کے بگاڑ کی ذمہ دار یہی جہادی تنظیمیں ہی ہیں، جنہیں اب قومی دھارے میں لایا جا رہا ہے۔ ان کے قومی دھارے میں آنے سے ماحول بہتر ہونے کے بجائے مزید خراب ہوگا۔ جہادی تنظیمیں ہی کالعدم جماعتوں کی سرپرستی کر رہی ہیں۔ دفاع پاکستان کونسل کی مثال ہمارے سامنے موجود ہے۔ کالعدم سپاہ صحابہ نئے نام کیساتھ فعال ہے اور دفاع پاکستان کونسل کا اہم حصہ ہے اور دلچسپ بات یہ ہے کہ پاکستان بنانے والے اہل تشیع کو پاکستان کے دفاع کیلئے شامل ہی نہیں کیا گیا۔

وہ سپاہ صحابہ جس نے ماضی میں دہشتگردی کا بازار گرم کئے رکھا، ہزاروں ڈاکٹرز، انجینئرز، بیوروکریٹس، اعلٰی افسران، ماہرین تعلیم اور ملک کی اہم ترین شخصیات کو نشانہ بنایا، آج نئے نام کیساتھ سیاسی دھارے میں موجود ہے۔ یعنی کل تک ملک کو خانہ جنگی کی آگ میں دھکیلنے والوں کو شریک اقتدار کیا جا رہا ہے۔ ان کے اقتدار میں آنے سے پھر وہی مذہبی منافرت اور انتہاپسندی کو فروغ ملے گا۔ یہ مخالف فرقے کے افراد کو برداشت نہ کرنے کیلئے اپنے ہتھکنڈے استعمال کریں گے۔ ملک میں عدم برداشت کا کلچر فروغ پائے گا اور ملک ایک بار پر ضیاءالحق کے دور میں واپس لوٹ جائے گا۔ یہ نان سٹیٹ ایکٹر ملک کیلئے ہر صورت میں خطرناک ہیں۔ جماعت الدعوۃ ہو یا جیش محمد، سپاہ صحابہ ہو یا لشکر جھنگوی، ان کا وجود ملک میں "تھور” کے پودے کی مانند ہے، جس کا فائدہ تو کوئی نہیں ہوتا البتہ اس سے نقصان ضرور ہوتا ہے۔

متعلقہ مضامین

Back to top button