سعودی عرب

سعودی وزیر خارجہ کا دورہ اسرائیل کیا یقین دہانی کروائی؟

شیعیت نیوز:سعودی عرب کے اعلی درجہ حکام بادشاہ سے لے کر اس ملک کے امیروں تک بغیر کسی شرم و حیا کے اسرائیل کے ساتھ اپنے روابط کا کھل کر اظہار کر رہے ہیں اور اس کوشش میں ہیں کہ صہیونی دشمن کے ساتھ اپنے موقف کو نزدیک کر کے اور اس کے ساتھ مشترکہ مفادات تلاش کر کے اس حکومت کو اپنی صف میں ملحق کریں ۔

اسرائیلی دشمن کے آل سعود کے ساتھ پر جوش اور پختہ روابط منجملہ اعلی حکام کے ساتھ دو طرفہ ملاقاتیں  اب ڈھکی چھپی نہیں ہیں اور جب شاہ اور سعودی امیر اسرائیل کے ساتھ روابط سے شرم محسوس نہیں کرتے تو تل ابیب کے سامنے بھی سعودی عرب کے ساتھ اپنے روابط برملا کرنے میں کیا مشکل ہے ۔

اسی دوران اسرائیل ٹی وی کے چینل نمر ۱۰ نے گذشتہ روز فوجی نظارت کی ٹیم کی مرضی سے اس راز کو فاش کیا کہ  اسرائیل کی ایک اعلی رتبہ سرکاری کمیٹی نے کچھ ہفتے پہلے  اسرائیلیوں اور سعودیوں کی دوطرفہ ملاقاتوں کے چلتے  ریاض کا دورہ کیا ۔

اسرائیل اور سعودی عرب کے مشترکہ مفادات ،

اس خبر کے فاش ہو جانے سے علاقے اور شام کے حالات میں تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں یہاں تک کہ آشکارا ہو گیا ہے کہ اسرائیل اور سعودی عرب کے مشترکہ مفادات ہیں اور اس کے علاوہ ان کے مشترکہ دشمن بھی ہیں ۔

بہتر لفظوں میں ان ملاقاتوں کا پردہ فاش کرنے کا تل ابیب کا مقصد اعتدال پسند عرب ملکوں کے عمومی افکار کو لگام دینا ہے اور اس کے علاوہ یہ کہ اس کی کوشش ہے کہ اس طرح وہ ان ملکوں کے ساتھ خفیہ روابط سے ظاہری روابط کے مرحلے میں قدم رکھے اور یہی وہ چیز ہے کہ اسرائیل جس کے پیچھے ہے جیسا کہ بنیامین نیتن یاہو نے حال ہی میں اس کی خواہش ظاہر کی تھی ۔

ریاض کے ساتھ آشکارا روابط رکھنا اسرائیل کے لیے بہت  ضروری ،

ایسا دکھائی دیتا ہے کہ اسرائیل کی فوجی نظارت کی تنظیم اور سربراہان تل ابیب اس طرف متوجہ ہو گئے ہیں کہ سعودی عرب کے ساتھ روابط کو آشکارا کرنا ایک لازمی ضرورت  بن چکی ہے ۔ اور علاقے کی حالیہ تبدیلیوں کو مد نظر رکھتے ہوئے یہ کام جتنی جلدی ممکن ہو ہو جانا چاہیے اور اس کام سے اسرائیل عربوں کے ساتھ یا بہتر لفظوں میں سعودی عرب کے ساتھ روابط میں پیشرفت کرے گا اور مشترکہ خطروں کا مقابلہ کرنے میں ان سے استفادہ کرتے ہوئے ان کے ساتھ تعاون کر سکے گا اور ساتھی بنائے گا ۔

اس مرحلے تک منتقل ہونا یا سعودی عرب کے ساتھ روابط کو آشکارا کرنا نیتن یاہو کی سربراہی میں اسرائیل کے دائیں بازو والوں کے لیے مسئلہء فلسطین کے مقابلے میں ایک کامیابی شمار ہو گا اس لیے کہ نیتن یاہو اس تھیوری کا مروج ہے کہ سعودی عرب اور علاقے کے اعتدال پسند عرب ملکوں کے ساتھ روابط کی سطح میں اضافہ کر کے وہ مفت میں مسئلہء فلسطین کے حل کے مرحلے میں داخل ہو جائے گا اور اس طرح ضرورت نہیں رہ جائے گی کہ عربوں اور اسرائیل کے درمیان روابط استوار کرنے کے لیے پہلے مسئلہء فلسطین کو حل کرنا لازمی ہو اور اس طرح وہ بغیر کچھ دیے ہوئے خود مختار حکومت کو فلسطین کا مسئلہ حل کرنے پر مجبور کر دے گا ۔

