مقالہ جات

داعش، موصل سے لال مسجد تک

عراقی وزیراعظم حیدر العبادی نے رمادی میں داعش کی شکست کے بعد کہا ہے کہ 2015ء آزادی کا سال ہے، خدا نے چاہا تو 2016ء اہم ترین کامیابیوں کا سال ہوگا اور حتمی فتح کا سال ہوگا، عراقی سرزمین سے نام نہاد دولتِ اسلامیہ کا خاتمہ ہو جائے گا اور انھیں شکستِ فاش ہوگی، دوسرے مرحلے میں عراقی افواج موصل شہر کو داعش کے قبضے سے خالی کروائے گی۔ عراقی فوج کمزور اور غیر منظم ہونے کے باوجود اسرائیل، ترکی اور سعودی عرب کی پشت پناہی سے عراق اور شام میں تباہی مچانے والی تکفیری تنظیم کو شکست دے رہی ہے۔ جب موصل میں داعش کے دہشت داخل ہوئے تھے تو تکفیریوں نے اعلان کیا تھا کہ وہ جلد بغداد، کربلا اور نجف پر قبضہ کر لیں گے۔ اس کے ردعمل میں عراقی عوام سڑکوں پر نکل آئے اور قلیل مدت میں لاکھوں رضاکار داعش کیخلاف لڑے کے لئے مختلف محاذوں پر پہنچ گئے، کیونکہ عراق میں پاکستان کی طرح ایک مضبوط اور منظم آرمی موجود نہیں تھی۔ اس کے برعکس پاکستان ایک ایٹمی طاقت ہونے کیساتھ ساتھ دنیا کی مضبوط ترین فوج کا حامل ملک ہے۔ اسکے باوجود دہشت گردوں کا قلع قمع کرنے میں مکمل کامیابی حاصل نہیں کی جاسکی۔ اسکی کئی وجوہات ہیں، لیکن بڑی وجہ دہشت گردی کیخلاف آپریشن سولین حکومت کی اولین ترجیح نہیں اور دوسرا پاکستان کی ملٹری اسٹیبلشمنٹ کا بعض عرب ممالک کیساتھ نادیدہ اتحاد ہے، جسکی وجہ سے کئی محاذوں پر فوجی آپریشن کی پالیسی ابہام کا شکار نظر آتی ہے، پاکستان میں طالبان، داعش، القاعدہ اور حزب التحریر جیسے گروپ اسی سے فائدہ اٹھا رہے ہیں۔

گذشتہ سال دسمبر میں پاکستان آرمی کے پبلک اسکول پر کالعدم تحریک طالبان پاکستان نے حملہ کیا اور اسکے جواب میں آرمی چیف کے حکم پر حکومت نے دہشت گردوں کو پھانسیاں دینے کا اعلان کیا۔ پورا ملک غم، غصے اور سوگ میں مبتلا تھا، ضرب عضب عروج پہ تھا، رائے عامہ مکمل طور پر دہشت گردوں کے خلاف ہوچکی تھی، میڈیا کسی دہشت گرد گروپ اور انکے وکیلوں کو کوریج نہیں دے رہا تھا کہ اچانک لال مسجد اسلام آباد کے سرکاری خطیب مولانا عبدالعزیز نے میڈیا پہ بات کرتے ہوئے کہا کہ پشاور میں شہید ہونے والی بچوں کی شہادت کوئی ظلم نہیں اور نہ دہشت گردوں کے خلاف کارروائی میں شہید ہونے والے پاک فوج کے جوان شہید ہیں۔ اسی دوران داعش کے ذرائع نے یہ دعویٰ بھی کیا کہ عراق میں ایک کیمپ پاکستانی مجاہدین کے لئے بھی قائم کیا گیا ہے۔ گذشتہ برس بلوچستان کے محکمِۂ داخلہ نے یہ رپورٹ جاری کی کہ کالعدم لشکرِ جھنگوی کے تعاون سے داعش کا مقامی ڈھانچہ وجود میں آچکا ہے اور بلوچستان و خیبر پختونخوا سے متصل قبائلی علاقوں میں لوگوں کی بھرتی کا کام زوروں پر ہے۔ بلوچستان کے وزیرِ داخلہ سرفراز بگٹی نے اس رپورٹ کے اجرا کی تصدیق کی، مگر چند روز بعد ہی اوپر کے دباؤ پر یہ رپورٹ دبا دی گئی۔ پشاور کے آرمی پبلک اسکول پر حملے کے ایک ہفتے کے اندر اندر لال مسجد کے تحت جامعہ حفصہ کی درجن بھر نقاب پوش طالبات کی ایک ویڈیو بھی سامنے آئی، جس میں وہ ابوبکر البغدادی کے نام پر بیعت کرتے ہوئے انھیں پاکستان آنے کی دعوت دے رہی ہیں۔ لال مسجد کے امام مولانا عبدالعزیز کے متنازع بیانات پر مقدمات بھی درج ہوئے اور ایک عدالت نے انھیں اشتہاری ملزم بھی قرار دے دیا، پاکستانی وزیر داخلہ نے ہمیشہ لال مسجد کی وکالت کی اور عدالتوں کو مورد الزام ٹھرایا۔

