مشرق وسطی

شام کی تباہی کا تمام تر ذمہ دارکون۔ بشار اسد کا تاریخی انٹرویو

شام کے صدر بشاراسد نے اسلامی جمہوریہ ایران کے نیوز ٹی وی چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے کچھ ایسی باتیں کی ہیں جس سے نہ صرف پورپی حلقوں میں ہلچل مچی ہوئی ہے بلکہ تکفیری بلاک میں بھی تشویش کی لہر دوڑ گئی ہے ۔اس ٹی وی انٹرویو مین بعض ایسے چبھتے ہوئے سوال کئیے گئے ہیں جسکا جواب عرب دنیا کا کوئی بھی حکمران دینے کے لئے تیار نہین ہوتا۔مثلا جب بشار اسد سے پوچھا گیا کہ شام کی تباہی کی تمام تر ذمہ داری آپ پر عائد ہوتی ہے کیونکہ اگر آپ اگر اقتدار سے الگ ہو جاتے تو شام اسطرح بحران کا شکار نہ ہوتا۔اس واضح حملے کے جواب میں بشار اسد نے بڑی متانت سے جواب دیا اور کہا کیا لیبیا میں جو کچھ ہورہا ہے وہ میری وجہ سے کیا مصر میں جو کچھ ہوا میری وجہ سے ہے کیا یمن کی تباہی میں بشار اسد شریک ہے ؟کیا عراق میں داعشی دہشتگردی میرے اقتدار میں رہنے سے ہے۔اسطرف اشارہ کرنے کے بعد بشار اسد نے تکفیری دہشتگردی اسکے عوامل اور شام میں اسکے اھداف پر تفصیل سے روشنی ڈالی۔
شام کے صدر بشاراسد نے اسلامی جمہوریہ ایران کے نیوز ٹی وی چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے آئندہ کے عبوری دور حکومت میں اپنی موجودگی کے بارے میں مغرب کے بعض فریقوں کے موقف میں تبدیلی کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ موقف میں اس تبدیلی سے شام کے حالات کے بارے میں ان کی حیرانی و پریشانی کا پتہ چلتا ہے- بشار اسد نے علاقے اور دنیا کے دوسرے ممالک تک دہشت گردی پھیلنے کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ مغربی ممالک آج دہشت گردوں کی بڑے پیمانے پر حمایت کرنے کا تاوان ادا کر رہے ہیں- شام کے صدر نے داعش دہشت گرد گروہ کے ٹھکانوں پر حملے میں روس کے موقف کے بارے میں کہا کہ روس کی کارروائیاں، صرف فضائی حملوں تک محدود ہیں اور دمشق تمام چیزوں کا کھل کر اعلان کر رہا ہے- شام کے سلسلے میں مغرب بالخصوص اکثر یورپی ممالک کے موقف میں تبدیلی ، اس ملک کی آئندہ عبوری حکومت میں بشاراسد کے کردار پر ان کی تاکید اور شام میں دہشت گردوں کے خلاف روس کے اقدامات، گذشتہ ہفتوں میں شام سے متعلق جملہ بین الاقوامی تبدیلیاں شمار ہوتی ہیں- گذشتہ ہفتوں میں شام میں تیزی سے آنے والی تبدیلیاں کہ جس کا علاقائی اور عالمی سطح پر بڑے پیمانے پر ردعمل سامنے آیا ہے، اس بات کا سبب بنا ہے کہ سیاسی حلقوں میں ان تبدیلیوں کے بارے میں کوئی جامع تجزیہ نہیں ہے- ان حالات میں بشار اسد نے تبدیلیوں اور اس کی وجوہات کی وضاحت کرتے ہوئے، شام کے حالات سے رائے عامہ کو آگاہ کرنے کی کوشش کی ہے- گذشتہ مہینوں میں مغربی حکومتوں کے حمایت یافتہ تکفیری دہشت گردوں کے