سعودی عرب

سعودی عرب کی جانب سے ایران کے ساتھ دوستانہ تعلقات قائم کرنے پرتاکید

سعودی عرب کے وزیر خارجہ نے جہاں اسلامی جمہوریہ ایران کے ساتھ دوستانہ تعلقات قائم کرنے پر اپنے ملک کی آمادگی کا اعلان کیا ہے وہاں اپنے طور پر یہ بے بنیاد دعوی بھی کیا ہے کہ  ایران لبنان، شام ،عراق، اور یمن میں مداخلت کا مرتکب ہورہا ہے اور اسے اس مداخلت کو ختم کردینا چاہئے۔

۵۳ سالہ عادل الجبیر ۲۰۱۵ میں سعود الفیصل کے بعد سعودی عرب کے وزیر خارجہ بنے ہیں انہوں نے آسٹریا کے اخبار اسٹینڈرڈ سے گفتگو کرتے ہوئے علاقائی مسائل میں سعودی عرب کی کھلی مداخلتوں اور منفی کردار کی طرف اشارہ کئے بغیر ایران کو علاقائی مشکلات کا ذمہ دار قرار دیا ہے حالانکہ صورتحال اسکے برعکس ہے۔

اسلامی جمہوریہ ایران اپنی باوقار سفارتکاری اور گہرے اثر ورسوخ کی وجہ سے علاقے کی عوام میں مقبول اور ایک منفرد حیثیت کا حامل ہے اور خطے کے عوام ایران پر اعتماد اور بھروسہ کرتے ہیں۔

عادل الجبیر ملک عبداللہ کی وفات اور آل سعود کے نئے بادشاہ ملک سلمان کے برسراقتدار آنے کے بعد شاہی ڈھانچے میں آنے والی وسیع تبدیلیاں کے بعد وزیر خارجہ کے عہدے پر فائز ہوئے ہیں۔ عادل الجبیر وزارت خارجہ کا قلمدان سنبھالنے سے پہلے امریکہ میں سعودی سفیر رہ چکے ہیں لیکن ان کے حالیہ بیانات سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ سفارتی آداب اور کشیدگی کے خاتمے کے لئے اپنائی جانے والی خارجہ پالیسی سے مکمل طور پر نابلد ہیں کیونکہ وہ ایک طرف ایران سے اچھے تعلقات قائم کرنے کے خواہاں ہیں اور دوسری طرف تہران پر بے بنیاد الزامات عائد کر رہے ہیں۔

اسلامی جمہوریہ ایران نے ہمیشہ تمام ممالک بالخصوص ہمسایہ ممالک کے ساتھ تعلقات میں فروغ اور تعمیری پالیسیوں کو آگے بڑھانے کے لئے انکی طرف تعاون کا ہاتھ بڑھایا ہے اور خطے میں پائیدار امن و استحکام کے لئے تمام ممالک سے پہلے سے زیادہ اتحاد و یکجہتی برقرار کرنے کا اعلان کیا ہے۔

دوسرے ممالک بالخصوص ہمسایہ ممالک کے ساتھ بہترین ہمسائیگی، دو طرفہ احترام اور عدم مداخلت ،ایران کی خارجہ پالیسی کے تین اہم بنیادی اصول ہیں۔ ایرانی حکام خطے کے بحرانوں کے خاتمے اور مشکلات کے حل کے لئے ہر طرح کے تعاون کے لئے آمادہ ہیں۔

ایران کا دہشتگردی کے خلاف ایک واضح موقف ہے اور وہ اس ناپاک وجود کی کسی سیاسی تعبیر یا اسے کسی مفاد کے حصول کا زریعہ سمجھنے کا مخالف ہے اور اس کے مقابلے پر تاکید کرتا ہے۔ اسلامی جمہوریہ ایران خطے کی عوامی تحریکوں کو ایک خاص نگاہ سے دیکھتا ہے اور اس نے ہمیشہ عوامی محاذوں اور تسلط پسندانہ طاقتوں کے خلاف اہل حق کی معنوی اور اخلاقی حمایت کی ہے۔

ایران، بحرین اور یمن میں چلنے والی اسلامی بیداری کی تحریکوں کی سیاسی اور اخلاقی حمایت  کرتا ہے نیز ان ملکوں میں ملکی دائرہ کار میں رہ کر عوام کے غصب شدہ حقوق کی بازیابی کے لئے کی جانے والی کوششوں کا  بھی حامی ہے۔

ایران کی نگاہ میں یمن اور بحرین کے حالیہ سیاسی اور حکومتی بحرانوں کا واحد منطقی راستہ سیاسی اور قومی مذاکرات کا راستہ ہے۔ علاقے میں پائیدار امن و استحکام کے لئے ایران کی پالیسیاں منطقی، واضح اور شفاف ہیں اور مختلف مواقع پر سعودی اور بحرینی حکام کی جانب سے ایران کے خلاف جو بے بنیاد الزامات لگائے جاتے ہیں وہ سیاسی اور سفارتی آداب کے منافی ہیں۔

ایران تسلط پسند طاقتوں اور علاقے کے بعض فریب خوردہ ممالک کی وجہ سے منظم اور منصوبہ بند دہشتگردی کا شکار ہے  اور وہ بحرین اور یمن میں دہشتگردی کے نتیجے میں ہونے والی قتل و غارت پر ہرگز خوش نہیں ہوتا اور اس نے ان قبیع واقعات کی ہمیشہ مذمت کی ہے۔

اسلامی جمہوریہ ایران کسی ملک یا سرحد کو لالچی نگاہوں سے نہیں دیکھتا اور اپنی تاریخی اصالت کی بناء پر علاقے میں امن و استحکام کے قیام کے لئے بدامنی پھیلانے والے عناصر چاہے وہ شام میں ہوں یا عراق میں انکے خلاف مقابلہ جاری رکھے ہوئے ہے اور اس اقدام کو علاقائی ممالک میں مداخلت نہیں سمجھنا چاہیے۔

متعلقہ مضامین

Back to top button