سعودی عرب

سعودی عرب میں جاری چند ملکی جنگی مشقوں کی آخری تقریب میں 33میں سے 11ممالک کے نمایندے یا سربراہ شریک تھے

شیعت نیوز ۔خاندان سعود کے بادشاہ سلمان کی دائیں اور بائیں جانب سعودی عرب کے ساتھ ملکوں کے تعلقات کی اہمیت کو مدنظر رکھتے ہوئے مختلف ممالک کے سربراہوں کو جگہ دی گئی تھی ۔
دائیں جانب پہلے کویت پھر قطر پھر سوڈان اور پھر مورتانیہ کے سربراہان بیٹھے تھے جبکہ بائیں جانب مصر پھر پاکستان کے سربراہ بیٹھے تھے ۔
گرچہ 33ممالک کے مدعوشدہ سربراہان میں سے 22ممالک غائب تھے لیکن سب کی نظریں دو اہم افراد کی تلاش میں ضرورتھیں یہاں تک کہ میڈیا کے کیمرے بھی انہیں تلاش کرتے رہے لیکن
اردن اور بحرین کے سربراہوں کا نشان نہ ملا سکا جبکہ ترکی ،لبنان الجزائرسمیت ان تمام ممالک کے سربراہ بھی غائب تھے جن پر سعودی خاندان اتراتا ہے اور ان کے بل پر خود تراشے ہوئے دشمنوں کو آنکھیں دیکھنانے کی کوشش کرتا ہے ۔
بیس ممالک کی مشترکہ مشقوں کا ہدف خود سعودی عرب کی جانب سے اعلان کردہ مقاصد کے مطابق کم ازکم اسرائیل کو پیغام دینا تو ہرگز ہرگز نہ تھا کہ وہ فلسطین کو آزاد نہیں کرتا تو کم ازکم ظلم بند کردے وگرنہ بیس ملکی فوج اور تنتیس ملکی نام نہاد اسلامی عسکری اتحادی لشکر اس کی بوٹی بوٹی کردینگے ۔
ان دنوں خاندان سعود نے اپنی ڈھگمگھاتی سلطنت کو بچانے کی خاطر’’ ایران فوبیا اور ’’مسلکی فوبیا ‘‘کھڑا گیا ہوا ہے اور ان مشقوں کے مقاصد میں بھی اسی فرضی فوبیا کو سرفہرست نہ کہیں تو کم ازکم دوسرے نمبر رکھا ہوا ہے ۔
قطراور مصر کے سربراہاں تین سے چار افراد کے فاصلے اور بادشاہ سلمان کو درمیان میں رکھ کر بیٹھے ہوئے تھے شائد اس بات کو خوف تھا کہ کہیں شمال کی گرج کا رخ ایک دوسرے کی جانب نہ کر بیٹھیں
کہیں پر کسی قسم کی کوئی خبر نہیں آئی کہ مصر اور قطر ی سربراہوں نے مصافحہ تک کیا ہو۔
شمال کی گرج یا نادرن تھنڈر نامی مشقوں میں شامل اکثر غریب ممالک کو سعودی عرب نے مالی امداد کے ساتھ شامل کیا تھا اور شائد ان کا م صرف خدمتکاروں کی حدتک ہی دیکھائی رہا تجزیہ کار کہتے ہیں ان مشقوں میں شریک اکثر ممالک کے ساتھ مالی نقد امداد یا پھر اقتصادی پروجیکٹس کے وعدے کئے گئے تھے جبکہ اس کے تمام اخراجات خود سعودی عرب نے اٹھائے ہیں ۔
کہا جاتا ہے کہ سعودی عرب اس وقت دوسروں پر کسی بھی حال میں نفسیاتی برتری کااحساس قائم رکھنے کی کوشش میں لگا ہوا ہے جو دراصل اس اندرونی شدید خوف کا عکاس ہے جسے وہ محسوس کررہا ہے
ماہرین کہتے ہیں کہ فرضی دشمن کو تراشنا اور پھر پورے زور کے ساتھ اسے ایک فوبیائی شکل دینا سعودی عرب کی ضرورت ہے کیونکہ وہ سمجھتا ہے کہ سعودی معاشرہ اس وقت مزید ایک خاندان کی سلطنت کو قبول کرنے کے لئے تیار نہیں ہے جبکہ دنیا کے اکثر ممالک خاص کر خود سعود خاندان کے درینہ ساتھی بھی سعودی عرب میں تبدیلی چاہتے ہیں ۔

متعلقہ مضامین

Back to top button