مقابلے میں شام کی فوج اور عوامی رضاکار فورس کی میدان جنگ میں حاصل ہونے والی کامیابیوں نے دہشت گردوں کے حامیوں کو شام کے سلسلے میں اپنے موقف میں تبدیلی لانے پر مجبور کر دیا ہے- بہت سی مغربی طاقتیں جو اقتدار سے بشار اسد کی برطرفی پر تاکید کر رہی ہیں، اس وقت شامی حکومت کے سلسلے میں اپنا موقف تبدیل کرچکی ہیں- اس سلسلے میں دہشت گردوں کے خلاف شام میں روس کے فضائی حملے ایسے عالم میں شروع ہوئے ہیں کہ داعش کے خلاف جنگ کے لئے امریکہ کی زیر قیادت اتحاد کے شام اور عراق میں مہینوں سے جاری فضائی حملوں کا نہ صرف کوئی نتیجہ نہیں نکلا ہے بلکہ یہ حملے شام اور عراق میں دہشت گردوں کے اقدامات بڑھنے پر منتج ہوئے ہیں- روس نے ستمبر کے مہینے سے شام میں اپنے فوجی اقدامات تیز کر دیئے تھے اور پارلیمنٹ سے شام میں فوج بھیجنے کی اجازت حاصل کرکے گذشتہ ہفتے سے باقاعدہ طور پر شام میں فضائی حملے شروع کر دیئے ہیں- بحران شام میں روس کی بھرپور موجودگی نے امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی اسٹراٹیجی کو پہلے سے زیادہ بے اثر کر دیا ہے – امریکہ اور اس کے اتحادی، شام میں بحران شروع ہونے کے بعد سے ہی اس ملک کے صدر بشار اسد کی اقتدار سے برطرفی کا مطالبہ کر رہے ہیں اس کے مقابلے میں ماسکو شروع سے ہی شام کی قانونی حکومت کی حمایت پر تاکید کر رہا ہے اور اس نے ثابت کر دیا ہے کہ اس مقصد کے لئے وہ فوجی مرحلے میں داخل ہونے کے لئے بھی تیار ہے- شام کے حالات نے یک قطبی عالمی نظام قائم کرنے میں مغرب کی ناکامی کو نمایاں کر دیا ہے- درحقیقت مغرب کی تسلط پسندی کے مقابلے میں علاقے میں عوامی استقامت نے مشرق وسطی اور عالمی سطح پر مغرب کے اندازوں ( منصوبوں) کو درہم برہم کر دیا ہے- مسلمہ امر یہ ہے کہ مغرب کی حمایت یافتہ داعشی دہشت گردی کے باعث امن عالم کو شدید نقصان پہنچا ہے- اس مسئلے سے تمام عالمی طاقتیں تشویش میں مبتلا ہوگئی ہیں اور اس کے سبب یہ طاقتیں دہشت گردوں کے خلاف جنگ میں براہ راست کود پڑی ہیں- بحران شام نہایت پیچیدہ اور ایک الجھا ہوا مسئلہ ہے لیکن اس بحران کی جڑیں، بیرونی مداخلت، دہشت گردوں کے لئے فنڈ اور اسلحوں کی فراہمی نیز شام میں دہشت گردوں کے مسلسل داخل ہونے میں پیوست ہیں-
شام کی نئی تبدیلیاں ، مغرب بالخصوص ترکی اور اکثر عرب حکومتوں کے لئے اس پیغام کی حامل ہیں کہ اگرچہ وہ شام کا بحران شروع کرنے والی ہیں لیکن اس بحران کے اختتام کووہ اپنی مرضی سے رقم نہیں کر سکتیں اور انھیں شام اور علاقے میں اپنی سازشوں کے نتائج کا ہر صورت میں سامنا کرنا ہی پڑے گا اور وہ دن دور نہیں جب داعشی دہشتگردی کی آگ اپنے تشکیل دینے والے بادشاہوں،آمروں اور نام نہاد فتوی بازوں کو اپنی لپیٹ میں لے لے گی۔

متعلقہ مضامین

Back to top button