اسرائیل ٹی وی کے چینل نمبر ۱۰ نے ایک اسرائیلی جماعت کے ریاض کے سفر کی جانب اشارہ کرتے ہوئے اعلان کیا ہے کہ اس جماعت کا سربراہ ایک اعلی اسرائیلی عہدیدار ہے اور اس سفر کے دوران اس جماعت نے سعودی عرب کے ساتھ انتہائی پر جوش اور صمیمی روابط کے دائرے میں اس ملک کے حکام کے ساتھ ملاقاتیں کیں۔

اس چینل نے اس چیز کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہ اس سفر کے جزئیات اور اس کے مقاصد کو بیان کرنا ممکن نہیں ہے اس لیے کہ اسرائیلی فوجی نظارتی تنظیم اس بات کی اجازت نہیں دیتی  لیکن ساتھ ہی اس نے تاکید کی کہ یہ سفر کچھ ہفتے پہلے انجام پایا تھا ۔

فلسطین کا مسئلہ سعودیوں کی سب سے آخری ترجیح ،

اس دوران اس اسرائیلی جماعت کے سعودی عرب کے دورے کے بارے میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ سعودی عرب کا بادشاہ ملک سلمان اور اس ملک کے نئئے امیر اسرائیل کے ساتھ روابط میں کوئی شرم محسوس نہیں کرتے اور فلسطین کے مسئلے پر ان کی کوئی توجہ نہیں ہے اور اس کو انہوں نے اپنی ترجیحات میں سب سے آخر میں رکھا ہے ۔

ایران کا مقابلہ کرنے کے لیے اسرائیل کی حمایت کی درخواست ،

سعودیوں نے ان ملاقاتوں کے دوران اسرائیلیوں کو اطمئنان دلایا کہ اسرائیل فلسطینوں کے ساتھ کیا کرتا ہے ان کو اس سے کوئی غرض نہیں ہے بلکہ وہ چاہتے ہیں کہ امریکہ کے مشرق وسطی کو چھوڑ دینے کے بعد اسرائیل کو تمام متعلقہ امور میں ریاض کے ساتھ ہو نا چاہیے ۔

لیکن اسرائیل کے چینل نمر ۱۰ نے یاد دلایا کہ یہ ملاقات کہ جو کئی ہفتوں کے بعد ہوئی ہے استثنائی نہیں ہے لیکن اسرائیل اور سعودی عرب کے روابط میں پختگی آئی ہے اس طرح کہ دونوں فریقوں کے درمیان متعدد ملاقاتیں ہوئی ہیں لیکن ان کے بارے میں بات نہیں کی جا سکتی ۔

بہر حال ان ملاقاتوں سے پتہ چلتا ہے کہ سعودی عرب اور خلیج فارس کے تمام عرب ملکوں اور اسرائیل کے درمیان روابط میں تا حد مطلوب حرارت اور گرمی پائی جاتی ہے ۔

اسرائیل کا علاقے کے اہل سنت ملکوں کے ساتھ روابط استوار ہونے پر اترانا ،

اس چینل نے اپنی رپورٹ میں مزید کہا ہے : اسرائیل نے علاقے کے سنی مذہب ملکوں کے ساتھ روابط استوار کر کے کہ جن میں انتہائی جوش و گرمی ہے جیسے مصر اور خلیج فارس کے عرب ملکوں کے ساتھ ، کامیابی حاصل کی ہے ۔

اس چینل کے اعلان کی بنا پر ہمارے اور ان کے مفادات ایک جیسے ہیں اور جو چیز اہل سنت ملکوں کو پریشان کر رہی ہے وہی اسرائیل کے لیے بھی پریشانی کا باعث ہے اور وہ ہے داعش کا مسئلہ اور انتہا پسند سنیوں کا اور ایران کی رہبری میں شیعوں کا مسئلہ ۔

