مقالہ جات

خدارا کچھ تو شوچیں !!حصہ دوم

تحریر :توقیر حیدر
ایران و سعود ی عرب کے درمیان اختلافات اتنے گہرے نہیں ہیں کہ ان کے مطالعہ کے لئے تاریخ کی الماریوں اور کتابوں کو کھنگالنا پڑے، یہ اختلافات ابھی ہم تک ہی محدود ہیں، لیکن آنے والی نسلوں کو ایران و سعودیہ کے اختلافات پر تاریخ کے مطالعہ کی ضرورت پیش آئے ۔

عرب ممالک اپنی بادشاہت کو بچانے کے لئے کچھ بھی کر گزرنے کو آماد ہ تھے کیونکہ انقلاب سے پہلے ایران کو خطے کی ایک بڑی طاقت سمجھا جاتا تھا،اس ملک میں شاہی نظام کے سقوط نے پوری دنیا خصوصاً امریکا، اسرائیل اور عرب ممالک کو لرزہ بر اندام کردیا، چھے ایسے واقعات ہیں جو تعلقات کی تیرگی کا باعث بنے۔

ایران عراق جنگ کے دوران عراق کی مالی حمایت

ایران پر مسلط کردہ ۸ سالہ جنگ میں آل سعود نے صدر صدام حسین کی ہر طرح سے مالی امداد کی ، یہ جنگ 1980میں شروع ہوئی اور 1988میں ختم ہوئی، اگرچہ جنگ کے ختم ہونے کے بعد دونوں ملکوں کی فضا کو سرد جنگ نے چاٹ لیا،امریکا نے سعودی عرب کو ایران کے خلاف ہر قسم کی سیاسی و نظریاتی ہتھیار استعمال کرنے پر اکسائے رکھا، اس جنگ کے دوران نہ فقط آل سعود نےبلکہ تقریباً تمام ممالک نے صدام حسین کو جنگی وسائل فراہم کیئے۔

خدا کے مہمانوں کا قتل عام

خدا وند متعال نے قرآن کریم میں ارشاد فرمایا
‘اور حج اکبر کے دن اللہ اور اسکے رسو ل کی طرف سے لوگوں کو آگاہ کیا جاتا ہے کہ اللہ مشرکوں سے بیزار ہےاور اسکا رسول بھی (ان سے دست بردار ہے)۔ سورۃ التوبۃ آیت نمبر ۳

آیہ مجیدہ کے مطابق عمل کرتے ہوئے ایرانیوں نے سعودی عرب کے حکمرانوں سے باقاعدہ مذاکرات کئے کہ انہیں اسکتبار جہانی کے خلاف صدائے احتجاج بلند کرنے کے لئے روٹ پرمٹ دیا جائے، سعودی حکمرانوں نے یہ اجازت نامہ دے دیااور جگہ بھی پہلےسے نشان دہی کردی گئی، اس احتجاجی ریلی میں اکثر ایرانی حجاج ہوتے جبکہ پاکستان اور دیگر ممالک کے افراد بھی شامل ہوجاتے ، چند گھنٹوں میں احتجاج ختم ہوجاتا اور یون حجاج کرام پرامن طریقہ سے منتشر ہوجاتے، احتجاجی نعروں میں امریکا ،اسرائیل اور انگلینڈ وغیرہ سے بیزاری کا اعلان کیا جاتا۔ کسی بھی شخص ،قوم یا ملک کے کسی کام یا کردار کو ناپسند کرتے ہوئے بیزاری کا اظہار تبریٰ کہلاتا ہے۔
چوں کہ ریلی میں امریکا اور اسرائیل سے بیزار ی کا اعلان کیا جاتا تھا لہذا یہ بات امریکا اور اسرائیل کو پسند نہ آئی اور انہوں نے سعودی عرب کے فرمان روا ملک فہد بن عبدالعزیز کو ایرانی حجاج پر فائرنگ کرنے پر اکسایا، جوںہی ہزا ر ہا حاجیوں مقرر رستوں اور اوقات کے مطابق پہنچےتو عرب فوجیوں نے حاجیوں پر آندھا دھند فائرنگ کر دی جس کے نتیجے میں 402حاجی شہید ہوگئے، جن میں سے 275ایرانی تھے، اس واقعہ کے بعد 4سال تک سفارتی تعلقات منقطع رہے اور تین سال تک ایرانیوں کوحج بھی نہیں کرنے دیا گیا۔

