مقالہ جات

دو سزائے موت : اوردغان اور سراج الحق کی دوغلی پالیسی

شیعیت نیوز:  بنگلہ دیش کے حکام نے منگلوار کے دن مطیع الرحمان نظامی ،کو جو اس ملک کی جماعت اسلامی کے رہنما تھے دہشت گردی کے امور میں مداخلت کا الزام عاید کر کے موت کے گھاٹ اتار دیا ۔

مطیع الرحمان کی عمر ۷۲ سال تھی اور سال ۲۰۰۰ سے وہ جماعت اسلامی کے رہنما تھے ،سال ۲۰۰۱ سے ۲۰۰۶ تک بنگلہ دیش کی مخلوط حکومت میں صنعت اور کھیتی باڑی کے وزیر تھے اور اسلام پسندوں کے ساتھ بھی شامل ہو گئے تھے ۔

مطیع الرحمان سال ۲۰۱۱ میں  ہندوستان کو ہتھیار اسمگل کرنے کے الزام میں گرفتار ہوئے اور جنوری ۲۰۱۴ میں ان کو موت کی سزا سنائی گئی تھی ۔

ان پر اس سے پہلے بھی قتل عام میں مداخلت کا الزام لگا تھا کہ جو بنگلہ دیش کی پاکستان سے جدائی کے موقعے پر ہوا تھا ۔ اس بنا پر اکتوبر ۲۰۱۴ میں انہیں دوسری بار موت کی سزا سنائی گئی کہ جس کی بنیاد بنگلہ دیش کی جدائی کے موقعے پر نسل کشی کا ارتکاب تھا ۔

جماعت اسلامی کے سربراہوں نے ان الزامات کو سیاسی قرار دیا اور ان کی موت کی سزا کے حکم پر اعتراض کیا تھا ، لیکن جب شیخ نمر کا سانحہ رونماہوا تھا تو انہوں نے اسے اندورنی معمالہ قرار دیدکر احتجاج کرنے والوں پر فرقہ واریت پھیلانے کا الزام عائد کیا۔

بین الاقوامی سطح پر جس شخص نے اس حکم کی مخالفت کی وہ ترکی کا صدر رجب طیب اردوغان ہے کہ جس نے اس سے پہلے سعودی عرب کے ایک نامور عالم کو موت کی سزا دیے جانے کو اس ملک کا اندرونی مسئلہ بتایا تھا ۔

ترکی کی سرکاری نیوز ایجینسی آنا تولی نے لکھا ہے کہ رجب طیب اردوغان نے جمعے کے دن بنگلہ دیش کے جماعت اسلامی کے رہنما کی پھانسی کی سزا کے حکم کی مذمت کی ۔

لیکن اردوغان ، جب سعودی عرب نے سعودی عرب کے ایک نامور عالم دین شیخ نمر کو موت کی سزا دی تو اس ملک کی مذمت کرنے کے لیے تیار نہ ہوا کہ جن کو دہشت گردی کے امور میں مداخلت کے جرم میں بے گناہ موت کے گھاٹ اتار دیا گیا تھا ۔

اردوغان نے ۶ جنوری ۲۰۱۵ بروز بدھوار کو شیخ نمر کو موت کی سزا دیے جانے کے بارے میں کہا تھا : موت کی یہ سزا سعودی عرب کی حکومت کا اندرونی مسئلہ ہے ۔سعودی عرب میں جو موت کی سزائیں دی جاتی ہیں وہ قبایلی تعصب کی بنا پر نہیں ہوتیں ۔

اس بنا پر اردوغان شام کے مسئلے میں سعودی عرب کے نزدیک ہونے کی وجہ سے اس بات پر تیار نہیں ہوا کہ سعودی عرب کے جید عالم دین کو موت کی سزا دیے جانے پر کہ جس کا جرم صرف یہ تھا کہ انہوں نے سعودی عرب کے حکام پر تنقید کی تھی ، ان کی مذمت کرنے کے لیے تیار نہیں ہوا ۔

اردوغان نے اس بار اس موت کی سزا کو بنگلہ دیش کا اندرونی مسئلہ قرار نہیں دیا اور کہا ؛ میں اس ذہنیت کی شدید مذمت کرتا ہوں جو اس طرح کے مجاہد کو موت کی سزا دینے کا فیصلہ کرتی ہے ۔ہمارا عقیدہ ہے کہ انہوں نے کوئی دنیاوی خطا بھی نہیں کی تھی ، اور ان سارے اقدامات کے باوجود ان کو موت کی سزا دیا جانا غیر جمہوری اور ظالمانہ اقدام ہے ۔

اردوغان کے بعد ترکی کی وزارت خارجہ نے بنگلہ دیش کی راجدھانی ڈھاکہ سے اپنے سفیر کو اس موت کی سزا پر اعتراض کرتے ہوئے واپس بلا لیا اور اعلان کیا ؛ ہم اس پھانسی کی سخت مذمت کرتے ہیں اس لیے کہ ہمارا عقیدہ ہے کہ مطیع الرحمان نظامی اس حکم کا حقدار نہیں تھا اور ہم خدا سے دعا کرتے ہیں کہ وہ اس پر رحمت کرے ۔ ۔

اسی سلسلے میں آنا تولی نیوز ایجینسی نے رپورٹ دی ہے کہ نقیب الرحمان ، مطیع الرحمان کے بیٹے نے ترکی کے وزیر اعظم کا اس موقف پر شکریہ ادا کیا ہے ۔

نقیب نے کہا کہ ترکی کے صدر نے جو موقف اختیار کیا ہے ہم اس کا شکریہ ادا کرتے ہیں ۔ وہ ہمیشہ دنیا میں ہر مظلوم کے ساتھ  کھڑے نظر آتے ہیں ۔اور شاید وہ دنیا میں واحد رہنما ہے کہ جو مظلوموں کی مدد کرتا ہے ۔اس نے ہمیشہ ،شام فلسطین اور بنگلہ دیش میں لوگوں کی مشکلات کا ذکر کیا ہے ۔

دوسرا نکتہ یہ ہے کہ جماعت اسلامی کے خارجی روابط کے ایک مسئول عبد الغفار عزیز نے کہا ہے کہ ترکی کے صدر کے علاوہ کہ جس نے اس اعدام کی سخت مذمت کی ہے دنیا کے کسی رہنما نے اس کی مذمت نہیں کی ۔

اس کے باوجودرجب طیب اردوغان نے شیخ نمر باقر النمر کو موت کی سزا دیے جانے پر اپنی آنکھیں بند رکھیں جب کہ دنیا کے جیسے ایران ،عراق ، لبنان ،سعودی عرب اور بحرین کے دینی رہنماوں نے اس اعدام کی شدید مذمت کی تھی ،جب کہ اردوغان اس کی مذمت کے لیے بھی تیار نہیں ہوا۔

متعلقہ مضامین

Back to top button