اس چینل کی رپورٹ میں قابل ملاحظہ نکتہ اسرائیل کے ساتھ روابط کو آشکارا کرنے کے سلسلے میں سعودی عرب کا نظریہ ہے اس معنی میں کہ ان ملکوں نے اسرائیل کے ساتھ مخفیانہ روابط کو آشکار کرنے کو اس چیز سے مشروط کیا ہے کہ اسرائیل یہ ظاہر کرے کہ وہ فلسطینیوں کے ساتھ کشمکش کو حل و فصل کرنے کی تگ و دو میں ہے ورنہ یہ روابط بند کمروں میں ہی باقی رہیں گے ۔

اسرائیل کی لبنان کی حکومت سے ناراضگی ،

اس دوران اور ان حالات میں کہ جب حزب اللہ کے خلاف حالیہ حملے کو موجودہ حساس حالات سے غیر مربوط نہیں قرار دیا جا سکتا ،تل ابیب نے لبنان کی حکومت سے اور اس کا حزب اللہ کا مقابلہ کرنے سے پرہیز کرنے سے ناراضگی کا اظہار کیا ہے ۔

اسرائیل کے سفیر کا جنوب لبنان میں حزب اللہ کے ارکان کی موجودگی پر اعتراض ،

اس نے ان دو ایک جیسے خطوط میں وضاحت کی ہے کہ اقوام متحدہ کی قرار داد نمبر ۱۷۰۱ کے بر خلاف لبنان کی حکومت جنوب لبنان میں حزب اللہ کی سرگرمی کو روکنے کے لیے کچھ نہیں کر رہی ہے اس لیے کہ اس گروہ کے مسلح افراد آزادی کے ساتھ ان علاقوں میں آ جا رہے ہیں اور اقوام متحدہ صرف خلاف ورزیوں کا تماشہ دیکھ رہی ہے اور کوئی اقدام نہیں کر رہی ہے ۔

اسرائیل کے اس عہدیدار نے یہ تاکید بھی کی کہ اسرائیل وقت آنے پر اس کے خلاف رد عمل دکھائے گا ۔

اس نے اپنے خط کو اعدادو شمار کی فہرست کے ساتھ ضمیمہ کیا کہ جس میں حزب اللہ نے سال ۲۰۱۵ میں جو خلاف ورزیاں کی ہیں ان کی تفصیل بتائی گئی ہے ۔اس فہرست کی بنا پر اسرائیل نے ۲۳۷۴ خلاف ورزیوں کی نشاندہی کی ہے ،اس کے علاوہ ۱۰۷۹ بار حزب اللہ کے افراد کی جنوب لبنان میں آزادی کے ہتھیاروں سمیت آمد و رفت کو نقل کیا ہے ۔جو اسرائیل کے زعم ناقص میں قرار داد نمبر ۱۷۰۱ کی خلاف ورزی ہے ۔

اسی طرح ۶۵۳ بار حزب اللہ کے فوجیوں کی طرف سے اسرائیل کی گشتی ٹولیوں پر حملے کیے جانے کو لکھا گیا ہے ۔

دینین نے اس سے پہلے بھی اقوام متحدہ کے جنرل سیکریٹری کو خط لکھ کر اس سے مطالبہ کیا ہے کہ حزب اللہ کے جنرل سیکریٹری سید حسن نصر اللہ نے خلیج حیفا میں آمونیاک کے کینٹینروں پر حملے کی جو دھمکی دی ہے اس کی مذمت کی جائے اس لیے کہ اس خلیج پر حملے کا حادثہ اگر رونما ہو جاتا ہے تو دسیوں ہزار افراد موت کے گھاٹ اتر جائیں گے اور آٹھ لاکھ سے زیادہ افراد زخمی ہو ں گے ۔

بان کی مون نے بھی تیزی کے ساتھ اس کی درخواست کا جواب دیا اور حزب اللہ کی دھمکیوں کی مذمت میں ایک بیان صادر کیا ۔

لیکن دو پیغام کہ جو اسرائیل کے سفیر نے اس وقت صادر کیے ہیں اور ان میں حزب اللہ کی طرف سے خلاف ورزیوں کے دلایل پیش کیے گئے ہیں اور جنوب لبنان میں اس کے افراد کی موجودگی کو لے کر اسرائیل نے ناراضگی کا اظہار کیا ہے ان کی کوئی واضح دلیل نہیں ہے ۔         

متعلقہ مضامین

Back to top button