پاکستان

اسلام آباد کی ۹۰ فیصد مساجد و مدارس حکومت کے کنٹرول میں نہیں

اسلام آباد: وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کی تقریباً 90 فیصد مساجد، اماموں یا علاقہ مکینوں کی اپنی مدد آپ کے تحت چلائی جارہی ہیں، جس کے باعث حکومت کا اُن پر کوئی اثر و رسوخ نہیں۔

نیشنل ایکشن پلان کے تناظر میں وزارت داخلہ کی جانب سے بنائی گئی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ وفاقی حکومت اسلام آباد کی 957 مساجد میں سے 868 پر کوئی اثرو رسوخ نہیں رکھتی۔

رپورٹ میں بھی بتایا گیا ہے کہ حکومتی سرپرستی میں چلائی جانے والی 89 مساجد پر تنخواہوں کی مد میں سالانہ تقریباً 5 کروڑ روپے خرچ کیے جاتے ہیں، جبکہ یوٹیلیٹی بلوں اور دیگر اخراجات کی مد میں بھی ایک کروڑ روپے سے زائد کی رقم فراہم کی جاتی ہے۔

تاہم رپورٹ میں علاقہ مکینوں کی اپنی مدد آپ کے تحت چلائی جانے والی مساجد سے متعلق ایسی کوئی معلومات فراہم نہیں کی گئیں۔

وزارت داخلہ اور کیپیٹل ڈولپمنٹ اتھارٹی (سی ڈی اے) حکام نے ڈان کو بتایا کہ نجی طور پر چلائی جانے والی مساجد کا بجٹ سرکاری مساجد کے مقابلے میں کئی گنا زیادہ ہے کیونکہ وہاں نماز کے بڑے اجتماعات ہوتے ہیں۔

حکومتی سرپرستی میں چلائی جانے والی مساجد میں اوسطاً ایک ہزار 500 افراد کی ایک وقت میں جمع ہونے کی گنجائش ہے، جس میں فیصل مسجد اور لال مسجد شامل نہیں۔

سی ڈی اے کے سینیئر حکام کا کہنا تھا کہ نجی سطح پر چلائی جانے والی مساجد کی تعداد میں جنرل ضیاء الحق کے دور حکومت میں اضافہ ہوا جس کے بعد ان کی تعداد مسلسل بڑھتی جارہی ہے۔

وزارت داخلہ کے حکام کا اس حوالے سے کہنا تھا کہ ان مساجد کو اپنے نظم و ضبط کے اندر لانا حکومت کے لیے ایک مشکل کام ہے، تاہم انہیں مکمل آزادی بھی نہیں دی جاسکتی۔

حکام کا کہنا تھا کہ نیشنل ایکشن پلان پر عمل درآمد کے لیے ضروری ہے کہ حکومت ان مساجد کی کڑی نگرانی کرے۔

متعلقہ مضامین

Back to top button