سعودی عرب

سعودی عرب میں عورتوں کی ابتر صورتحال

شیعیت نیوز: سعودی معاشرے میں خواتین بنیادی حقوق سے محروم ہیں۔ بلکہ سعودی حکومت خواتین کے لیے انسانی حقوق کو قبول ہی نہیں کرتی۔ ذیل میں چند نمونے پییش کئے جارہے ہیں:

سعودی عرب دنیا کا ایسا ملک ہے جہاں پر خواتین کی شرح ملازمت سب سے کم ہے (13 فیصد)۔ عورتوں کو رسمی تجارت کی اجازت نہیں ہے۔ خواتین میجمنٹ کے عہدے پر کام نہیں کرسکتیں۔ کسی بھی طرح کا کام کرنے کے لیے خواتین کو وزارت امور اسلامی سے اجازت نامہ حاصل کرنا ضروری ہے۔ بعلاوہ اپنے سرپرست سے بھی قانونی طور پر اجازت لینا لازمی ہے۔ جو عورتیں ملازمت کرتی ہیں ان کی تنخواہوں کا اوسط مردوں کی تنخواہوں سے بہت کم ہے۔

سعودی عرب میں لڑکیوں کی جبری شادیاں عام سی بات ہے۔ لڑکیوں کے والدیں انہیں اطلاع دیئے بغیر کسی سے بھی ان کا نکاح کراسکتے ہیں۔ العربیہ ٹی وی چینل کے مطابق، دنیا بھر میں جبری شادیوں کے معاملے میں سعودی عرب سرفہرست ہے۔

سعودی عرب دنیا کا واحد ملک ہے جہاں پر عورتیں ڈرائیونگ نہیں کرسکتیں، مردوں میں تقریر نہین کرسکتیں، قبرستانوں میں انہیں جانے کی اجازت نہیں ہے، بینک اکاؤنٹ اپنے نام سے نہیں کھول سکتیں، ملکیت کو خرید سکتی ہیں نہ بیچ سکتی ہیں اور نہ ہی وہ عدالت میں کسی طرح کی شکایت کرسکتی ہیں۔

2015 تک سعودی عرب میں طلاق یافتہ خواتین کو نفقہ وغیرہ کے تعلق کوئی حق حاصل نہیں تھا اور سرپرست کی اجازت کے بغیر وہ اسکولوں میں اپنے بچوں کا بھی نام درج نہیں کراسکتی تھیں۔

2013 تک سعودی عرب مین خواتین کا مستقل شناختی کارڈ نہین بنتا تھا بلکہ ان کا نام والد یا شوہر کے شناختی کارڈ میں درج کیا جاتا تھا۔

2015 تک سعودی خواتین کو ووٹ دینے اور الیکشن میں امیدوار بننے کا حق نہیں تھا۔

سعودی عرب میں خواتین کے حجاب پر کافی سختی سے عمل کیا جاتا ہے۔ نو سال کی عمر سے ہی لڑکیوں کو چہرے کا حجاب کرنا ضروری ہوتا ہے۔ اور اگر ان کا چہرہ ظاہر ہوا تو انہیں جیل یا کوڑے کی سزا ہوسکتی ہے۔

صنفی علیحدگی پر اس حد تک سختی ہوتی ہے کہ ہنگامی صورتحال میں بھی مردوں کو لڑکیوں کے اسکولوں میں داخلے کی اجازت نہیں ہے۔ 11 مارچ 2002 کو شہر مکہ کے ایک اسکول میں آگ لگ گئی لیکن چونکہ فائر عملہ مردوں پر مشتمل تھا اور اسکول میں لڑکیاں تھیں اس لیے فائر عملہ عمارت میں داخل نہیں ہوپایا جس کی وجہ سے 15 لڑکیاں جھلس کر لقمہ اجل بن گئیں۔

لڑکیوں کے کھیل کے شعبوں میں بھی حصہ لینے کو معیوب سمجھا جاتا ہے۔ اسی لیے سعودی عرب میں خواتین کا کوئی مخصوص جمخانہ یا کلب نہیں ہے۔ اسی سبب سے سعودی عرب 1ء73 فیصد خواتین جسمانی ورزش سے محروم ہیں۔ پہلی بار جب سعودی عرب کی خواتین اولمپک کے کھیلوں میں حصہ لینے کے لیے لندن گئیں تو وہابی مفتیوں نے انہیں ‘فاحشہ’ کا خطاب دیا۔

دنیا میں کوئی بھی ایسا ملک نہیں ہے جس نے سعودی عرب کی مانند عورتوں کو اس حد تک ان کے حقوق سے محروم رکھا ہو۔ اس طرز فکر کا سرچشمہ تکفیریت اور وہابیت کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔ اس طرز فکر نے عورتوں کو اس قدر پست شمار کیا تھا کہ وہ ایک عرصے تک عورتوں کو انسان ہی نہیں سمجھتے تھے بلکہ وہ انہیں حیوانوں کی ایک صنف خیال کرتے تھے۔ حال ہی میں بعض روشن فکر وہابی علماء کی طرف سے ایک کانفرنس رکھی گئی تھی تاکہ اس موضوع پر تبادلہ خیال ہوسکے تو اس کانفرنس کا عنوان بھی ایسا رکھا گیا کہ انسانیت شرما جائے۔ کانفرنس کا عنوان تھا کہ ‘کیا عورت انسان ہے؟’۔ البتہ اس کانفرنس میں کوشش کی گئی کہ عورتوں کو انسان تصور کیا جائے۔

سعودی حکومت بھی وہابی مفتیوں کے نقش قدم پر چلتے ہوئے انہیں ان کے حقوق سے محروم رکھتی ہے۔ اور بار بار حقوق انسانی کی تنظیموں کے اعتراضات کے باوجود وہ اس پر توجہ نہیں دینے سے گریز کرتی ہے۔

بشکریہ: شچ ٹائمز

متعلقہ مضامین

Back to top button