پنجاب کے وزیر داخلہ شجاع خانزادہ ملک اسحاق گروپ کیخلاف کارروائی کی بھینٹ چڑھ گئے لیکن وفاقی حکومت ٹس سے مس نہیں ہوئی۔ جب سے یمن میں جنگ شروع ہوئی اور سعودی شہنشاہیت کے تحفظ کے نام پہ درپردہ معاہدے کئے گئے ہیں، اسوقت سے پاکستان کے تمام بڑے شہروں میں دہشت گردوں کے نیٹ ورک نمودار ہو رہے ہیں۔ دبئی سے لشکر جھنگوی کے دہشت گردوں کو واپس لا کر لاہور میں پار کیا گیا، لیکن داعش کے ساتھ دیرینہ تعلقات والے گروپ کا پنجاب حکومت کو معلوم نہ ہوسکا۔ سندھ کے محکمہ پولیس نے ایک سے زائد بار نشاندہی کی کہ دہشت گردی کے واقعات کے پیچھے داعش سے متاثر مقامی گروہوں کا ہاتھ ہے۔ سانحہ صفورہ گوٹھ کے ملزموں کو بھی اسی زمرے میں رکھا گیا۔ کراچی کی ایک پرائیویٹ یونیورسٹی کے انتظامی سربراہ عادل مسعود بٹ اور ایک اور تعلیمی ادارے کے تین اساتذہ کو بھی داعش سے تعلق کے شبہے میں حراست میں لیا گیا۔ ایسی خواتین کے گروہ بھی سامنے آچکا ہے جو دہشت گردوں کی شادیاں کروانے کیساتھ ساتھ، رابطہ کاری اور چندہ جمع کرنے کے مشن پر تھیں۔ ان میں سانحہ صفورہ کے مرکزی ملزم سعد عزیز اور سہولت کار عادل مسعود بٹ کی بیگمات بھی شامل ہیں۔ اسی طرح پنجاب پولیس نے تین روز قبل سیالکوٹ سے داعش کی بیعت کرنے والے آٹھ نوجوانوں کی گرفتاری کا دعویٰ کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ نیٹ ورک کئی اضلاع میں پھیلانے کی کوشش ہو رہی ہے اور مختلف طریقوں سے چندہ بھی جمع کیا جا رہا ہے۔ پنجاب کے صوبائی وزیرِ قانون رانا ثناء اللہ نے ان گرفتاریوں کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ ملزم شام میں مقیم ماسٹر مائنڈ امیر معاویہ سے سکائپ اور دیگر طریقوں سے رابطے میں تھے۔