ایران ایٹمی پروگرام
جب عرب ممالک کو ایران کے ایٹمی پروگرام کی مصدقہ اطلاع مل گئی تو انہوں نے اس پروگرام کو عرب ممالک کے خلاف قرار دیا، ادھر 2003میں صدام حسین کا تحٹہ الٹ دیا گیاجسکے نتیجے میںایک اور طاقتور ملک شیعی اکثریت کے نام سے اُبھرا ،اب وہی ملک نظریاتی بنیادیوں پر ایران کی طرف مائل ہوگیا، اس فکری و سیاسی و عقیدتی رجہاں اور ہم بستگی نے جلتی پر تیل کا کام کیا۔
جبکہ ایران یہ واضح کرچکا تھا کہ اس کا ایٹمی پروگرام نہ صرف پرامن ہے بلکہ ایٹم بم جیسے تباہ کن ہتھیاروں کی تیاری کو شرعاً حرام سمھجتا ہے۔

سعودی فوجیوں کا بحرین میں گھسنا
آل خلیفہ کے ظلم و ستم اور بادشاہی فکر نے وہاں کے عوام کو مجبور کیا کہ و ہ مل جل کر ایک سیاسی جمہوری تحریک چلائیں، ملک میں جہموری حکومت قائم کی جائے اور آل خلیفہ کو معزول کردیا جائے، چنانچہ مارچ 2011 پورے بحرین میں لوگوں نے آل خلیفہ کی حکومت کے خلاف مظاہرے شروع کردیئے، حالا ت کنڑول میں نہ آتے دیکھ کر آل خلیفہ نے سعودی حکومت سے فوجی امداد طلب کی اوریوں سعودی فوج اپنے مسلمان بھائیوں کا خون بہانے کے لئے بحرین میں داخل ہوگئی،آل خلیفہ نے سعودیوں کو آمادہ کیا کہ چونکہ بحرین میں ۸۰ فیصد تک شیعہ آبادی ہے لہذاعوامی تحریک کو تشدد کے ساتھ روک دیا جائے، بحرینی شیعوں کا  یہ قتل عام دونوں ممالک میں موجود تناو کو کئی گنا بڑھا گیا۔
سعودی عرب کا ایران دوست ملک یمن پر حملہ
مارچ 2015میں سعودی عرب نے اپنے دوست ممالک کو جمع کرکے جنگی سیاسی الائنس تشکیل دیا اور یمن پر چڑھائی کردی، یمن کے کئی شہروں پر شدید بمباری کی گئی جس میں ہزاروں یمنی اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے، ۲ ملین لوگ متاثر ہوئے اور ابھی تک یہ جنگ جاری ہے، اس جنگ نے بھی ایران سعودی تعلقات پر کاری ضرب لگائی۔

آیت اللہ شیخ باقر النمرکی گرفتاری و شہادت
مارچ ۲۰۱۲ میں سعودی پولیس نے عرب شیعی آباد ی میں کارروئی کی اور حکومت مخالف افراد قید کرلیے، مظاہروں اور احتجاج کی قیادت شہید آیت اللہ باقر النمر نے کی اور یوں انکو بھی گرفتار کرکے زندان میں ڈال دیا گیا، اور انہیں سزائے موت سنادی گئی، سزائے موت کو ختم کروانے کے لئے دنیا کے کئی ممالک اور کئی آزادی پسند تحریکوں نے سعودی عرب سے رابطہ قائم کیا لیکن ساری کوشیش بے سود ثابت ہوئیں اور جو حالیہ دنوں میں ہوا وہ سب پر عیاں ہے۔
آیت اللہ باقر نمر کی سزائے موت نے پوری دنیا میں ہلچل مچادی ہے اور خطہ میں دو برادر اسلامی ملک ایک دوسرے سے لڑ نے کے لئے تیار کھڑے ہیں، پاکستان کو ثالث کا کردار ادا کرنا چاہئے ورنہ خطہ میں کوئی بڑا سانحہ بھی رونما ہوسکتا ہے، اگر یہ جنگ ہوئی تو پاکستان کا صرف ایک کردار ہے یعنی (ثالث)۔

متعلقہ مضامین

Back to top button