پاکستانی سرحد سے متصل افغان صوبے ننگرہار اور کنڑ میں داعش کا نفوذ گذشتہ ایک برس میں تیزی سے پھیلا اور اب تو ننگرہار میں داعش کے تحت ریڈیو خلافت کی ایف ایم نشریات پاکستان کے سرحدی علاقوں میں بھی سنی جاسکتی ہیں۔ کل ہی پنجاب پولیس نے یہ بھی تصدیق کی کہ لاہور کی تین خواتین جن کی گمشدگی کے بارے میں چند روز پہلے ایف آئی آر درج کی گئی تھی۔ اب پتہ چلا ہے کہ اپنے بچوں سمیت شام منتقل ہوچکی ہیں۔ اسکے علاوہ داعش کو نقل و حمل کی تمام تر سہولیات باہم پہنچانے والے ملک ترکی کے حکام نے بھی تین روز قبل بتایا کہ داعش کے تین سرکردہ افراد کو حراست میں لیا گیا ہے، جن میں سے دو کا تعلق پاکستان سے ہے۔ وفاقی حکومت اور تخت پنجاب کی پالیسی کے دوغلے پن کا اس سے بڑھکر اور کیا ثبوت ہوسکتا ہے کہ لال مسجد کی خواتین نے ویڈیو اور آڈیو بیانات کے ذریعے داعش کے امیر کی بیعت کا اعلان کیا اور وفاقی وزیر داخلہ یہ کہہ کر انکے خلاف کارروائی سے انکار کرتے رہے کہ ہمارے پاس انکے خلاف مقدمہ قائم کرنے کے لئے کوئی ثبوت نہیں، اگر ہم گرفتاریاں کریں گے تو سخت ردعمل آئے گا اور امن امان کی صورتحال خراب ہو جائے گی۔ لیکن جب لاہور میں لشکر جھنگوی کے ایک درجن سے زائد گروپوں نے رائے ونڈ محل کو گھیر لیا تو صرف چھ ماہ سے ایک سال کے عرصے میں آٹھ سے زیادہ پولیس کارروائیوں میں پنجاب کے مختلف علاقوں سے تعلق رکھنے والے مرد و خواتین دہشت گردوں کو جعلی مقابلوں میں اڑا دیا گیا۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اسلام آباد پولیس نے آج تک داعش کا نام لیکر بیان جاری کرنے والوں کیخلاف کارروائی کیوں نہیں کی۔ نہ صرف یہ کہ اسلام آباد میں داعش دہشتگرد گرد عناصر کیخلاف کارروائی نہیں کی گئی بلکہ لاہور میں ایسے تمام گروپوں کو نظر انداز کیا گیا، جو براہ راست شریف فیملی کے لئے دھمکاوے اور خطرے کا باعث نہیں بنے، بلکہ ایسا لگتا ہے کہ انکا وجود اور سرگرمیاں جیسے سکیورٹی اداروں کے علم میں بھی نہیں تھیں۔ لاہور کے دل میں موجود پنجاب یونیورسٹی سے تعلق رکھنے والے اساتذہ اور طالب علم پنجاب میں داعش کو منظم کرتے رہے اور پنجاب پولیس خادم اعلٰی کی فیملی کو پرٹوکول دینے میں مصروف رہی۔ دوسری طرف وفاقی وزیر داخلہ تو ایک سال سے یہی کہہ رہے ہیں کہ داعش کا پاکستان میں کوئی وجود نہیں۔ جیسے اسلام آباد، لاہور، سیالکوٹ اور کراچی پاکستان کا حصہ ہی نہ ہوں۔ سارے حقائق کو مدنظر رکھیں تو یہ بات آسانی سمجھ آتی ہے کہ یہ داعش کی کمزوری اور غفلت ہے کہ وہ موصل پر قبضے کے بعد لاہور اور اسلام آباد کا رخ نہیں کرسکے، ورنہ لیگی حکمران تو انکا استقبال کرنے کے لئے تیار بیٹھے ہیں، لیکن پاکستان میں داعش کے نام کیساتھ ترکی کا نہیں انڈیا کا نام نتھی ہے، بس یہی ایک رکاوٹ ہے کہ ان لوگوں کے خلاف کارروائی عمل میں لائی جائے گی، کیونکہ ملک اسحاق اور غلام رسول شاہ نے جب داعش سے عہد و پیمان کیا تو ان پر یہ بنیاد بنا کر ہاتھ ڈالا گیا کہ یہ را کیساتھ مل گئے ہیں، ورنہ جب تک وہ پاکستانی عوام خلاف قاتلانہ کارروائیاں کرتے رہے، انہیں نظر انداز کیا جاتا رہا۔

متعلقہ مضامین

Back to top button